تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب رفع اليدين في الاستسقاء، حديث:1173، وقصة التحويل: ذكرها البخاري، الاستسقاء، حديث:1024، ومرسل أبي جعفر أخرجه الدارقطني:2 /66، وسنده ضعيف، حفص بن غياث مدلس وعنعن، والسند مرسل.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز عید کے برعکس نماز استسقا کے موقع پر منبر باہر لے جانا جائز ہے۔
2. خطبۂاستسقا نماز سے پہلے پڑھا گیا اور استسقا کے لیے آپ نے دعا میں ہاتھ اتنے اوپر اٹھائے کہ بقول حضرت انس رضی اللہ عنہ میں نے رسول اللہ کو کسی موقع پر اتنے بلند ہاتھ اٹھائے ہوئے نہیں دیکھا۔
(صحیح البخاري‘ المناقب‘ باب صفۃ النبي صلی اللہ علیہ وسلم ‘ حدیث:۳۵۶۵‘ وصحیح مسلم‘ صلاۃ الاستسقاء‘ باب رفع الیدین بالدعاء في الاستسقاء‘ حدیث: ۸۹۶) امام نووی رحمہ اللہ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کے بارے میں تیس احادیث جمع کی ہیں۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا بھی مسنون ہے۔
3.اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبے کا آغاز بسم اللہ سے نہیں بلکہ الحمد للہ سے کرنا مسنون ہے۔
اس کے علاوہ کسی دوسرے لفظ سے آغاز صحیح نہیں۔
سنن دارقطنی کی ابو جعفر باقر والی مرسل روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مستدرک حاکم اور بیہقی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس لیے الٹی کہ قحط
(خوشحالی میں) بدل جائے۔
اسے امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے‘ دیکھیے:
(المستدرک للحاکم:۱ / ۳۲۶‘ والسنن الکبرٰی للبیھقي:۳ / ۳۵۱) لہٰذا دارقطنی کی مرسل روایت سے اس کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اسے موصولاً روایت کرنے والا راوی ثقہ ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت ابوجعفر باقر رحمہ اللہ» ابوجعفر
”باقر
“ (قاف کے نیچے کسرہ) کی کنیت ہے۔
نام محمد بن علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب ہے۔
امامیہ اثنا عشریہ شیعہ کے عقیدے کے مطابق بارہ ائمہ میں سے ان کا پانچواں نمبر ہے۔
انھیں
”باقر
“ اس لیے کہتے ہیں کہ تبقر کے معنی وسعت علمی کے ہیں اور ان کا علم بڑا وسیع تھا‘ بڑے ماہر و متبحر عالم تھے۔
۵۶ ہجری میں پیدا ہوئے۔
۱۱۷ ہجری میں تریسٹھ برس کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔