(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مالك بن مغول، عن طلحة بن مصرف، عن مرة، عن عبد الله، قال: لما بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم سدرة المنتهى، قال: " انتهى إليها ما يعرج من الارض، وما ينزل من فوق "، قال: فاعطاه الله عندها ثلاثا لم يعطهن نبيا كان قبله، فرضت عليه الصلاة خمسا، واعطي خواتيم سورة البقرة، وغفر لامته المقحمات ما لم يشركوا بالله شيئا، قال ابن مسعود: إذ يغشى السدرة ما يغشى سورة النجم آية 16، قال: السدرة في السماء السادسة، قال سفيان: فراش من ذهب، واشار سفيان بيده فارعدها، وقال غير مالك بن مغول: إليها ينتهي علم الخلق لا علم لهم بما فوق ذلك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِدْرَةَ الْمُنْتَهَى، قَالَ: " انْتَهَى إِلَيْهَا مَا يَعْرُجُ مِنَ الْأَرْضِ، وَمَا يَنْزِلُ مِنْ فَوْقَ "، قَالَ: فَأَعْطَاهُ اللَّهُ عِنْدَهَا ثَلَاثًا لَمْ يُعْطِهِنَّ نَبِيًّا كَانَ قَبْلَهُ، فُرِضَتْ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ خَمْسًا، وَأُعْطِيَ خَوَاتِيمَ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، وَغُفِرَ لِأُمَّتِهِ الْمُقْحِمَاتُ مَا لَمْ يُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: إِذْ يَغْشَى السِّدْرَةَ مَا يَغْشَى سورة النجم آية 16، قَالَ: السِّدْرَةُ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ سُفْيَانُ: فَرَاشٌ مِنْ ذَهَبٍ، وَأَشَارَ سُفْيَانُ بِيَدِهِ فَأَرْعَدَهَا، وَقَالَ غَيْرُ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ: إِلَيْهَا يَنْتَهِي عِلْمُ الْخَلْقِ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِمَا فَوْقَ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (معراج کی رات) سدرۃ المنتہیٰ کے پاس پہنچے تو کہا: یہی وہ آخری جگہ ہے جہاں زمین سے چیزیں اٹھ کر پہنچتی ہیں اور یہی وہ بلندی کی آخری حد ہے جہاں سے چیزیں نیچے آتی اور اترتی ہیں، یہیں اللہ نے آپ کو وہ تین چیزیں عطا فرمائیں جو آپ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں فرمائی تھیں، (۱) آپ پر پانچ نمازیں فرض کی گئیں، (۲) سورۃ البقرہ کی «خواتیم»(آخری آیات) عطا کی گئیں، (۳) اور آپ کی امتیوں میں سے جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا، ان کے مہلک و بھیانک گناہ بھی بخش دیئے گئے، (پھر) ابن مسعود رضی الله عنہ نے آیت «إذ يغشى السدرة ما يغشى»”ڈھانپ رہی تھی سدرہ کو جو چیز ڈھانپ رہی تھی“(النجم: ۱۶)، پڑھ کر کہا «السدرہ»(بیری کا درخت) چھٹے آسمان پر ہے، سفیان کہتے ہیں: سونے کے پروانے ڈھانپ رہے تھے اور سفیان نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر کے انہیں چونکا دیا (یعنی تصور میں چونک کر ان پروانوں کے اڑنے کی کیفیت دکھائی) مالک بن مغول کے سوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہیں تک مخلوق کے علم کی پہنچ ہے اس سے اوپر کیا کچھ ہے کیا کچھ ہوتا ہے انہیں اس کا کچھ بھی علم اور کچھ بھی خبر نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 76 (173)، سنن النسائی/الصلاة 1 (452) (تحفة الأشراف: 9548)، و مسند احمد (1/387، 422) (صحیح)»
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے مسلسل کئی راتیں خالی پیٹ گزار دیتے، اور رات کا کھانا نہیں پاتے تھے۔ اور ان کی اکثر خوراک جو کی روٹی ہوتی تھی۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن بريد بن عبد الله، عن ابي بردة، عن ابي موسى، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله تبارك وتعالى يملي، وربما قال: يمهل، للظالم حتى إذا اخذه لم يفلته ثم قرا وكذلك اخذ ربك إذا اخذ القرى وهي ظالمة سورة هود آية 102 الآية "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وقد رواه ابو اسامة، عن بريد نحوه، وقال: يملي.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يُمْلِي، وَرُبَّمَا قَالَ: يُمْهِلُ، لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ ثُمَّ قَرَأَ وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ سورة هود آية 102 الْآيَةَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدٍ نَحْوَهُ، وَقَالَ: يُمْلِي.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے مگر جب اسے گرفت میں لے لیتا ہے پھر تو اسے چھوڑتا بھی نہیں“، پھر آپ نے آیت «وكذلك أخذ ربك إذا أخذ القرى وهي ظالمة»”ایسی ہی ہے تیرے رب کی پکڑ جب وہ کسی ظالم بستی والے کو پکڑتا ہے تو اس کی پکڑ بڑی سخت، درد ناک ہوتی ہے“(ہود: ۱۰۲)، تلاوت فرمائی۔ (راوی ابومعاویہ نے کبھی «یملی» کہا اور کبھی «یمہل» دونوں کا معنی ایک ہے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- ابواسامہ نے بھی اسے برید سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور «یُملی» کا لفظ استعمال کیا ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، اخبرني سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حين اسري بي، لقيت موسى، قال فنعته، فإذا رجل حسبته، قال: مضطرب رجل الراس كانه من رجال شنوءة، قال: ولقيت عيسى، قال فنعته، قال: ربعة احمر كانما خرج من ديماس يعني الحمام، ورايت إبراهيم، قال: وانا اشبه ولده به، قال: واتيت بإناءين احدهما لبن والآخر خمر، فقيل لي: خذ ايهما شئت، فاخذت اللبن فشربته، فقيل لي: هديت للفطرة او اصبت الفطرة، اما إنك لو اخذت الخمر غوت امتك "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حِينَ أُسْرِيَ بِي، لَقِيتُ مُوسَى، قَالَ فَنَعَتَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ حَسِبْتُهُ، قَالَ: مُضْطَرِبٌ رَجِلُ الرَّأْسِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، قَالَ: وَلَقِيتُ عِيسَى، قَالَ فَنَعَتَهُ، قَالَ: رَبْعَةٌ أَحْمَرُ كَأَنَّمَا خَرَجَ مِنْ دِيمَاسٍ يَعْنِي الْحَمَّامَ، وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: وَأَنَا أَشْبَهُ وَلَدِهِ بِهِ، قَالَ: وَأُتِيتُ بِإِنَاءَيْنِ أَحَدُهُمَا لَبَنٌ وَالْآخَرُ خَمْرٌ، فَقِيلَ لِي: خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ، فَأَخَذْتُ اللَّبَنَ فَشَرِبْتُهُ، فَقِيلَ لِي: هُدِيتَ لِلْفِطْرَةِ أَوْ أَصَبْتَ الْفِطْرَةَ، أَمَا إِنَّكَ لَوْ أَخَذْتَ الْخَمْرَ غَوَتْ أُمَّتُكَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(معراج کی رات) جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا تو میری ملاقات موسیٰ (علیہ السلام) سے ہوئی، آپ نے ان کا حلیہ بتایا“ اور میرا گمان یہ ہے کہ آپ نے فرمایا: ”موسیٰ لمبے قد والے تھے: ہلکے پھلکے روغن آمیز سر کے بال تھے، شنوءۃ قوم کے لوگوں میں سے لگتے تھے“، آپ نے فرمایا: ”میری ملاقات عیسیٰ (علیہ السلام) سے بھی ہوئی“، آپ نے ان کا بھی وصف بیان کیا، فرمایا: ”عیسیٰ درمیانے قد کے سرخ (سفید) رنگ کے تھے، ایسا لگتا تھا گویا ابھی دیماس (غسل خانہ) سے نہا دھو کر نکل کر آ رہے ہوں، میں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بھی دیکھا، میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہہ ہوں“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک دودھ کا پیالہ تھا اور دوسرے میں شراب تھی، مجھ سے کہا گیا: جسے چاہو لے لو، تو میں نے دودھ کا پیالہ لے لیا اور دودھ پی گیا، مجھ سے کہا گیا: آپ کو فطرت کی طرف رہنمائی مل گئی، یا آپ نے فطرت سے ہم آہنگ اور درست قدم اٹھایا، اگر آپ نے شراب کا برتن لے لیا ہوتا تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: یعنی تباہی و بربادی کا شکار ہوتی اس لیے کہ شراب کا خاصہ ہی یہی ہے۔ (مولف نے ان احادیث کو ”اسراء اور معراج“ کی مناسبت کی وجہ سے ذکر کیا جن کا بیان اس باب کے شروع میں ہے)
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(معراج کی رات) جب ہم بیت المقدس پہنچے تو جبرائیل علیہ السلام نے اپنی انگلی کے اشارے سے پتھر میں شگاف کر دیا اور براق کو اس سے باندھ دیا۔
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن مسعر، عن عاصم بن ابي النجود، عن زر بن حبيش، قال: قلت لحذيفة بن اليمان " اصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيت المقدس؟، قال: لا، قلت: بلى، قال: انت تقول ذاك يا اصلع، بم تقول ذلك؟ قلت: بالقرآن، بيني وبينك القرآن، فقال حذيفة: من احتج بالقرآن فقد افلح، قال سفيان: يقول فقد احتج وربما قال قد فلج، فقال: سبحان الذي اسرى بعبده ليلا من المسجد الحرام إلى المسجد الاقصى سورة الإسراء آية 1، قال: افتراه صلى فيه؟ قلت: لا، قال: لو صلى فيه لكتبت عليكم الصلاة فيه كما كتبت الصلاة في المسجد الحرام، قال حذيفة: اتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بدابة طويلة الظهر ممدودة هكذا خطوه مد بصره، فما زايلا ظهر البراق حتى رايا الجنة والنار، ووعد الآخرة اجمع ثم رجعا عودهما على بدئهما، قال: ويتحدثون انه ربطه لم ايفر منه وإنما سخره له عالم الغيب والشهادة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ، قَالَ: قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ " أَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: أَنْتَ تَقُولُ ذَاكَ يَا أَصْلَعُ، بِمَ تَقُولُ ذَلِكَ؟ قُلْتُ: بِالْقُرْآنِ، بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: مَنِ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ أَفْلَحَ، قَالَ سُفْيَانُ: يَقُولُ فَقَدِ احْتَجَّ وَرُبَّمَا قَالَ قَدْ فَلَجَ، فَقَالَ: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الأَقْصَى سورة الإسراء آية 1، قَالَ: أَفَتُرَاهُ صَلَّى فِيهِ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: لَوْ صَلَّى فِيهِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلَاةُ فِيهِ كَمَا كُتِبَتِ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، قَالَ حُذَيْفَةُ: أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِيلَةِ الظَّهْرِ مَمْدُودَةٍ هَكَذَا خَطْوُهُ مَدُّ بَصَرِهِ، فَمَا زَايَلَا ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّى رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ ثُمَّ رَجَعَا عَوْدَهُمَا عَلَى بَدْئِهِمَا، قَالَ: وَيَتَحَدَّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: بیشک پڑھی تھی، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتا ہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زر بن حبیش نے کہا: میں نے «سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجدالحرام إلى المسجد الأقصى»۱؎ آیت پیش کی، حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: کیا تم اس آیت میں کہیں یہ دیکھتے ہو کہ آپ نے نماز پڑھی ہے؟ میں نے کہا: نہیں، انہوں نے کہا: اگر آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے وہاں نماز پڑھ لی ہوتی تو تم پر وہاں نماز پڑھنی ویسے ہی فرض ہو جاتی جیسا کہ مسجد الحرام میں پڑھنی فرض کر دی گئی ہے ۲؎، حذیفہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لمبی چوڑی پیٹھ والا جانور (براق) لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا جہاں اس کی نظر پہنچتی اور وہ دونوں اس وقت تک براق پر سوار رہے جب تک کہ جنت جہنم اور آخرت کے وعدہ کی ساری چیزیں دیکھ نہ لیں، پھر وہ دونوں لوٹے، اور ان کا لوٹنا ان کے شروع کرنے کے انداز سے تھا ۳؎ لوگ بیان کرتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے اسے (یعنی براق کو بیت المقدس میں) باندھ دیا تھا، کیوں باندھ دیا تھا؟ کیا اس لیے کہ کہیں بھاگ نہ جائے؟ (غلط بات ہے) جس جانور کو عالم الغیب والشھادۃ غائب و موجود ہر چیز کے جاننے والے نے آپ کے لیے مسخر کر دیا ہو وہ کہیں بھاگ سکتا ہے؟ نہیں۔
وضاحت: ۱؎: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک۔
۲؎: حذیفہ رضی الله عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے، ورنہ احادیث میں واضح طور سے آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں انبیاء کی امامت کی تھی، اور براق کو وہاں باندھا بھی تھا جہاں دیگر انبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (التحفۃ مع الفتح)۔
۳؎: یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن جعفر، وابن ابي عدي، عن سعيد بن ابي عروبة، عن قتادة، عن انس بن مالك، عن مالك بن صعصعة رجل من قومه، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " بينما انا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول: احد بين الثلاثة، فاتيت بطست من ذهب فيها ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا، قال قتادة: قلت لانس بن مالك: ما يعني؟ قال: إلى اسفل بطني، فاستخرج قلبي فغسل قلبي بماء زمزم ثم اعيد مكانه ثم حشي إيمانا وحكمة "، وفي الحديث قصة طويلة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه هشام الدستوائي، وهمام، عن قتادة، وفيه عن ابي ذر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ صَعْصَعَةَ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَمَا أَنَا عِنْدَ الْبَيْتِ بَيْنَ النَّائِمِ وَالْيَقْظَانِ إِذْ سَمِعْتُ قَائِلًا يَقُولُ: أَحَدٌ بَيْنَ الثَّلَاثَةِ، فَأُتِيتُ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ فِيهَا مَاءُ زَمْزَمَ فَشَرَحَ صَدْرِي إِلَى كَذَا وَكَذَا، قَالَ قَتَادَةُ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: مَا يَعْنِي؟ قَالَ: إِلَى أَسْفَلِ بَطْنِي، فَاسْتُخْرِجَ قَلْبِي فَغُسِلَ قَلْبِي بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ أُعِيدَ مَكَانَهُ ثُمَّ حُشِيَ إِيمَانًا وَحِكْمَةً "، وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ هِشَامٌ الدَّسْتُوَائِيُّ، وَهَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، وَفِيهِ عَنْ أَبِي ذَرٍّ.
انس بن مالک رضی الله عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں)۱؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک“، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: ”پیٹ کے نیچے تک“، پھر آپ نے فرمایا: ”اس نے میرا دل نکالا، پھر اس نے میرے دل کو زمزم سے دھویا، پھر دل کو اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا اور ایمان و حکمت سے اسے بھر دیا گیا ۲؎ اس حدیث میں ایک لمبا قصہ ہے“۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲- اسے ہشام دستوائی اور ہمام نے قتادہ سے روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں ابوذر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابي الزبير، عن جابر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " عرض علي الانبياء فإذا موسى ضرب من الرجال كانه من رجال شنوءة، ورايت عيسى ابن مريم فإذا اقرب الناس من رايت به شبها عروة بن مسعود، ورايت إبراهيم فإذا اقرب من رايت به شبها صاحبكم يعني نفسه، ورايت جبريل فإذا اقرب من رايت به شبها دحية هو ابن خليفة الكلبي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عُرِضَ عَلَيَّ الْأَنْبِيَاءُ فَإِذَا مُوسَى ضَرْبٌ مِنَ الرِّجَالِ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ، وَرَأَيْتُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَإِذَا أَقْرَبُ النَّاسِ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا عُرْوَةُ بْنُ مَسْعُودٍ، وَرَأَيْتُ إِبْرَاهِيمَ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا صَاحِبُكُمْ يَعْنِي نَفْسَهُ، وَرَأَيْتُ جِبْرِيلَ فَإِذَا أَقْرَبُ مَنْ رَأَيْتُ بِهِ شَبَهًا دِحْيَةُ هُوَ ابْنُ خَلِيفَةَ الْكَلْبِيُّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انبیاء میرے سامنے پیش کئے گئے تو موسیٰ علیہ السلام ایک چھریرے جوان تھے، گویا وہ قبیلہ شنوءہ کے ایک فرد ہیں اور میں نے عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو دیکھا تو میں نے جن لوگوں کو دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے عروہ بن مسعود رضی الله عنہ ہیں اور میں نے ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا تو ان سے زیادہ مشابہت رکھنے والا تمہارا یہ ساتھی ہے ۱؎، اور اس سے مراد آپ خود اپنی ذات کو لیتے تھے، اور میں نے جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا تو جن لوگوں کو میں نے دیکھا ہے ان میں سب سے زیادہ ان سے مشابہت رکھنے والے دحیہ کلبی ہیں، یہ خلیفہ کلبی کے بیٹے ہیں“۔