19. باب مَا جَاءَ أَنَّ الأَمْوَالَ لِلْوَرَثَةِ وَالْعَقْلَ عَلَى الْعَصَبَةِ
19. باب: مال وارثوں کا ہے اور دیت عصبہ پر ہے۔
Chapter: What has been Related About 'The Inheritance Is For The Heir And The 'Aql (Blood-Money) Is Due From The 'Asabah (Relatives From The Fathers Side')
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی ایک عورت کے بارے میں جس کا حمل ساقط ہو کر بچہ مر گیا تھا ایک «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا، (حمل گرانے والی مجرمہ ایک عورت تھی) پھر جس عورت کے بارے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ (بطور دیت) غرہ (غلام) دے، مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ ”اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر میں تقسیم ہو گی، اور اس پر عائد ہونے والی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہو گی“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یونس نے یہ حدیث «عن الزهري عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی روایت کی ہے، ۲- مالک نے یہ حدیث «عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة» کی سند سے روایت کی ہے، اور مالک نے «عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے جو حدیث روایت کی ہے وہ مرسل ہے۔
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي , حدثنا ابن ابي زائدة , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة عن ابي هريرة، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة عبد او امة , فقال الذي قضي عليه , ايعطى من لا شرب , ولا اكل , ولا صاح , فاستهل , فمثل ذلك يطل , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن هذا ليقول بقول شاعر: بل فيه غرة عبد , او امة ". وفي الباب , عن حمل بن مالك بن النابغة , والمغيرة بن شعبة , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم , وقال بعضهم: الغرة عبد او امة , او خمس مائة درهم , وقال بعضهم: او فرس او بغل.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ , فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ , أَيُعْطَى مَنْ لَا شَرِبَ , وَلَا أَكَلَ , وَلَا صَاحَ , فَاسْتَهَلَّ , فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ: بَلْ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ , أَوْ أَمَةٌ ". وَفِي الْبَاب , عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ , وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ , أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جنين»(حمل) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون تو ضائع اور باطل ہو جاتا ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ شاعروں والی بات کر رہا ہے ۱؎، «جنين»(حمل گرا دینے) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اور مغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- غرہ کی تفسیر بعض اہل علم نے، غلام، لونڈی یا پانچ سو درہم سے کی ہے، ۵- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: «غرة» سے مراد گھوڑا یا خچر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 46 (5758)، والفرائض 11 (5759)، والدیات 25 (6904)، و 10 6909، 6910)، صحیح مسلم/القسامة 11 (1681)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4576)، القسامة 39 (4822)، سنن ابن ماجہ/الدیات 11 (2639)، (تحفة الأشراف: 5106)، و موطا امام مالک/العقول 7 (5)، و مسند احمد (2/236، 274، 438، 498، 535، 539)، وانظر ما یأتي برقم: 2111 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کو رد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کلام مسجع ملتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلا ہے۔
۲؎: یہ اس صورت میں ہو گا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہو پھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مر جائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہو گا۔
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تو اس کا حمل ساقط ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حمل کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: زید بن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی، اور سفیان ثوری نے منصور سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کی ہے۔
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث قتل کی دوسری قسم ”شبہ عمد“ کے سلسلہ میں اصل ہے، شبہ عمد: وہ قتل ہے جس میں قتل کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عموماً قتل واقع نہیں ہوتا جیسے: لاٹھی اور اسی جیسی دوسری چیزیں، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے، یہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی، اس دیت کی ذمہ داری قاتل کے عصبہ پر ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باپ کی جہت سے قاتل کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہیں، خواہ اس کے وارثین میں سے نہ ہوں۔