سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: وراثت کے احکام و مسائل
Chapters On Inheritance
19. باب مَا جَاءَ أَنَّ الأَمْوَالَ لِلْوَرَثَةِ وَالْعَقْلَ عَلَى الْعَصَبَةِ
19. باب: مال وارثوں کا ہے اور دیت عصبہ پر ہے۔
Chapter: What has been Related About 'The Inheritance Is For The Heir And The 'Aql (Blood-Money) Is Due From The 'Asabah (Relatives From The Fathers Side')
حدیث نمبر: 2111
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قضى في جنين امراة من بني لحيان سقط ميتا بغرة عبد او امة، ثم إن المراة التي قضي عليها بالغرة توفيت، فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ميراثها لبنيها وزوجها، وان عقلها على عصبتها "، قال ابو عيسى: وروى يونس هذا الحديث، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، وابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، ورواه مالك، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، ومالك، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسل.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَضَى فِي جَنِينِ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي لِحْيَانَ سَقَطَ مَيِّتًا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قُضِيَ عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَزَوْجِهَا، وَأَنَّ عَقْلَهَا عَلَى عَصَبَتِهَا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى يُونُسُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، وَأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَرَوَاهُ مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَمَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی ایک عورت کے بارے میں جس کا حمل ساقط ہو کر بچہ مر گیا تھا ایک «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا، (حمل گرانے والی مجرمہ ایک عورت تھی) پھر جس عورت کے بارے میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ وہ (بطور دیت) غرہ (غلام) دے، مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ اس کی میراث اس کے لڑکوں اور شوہر میں تقسیم ہو گی، اور اس پر عائد ہونے والی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہو گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یونس نے یہ حدیث «عن الزهري عن سعيد بن المسيب وأبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے اسی جیسی روایت کی ہے،
۲- مالک نے یہ حدیث «عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة» کی سند سے روایت کی ہے، اور مالک نے «عن الزهري عن سعيد بن المسيب عن النبي صلى الله عليه وسلم» کی سند سے جو حدیث روایت کی ہے وہ مرسل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الفرائض 11 (6740)، والدیات 26 (6909، 6910)، صحیح مسلم/القسامة (الحدود) 11 (1681)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4577)، سنن النسائی/القسامة 39 (4821) (تحفة الأشراف: 13225)، و مسند احمد (2/236، 539) (وانظر ماتقدم برقم 1410) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2205)
حدیث نمبر: 1410
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن سعيد الكندي الكوفي , حدثنا ابن ابي زائدة , عن محمد بن عمرو , عن ابي سلمة عن ابي هريرة، قال: قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين بغرة عبد او امة , فقال الذي قضي عليه , ايعطى من لا شرب , ولا اكل , ولا صاح , فاستهل , فمثل ذلك يطل , فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن هذا ليقول بقول شاعر: بل فيه غرة عبد , او امة ". وفي الباب , عن حمل بن مالك بن النابغة , والمغيرة بن شعبة , قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح , والعمل على هذا عند اهل العلم , وقال بعضهم: الغرة عبد او امة , او خمس مائة درهم , وقال بعضهم: او فرس او بغل.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ , فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ , أَيُعْطَى مَنْ لَا شَرِبَ , وَلَا أَكَلَ , وَلَا صَاحَ , فَاسْتَهَلَّ , فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ: بَلْ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ , أَوْ أَمَةٌ ". وَفِي الْبَاب , عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ , وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ , أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جنين» (حمل) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی (دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون تو ضائع اور باطل ہو جاتا ہے، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شاعروں والی بات کر رہا ہے ۱؎، «جنين» (حمل گرا دینے) کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اور مغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- غرہ کی تفسیر بعض اہل علم نے، غلام، لونڈی یا پانچ سو درہم سے کی ہے،
۵- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: «غرة» سے مراد گھوڑا یا خچر ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 46 (5758)، والفرائض 11 (5759)، والدیات 25 (6904)، و 10 6909، 6910)، صحیح مسلم/القسامة 11 (1681)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4576)، القسامة 39 (4822)، سنن ابن ماجہ/الدیات 11 (2639)، (تحفة الأشراف: 5106)، و موطا امام مالک/العقول 7 (5)، و مسند احمد (2/236، 274، 438، 498، 535، 539)، وانظر ما یأتي برقم: 2111 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کو رد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کلام مسجع ملتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلا ہے۔
۲؎: یہ اس صورت میں ہو گا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہو پھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مر جائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2639)
حدیث نمبر: 1411
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي الخلال , حدثنا وهب بن جرير , حدثنا شعبة , عن منصور , عن إبراهيم , عن عبيد بن نضلة , عن المغيرة بن شعبة , ان امراتين كانتا ضرتين , فرمت إحداهما الاخرى بحجر , او عمود فسطاط , فالقت جنينها " فقضى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الجنين غرة عبد , او امة، وجعله على عصبة المراة ". قال الحسن , واخبرنا زيد بن حباب , عن سفيان , عن منصور , بهذا الحديث نحوه , وقال: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ , حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ , عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا ضَرَّتَيْنِ , فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ , أَوْ عَمُودِ فُسْطَاطٍ , فَأَلْقَتْ جَنِينَهَا " فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ غُرَّةٌ عَبْدٌ , أَوْ أَمَةٌ، وَجَعَلَهُ عَلَى عَصَبَةِ الْمَرْأَةِ ". قَالَ الْحَسَنُ , وَأَخْبَرَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ , بِهَذَا الْحَدِيثِ نَحْوَهُ , وقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں سوکن تھیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر یا خیمے کی میخ (گھونٹی) سے مارا، تو اس کا حمل ساقط ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حمل کی دیت میں «غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ فرمایا اور دیت کی ادائیگی اس عورت کے عصبہ کے ذمہ ٹھہرائی ۱؎۔ حسن بصری کہتے ہیں: زید بن حباب نے سفیان ثوری سے روایت کی، اور سفیان ثوری نے منصور سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدیات 25 (6904 - 6908)، صحیح مسلم/القسامة (الحدود)، 11 (1682)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4568)، سنن النسائی/القسامة 39 (4825)، سنن ابن ماجہ/الدیات 7 (2640)، (تحفة الأشراف: 11510)، و مسند احمد (4/224، 245، 246، 249)، و سنن الدارمی/الدیات 20 (2425) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث قتل کی دوسری قسم شبہ عمد کے سلسلہ میں اصل ہے، شبہ عمد: وہ قتل ہے جس میں قتل کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال ہوتا ہے جن سے عموماً قتل واقع نہیں ہوتا جیسے: لاٹھی اور اسی جیسی دوسری چیزیں، اس میں دیت مغلظہ لی جاتی ہے، یہ سو اونٹ ہے، ان میں چالیس حاملہ اونٹنیاں ہوں گی، اس دیت کی ذمہ داری قاتل کے عصبہ پر ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو باپ کی جہت سے قاتل کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہیں، خواہ اس کے وارثین میں سے نہ ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2206)

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.