سنن ترمذي
كتاب الديات عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
15. باب مَا جَاءَ فِي دِيَةِ الْجَنِينِ
باب: حمل (ماں کے پیٹ میں موجود بچہ) کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1410
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَعِيدٍ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ , فَقَالَ الَّذِي قُضِيَ عَلَيْهِ , أَيُعْطَى مَنْ لَا شَرِبَ , وَلَا أَكَلَ , وَلَا صَاحَ , فَاسْتَهَلَّ , فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلَّ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ هَذَا لَيَقُولُ بِقَوْلِ شَاعِرٍ: بَلْ فِيهِ غُرَّةٌ عَبْدٌ , أَوْ أَمَةٌ ". وَفِي الْبَاب , عَنْ حَمَلِ بْنِ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ , وَالْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ , قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: الْغُرَّةُ عَبْدٌ أَوْ أَمَةٌ , أَوْ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ , وقَالَ بَعْضُهُمْ: أَوْ فَرَسٌ أَوْ بَغْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے
«جنين» (حمل) کی دیت میں
«غرة» یعنی غلام یا لونڈی
(دینے) کا فیصلہ کیا، جس کے خلاف فیصلہ کیا گیا تھا وہ کہنے لگا: کیا ایسے کی دیت دی جائے گی، جس نے نہ کچھ کھایا نہ پیا، نہ چیخا، نہ آواز نکالی، اس طرح کا خون تو ضائع اور باطل ہو جاتا ہے،
(یہ سن کر) نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہ شاعروں والی بات کر رہا ہے
۱؎،
«جنين» (حمل گرا دینے) کی دیت میں
«غرة» یعنی غلام یا لونڈی دینا ہے
“ ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں حمل بن مالک بن نابغہ اور مغیرہ بن شعبہ سے احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- غرہ کی تفسیر بعض اہل علم نے، غلام، لونڈی یا پانچ سو درہم سے کی ہے،
۵- اور بعض اہل علم کہتے ہیں:
«غرة» سے مراد گھوڑا یا خچر ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 46 (5758)، والفرائض 11 (5759)، والدیات 25 (6904)، و 10 6909، 6910)، صحیح مسلم/القسامة 11 (1681)، سنن ابی داود/ الدیات 21 (4576)، القسامة 39 (4822)، سنن ابن ماجہ/الدیات 11 (2639)، (تحفة الأشراف: 5106)، و موطا امام مالک/العقول 7 (5)، و مسند احمد (2/236، 274، 438، 498، 535، 539)، وانظر ما یأتي برقم: 2111 (صحیح)»
وضاحت:
۱؎: چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کو رد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی، اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت کی، اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض کلام مسجع ملتا ہے، یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلا ہے۔
۲؎: یہ اس صورت میں ہو گا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہو پھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مر جائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہو گا۔قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2639)
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1410 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1410
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
چونکہ اس آدمی نے ایک شرعی حکم کورد کرنے اور باطل کو ثابت کرنے کے لیے بتکلف قافیہ دار اور مسجع بات کہی،
اسی لیے نبی اکرمﷺنے اس کی مذمت کی،
اگر مسجع کلام سے مقصود یہ نہ ہوتو اس میں کوئی حرج نہیں،
رسول اللہ ﷺ کا بعض کلام مسجع ملتا ہے،
یہ اور بات ہے کہ ایسا آپ کی زبان مبارک سے اتفاقاً بلاقصد و ارادہ نکلا ہے۔
2؎:
یہ اس صورت میں ہوگا جب بچہ پیٹ سے مردہ نکلے اور اگر زندہ پیدا ہو پھر پیٹ میں پہنچنے والی مار کے اثر سے وہ مرجائے تو اس میں دیت یا قصاص واجب ہوگا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1410
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1002
´(جنایات کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہذیل قبیلہ کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک نے دوسری پر پتھر دے مارا۔ اس پتھر سے وہ عورت اور اس کے پیٹ کا بچہ مر گیا تو اس کے وارث مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا ” جنین کے بدلے ایک لونڈی یا غلام ہے اور عورت کے بدلے قاتل کے وارثوں پر دیت عائد فرما دی اور اس کے خون بہا کا وارث اس کی اولاد کو بنایا اور ان وارثوں کو بھی جو ان کے ساتھ تھے۔“ حمل بن نابغہ ھذلی نے کہا ” اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم ایسے بچے کا بدلہ کیسے دیں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا اور نہ چیخا۔ اس طرح کا حکم تو قابل اعتبار نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس نے تو کاہنوں کی سی قافیہ بندی کی ہے۔“ (بخاری و مسلم) ابوداؤد اور نسائی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کون شخص جنین کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے موقع پر حاضر تھا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ حمل بن نابغہ کھڑا ہوا اور بیان کیا کہ میں اس وقت ان دو عورتوں کے درمیان تھا، جب ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا تھا۔ پھر مختصر حدیث کا ذکر کیا۔ ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1002»
تخریج: «أخرجه البخاري، الطب، باب الكهانة، حديث:5758، ومسلم، القسامة، باب دية الجنين، حديث:1681، وحديث ابن عباس: أخرجه أبوداود، الديات، حديث:4572، والنسائي، القسامة، حديث:4822، 4832، وابن حبان (الإحسان): 7 /605، حديث:5989، والحاكم.»
تشریح:
وضاحت:
«حضرت حمل بن نابغہ رضی اللہ عنہ»
(”حا“ اور ”میم“ دونوں پر فتحہ ہے) حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی صحابی ہیں۔
أبونَضْلہ ان کی کنیت تھی اور بصرہ کے رہائشی تھے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1002
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4821
´عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی لحیان کی عورت کے جنین (پیٹ میں موجود بچہ) کے بارے میں جو مرا ہوا ساقط ہو گیا تھا ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ کیا، پھر وہ عورت جس پر ایک «غرہ» یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی کا حکم ہوا، مر گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی میراث اس کے بیٹوں اور اس کے شوہر کے لیے ہے اور دیت اس کے عصبہ پر ہو گی۔“ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4821]
اردو حاشہ:
(1) اس حدیث میں بھی جنین کی دیت غلام یا لونڈی بیان ہوئی ہے، تاہم اگر جنین زندہ پیٹ سے باہر آیا، پھر اسی لگائی گئی چوٹ کے اثر کی وجہ سے فوت ہوگیا تو اس صورت میں بڑے شخص والی مکمل دیت ادا کرنی پڑے گی۔ چوٹ جان بوجھ کر لگائی گئی ہو یا غلطی سے لگی ہو، دونوں صورتوں میں مسئلہ اسی طرح ہے جیسے بیان کیا گیا ہے۔ واللہ أعلم تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرة العقبی شرح سنن النسائي لأتبوبي: 36/ 219، 220)
(2) اس حدیث مبارکہ کے الفاظ [إنَّ المرأة التي قضى عليها بالغُرَّةِ توُفِّيَت] سے بعض اہل علم کو یہ وہم ہوا ہے کہ اس سے مراد قاتلہ ہے، اس لیے انھوں نے ان الفاظ کے معنیٰ کیے ہیں: ”پھر جس عورت کے ذمے غرہ (دینے) کا فیصلہ کیا گیا تھا، وہ مر گئی۔“ یہ بات درست نہیں بلکہ حقیقت واقعہ کے خلاف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ وہ تھی جس کا جنین گرایا گیا تھا کیونکہ احادیث صحیحہ میں یہ صراحت موجود کہ مرنے والی قاتلہ نہیں بلکہ دوسری تھی جسے پتھر مار کر اس کا جنین گرا دیا گیا تھا اور اسے قتل کر دیا گیا تھا۔ حدیث کے الفاظ ہیں: [اقْتَتَلَتِ امْرَأَتانِ مِن هُذَيْلٍ، فَرَمَتْ إحْداهُما الأُخْرى بحَجَرٍ فَقَتَلَتْها وما في بَطْنِها] ”ہذیل قبیلے کی دو عورتیں لڑ پڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر دے مارا اور اسے قتل کر دیا اور اس بچے کو بھی جو اس کے پیٹ میں تھا۔“ (صحیح البخاري، الدیات، باب جنین المراة… حدیث: 6910، وصحیح مسلم، القسامة والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: 1681 (36) التي قضى عليها بالغُرَّةِ کا مفہوم ہے: التي قضى لها بالغُرَّةِ۔ مطلب یہ کہ علیھا بمعنیٰ لھا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ الفاظ ہیں: [ثم ان المراۃ التی قضی لھا بالغرۃ توفیت] دیکھیے: (صحیح البخاري، الفرائض، باب میراث المرأة والزوج مع الولد وغیرہ، حدیث: 6740) بعض اہل علم کو حدیث مبارکہ کے آخری جملے [قضی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان میراثھا لبنیھا وزوجھا، وان العقل علی عصبتھا] سے یہ وہم لگا ہے کہ مرنے والی قاتلہ ہی ہے۔ اسی کی وراثت کے حق دار اس کے بیٹے اور اس کا خاوند ہیں اور اس کی دیت اس کے عصبہ کے ذمہ ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث سے اس شبہ اور وہم کا کلیتاً ازالہ ہو جاتا ہے۔ اس کے الفاظ اس قدر واضح اور صریح ہیں کہ وہم کا تصور ہی نہیں ہوتا۔ الفاظ یہ ہیں: [فجَعَل النَّبيُّ ﷺ دِيَةَ المقتولةِ على عَصَبةِ القاتلةِ، وغُرَّةً لِما في بَطْنِها] ”پھر رسول اللہ ﷺ نے مقتولہ کی دیت، قاتلہ کے عصبہ کے ذمے لگائی اور اس (مقتولہ) کے پیٹ کے بچے کی دیت ایک غرہ مقرر فرمائی۔“ (صحیح مسلم، القسامة، والمحاربین، باب دیة الجنین…، حدیث: 1682) مذکورہ بالا تصریحات سے تمام شبہات ختم ہو جاتے ہیں۔
(3) قتل خطا شبہ عمد میں دیت قاتل کے ذمے ہوتی ہے لیکن اس کی ادائیگی میں اس کے تمام نسبی رشتہ دار شریک ہوں گے۔ قانونی طور پر ان سب کے ذمے قسط وار رقم مقرر کی جائے گی اور وہ ادا کرنے کے پابند ہوں گے کیونکہ قتل خطا میں قاتل قصور وار نہیں ہوتا یا زیادہ قصور وار نہیں ہوتا۔ البتہ عمد کی صورت میں دیت قاتل کے ذمے ہوگی اور وہی ادائیگی کا ذمہ دار ہے کیونکہ وہ مکمل قصور وار ہوتا ہے، لہٰذا اسے ہی سزا بھگتنا ہوگی۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4821
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4822
´عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتیں جھگڑ پڑیں، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک مارا، اور کوئی ایسی بات کہی جس کا مفہوم یہ تھا کہ وہ عورت مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی، چنانچہ وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا: اس کے جنین (پیٹ کے بچہ) کی دیت ایک غرہ ہے یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی۔ اور (قاتل) عورت کی دیت اس کے کنبے کو لوگوں (عصبہ) سے دلائی اور اس عورت کا وار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4822]
اردو حاشہ:
”کاہن“ دور جاہلیت میں ہر بت کے ساتھ ایک کاہن بھی ہوتا تھا۔ لوگ علاج وغیرہ کے لیے بھی انھی سے رابطہ کرتے تھے۔ یہ بڑے چالاک وعیار لوگ ہوتے تھے۔ جنوں سے روابط رکھتے تھے۔ ذو معنیٰ کلام کیا کرتے تھے۔ پیش گوئیاں بھی کرتے تھے مگر بڑے محتاط انداز میں تاکہ پیش آمدہ حالات میں مشکل پیش نہ آئے۔ بڑی دلآویز کلام کرتے تھے۔ چھوٹے چھوٹے مسجع فقرے بولتے تھے جن کو سن کر لوگ مرعوب ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے حضرت حمل بن مالک کو کاہن کہا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4822
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2639
´ «جنین» (پیٹ کے بچے) کی دیت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنین (پیٹ کے بچے کی دیت) میں ایک غلام یا ایک لونڈی کا فیصلہ فرمایا، تو جس کے خلاف فیصلہ ہوا وہ بولا: کیا ہم اس کی دیت دیں جس نے نہ پیا ہو نہ کھایا ہو، نہ چیخا ہو نہ چلایا ہو، ایسے کی دیت کو تو لغو مانا جائے گا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو شاعروں جیسی بات کرتا ہے؟ پیٹ کے بچہ میں ایک غلام یا لونڈی (دیت) ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2639]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جنین سے مراد وہ بچہ ہے جو ابھی ماں کے پیٹ میں ہو، پیدا نہ ہوا ہو۔
(2)
بعض اوقات حاملہ عورت کے پیٹ پرچوٹ لگ جائے تو اس سے بچے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے اور وہ پیدائش سے پہلے ہی فوت ہو کر مردہ پیدا ہوتا ہے، اس لیے یہ بھی قتل شمار ہوتا ہے۔
(3)
ایسے بچے کا حکم عام مقتول کا نہیں، اس کی دیت بھی سو اونٹ نہیں بلکہ صرف ایک غلام یا لونڈی ہے، البتہ اگر اس کی ماں بھی اس چوٹ سے فوت ہو جائے تو اس عورت کی پوری دیت ہوگی۔
(4)
شرعی حکم کے مقابلے میں قبائلی رسم و رواج کی کوئی حیثیت نہیں۔
(5)
شاعروں والی باتوں سے یہی مراد ہے کہ جس طرح عام شاعر جھوٹ موٹ اور غیر سنجیدہ باتیں کرتے ہیں، ان کی عملی دنیا میں کوئی قیمت نہیں ہوتی، اسی طرح یہ باتیں بھی بے کار ہیں، ان کی وجہ سے قانون تبدیل نہیں ہوسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2639
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4389
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ایک نے دوسری کو مارا، جس سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ پیدا ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے، اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4389]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
جنين:
وہ بچہ جو پیٹ میں ہے،
کیونکہ وہ اوجھل ہوتا ہے،
اگر زندہ پیدا ہوا تو اس کو وَلَد کہتے ہیں اور مردہ پیدا ہو تو سقط کہلاتا ہے اور اس کو جنین بھی کہہ دیتے ہیں،
بشرطیکہ وہ بچہ بن چکا ہو۔
(2)
غرة:
پیشانی کی سفیدی کو کہتے ہیں،
اس لیے اس کا اطلاق اعلیٰ اور عمدہ چیز پر ہو جاتا ہے،
لیکن اس حدیث میں اس سے مراد غلام یا لونڈی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4389
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4390
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو لحیان کی ایک عورت کے جنین کا تاوان جو مردہ پیدا ہوا تھا، ایک غرة یعنی غلام یا لونڈی ٹھہرایا تھا، پھر وہ عورت جس کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غرة کا حکم دیا تھا، فوت ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا کہ اس کی وراثت اس کی اولاد اور اس کے خاوند کو ملے گی اور دیت اس کے عصبات ادا کریں گے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4390]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ لڑنے والی دونوں عورتیں،
بنو ہذیل کے دو خاندانوں کی تھیں اور آپس میں سوکنیں تھیں،
حمل بن نابغہ کی بیویاں تھیں،
ایک نے دوسرے کے پیٹ پر پتھر مارا،
پتھر کے بعد خیمے کی چوب (لکڑی)
ماری ہے اس لئے آگے پتھر کی بجائے خیمے کی لکڑی مارنے کا ذکر ہے دونوں میں کوئی تضاد نہیں،
بعض راویوں نے ایک چیز کا نام اور بعض نے دوسری چیز کا نام لیا۔
جس سے اس کا حمل ساقط ہو گیا تو آپﷺ نے تاوان میں غلام یا لونڈی دینے کا حکم دیا اور یہ تاوان جرم کرنے والی کی عاقلہ یعنی اس کے باپ کی طرف سے اس کے رشتہ داروں پر ڈالا،
لیکن جب وہ مری تو اس کی وراثت اس کی عاقلہ کی بجائے،
اس کے بیٹوں اور اس کے خاوند میں تقسیم کی،
اس کی عاقلہ کو وارث نہیں ٹھہرایا اور یہ دونوں عورتیں یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں تھیں،
اس لیے اگلی روایت کے ساتھ اس کا تعارض نہیں ہے،
ان کے ذہن میں یہ خلجان پیدا ہوا کہ دیت ہم دیں،
لیکن وراثت میں ہمارے لیے کوئی حصہ نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4390
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5758
5758. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں فیصلہ کیا جنہوں نے آپس میں جھگڑا کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مارا جو اس کے پیٹ پر جا کر لگا۔ یہ عورت حاملہ تھی، اس لیے اس کے پیٹ کا بچہ مر گیا۔ یہ معاملہ دونوں فریق نبی ﷺ کے پاس لے کر آئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ عورت کے پیٹ کی دیت ایک غلام یا لونڈی ادا کرنا ہے۔ جس عورت پر تاوان واجب ہوا تھا اس کے سرپرست نےکہا: میں اس کا تاوان ادا کروں جس نے نہ کھایا نہ پیا نہ بولا اور نہ چلایا؟ ایسی صورت میں تو کچھ بھی دیت واجب نہیں ہوسکتی۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: یہ تو کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5758]
حدیث حاشیہ:
جب ہی تو کاہنوں کی طرح مسجع اور مقفیٰ فقرے بولتا ہے۔
و إنما لم یعاقبه لأنه صلی اللہ علیه وسلم کان مأمورا بالصفح من الجاھلین و في الحدیث منه الفوائد أیضا رفع الجنابة للحاکم و وجب الدیة للجنین ولو خرج میتا (فتح)
یعنی حمل بن مالک کے اس کہنے پر آپ نے اس کو کوئی عتاب نہیں فرمایا اس لیے کہ جاہلوں سے در گزر کرنا اسی کے لیے آپ مامور تھے اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جیسے مقدمہ حاکم کے پاس لے جانا اور جنین اگرچہ مردہ پیدا ہوا ہو مگر اس کی دیت کا واجب ہونا یہ بھی معلوم ہوا کہ اس شخص کا بیان شاعرانہ تخیل تھا حقیقت میں اس کی کوئی اصلیت نہ تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5758
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5760
5760. حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بچے کے متعلق جو ماں کے پیٹ میں مار ڈالا گیا ہو۔ فیصلہ فرمایا کہ ایک غلام یا لونڈی بطور دیت ادا کرنا ہے۔ جس نے تاوان ادا کرنا تھا اس نے کہا: میں ایسے بچے کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ کھایا نہ پیا، نہ بولا اور نہ چلایا، ایسی صورت میں تو دیت نہیں ہو سکتی؟ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ”یہ تو کاہنوں کا بھائی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5760]
حدیث حاشیہ:
جو کچھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ فرمایا وہی برحق تھا باقی اس شخص کی ہفوات تھیں جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کہانت سے تشبیہ دے کر مثل کہانت کے باطل ٹھہرا دیا (صلی اللہ علیہ وسلم)
۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5760
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6740
6740. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی ایک عورت کے جنین کے متعلق فیصلہ فرمایا جو مردہ پیدا ہوا تھا کہ مارنے والی عورت ایک غلام یا لونڈی خون بہا کے طور پر ادا کرے، پھر وہ عورت جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا مرگئی تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی وراثت اس کے بیٹوں اور شوہر کے لیے ہے جبکہ دیت اس کے کنبے والوں کو ادا کرنا ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6740]
حدیث حاشیہ:
مارنے والی عورت ام عقیقہ بن مروح تھی خطا یا شبہ عمد کی دیت کنبہ والوں پر ہوتی ہے اس لیے دیت ادا کرنے کا حکم کنبہ والوں کو دیا۔
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آپ نے ترکہ عورت کے خاوند اوربیٹوں کو دلایا تو معلوم ہوا کہ خاوند اولاد کے ساتھ وارث ہوتا ہے اور جب خاوند اولاد کے ساتھ اپنی عورت کا وارث ہوا تو عورت بھی اولاد کے ساتھ اپنے خاوند کی وارث ہوگی۔
(الحمد للہ آج مسجد اہل حدیث رانی بنور میں نظر ثانی کا کام یہاں تک پورا کیا گیا۔
یوم جمعہ 13 شوال 1396ھ)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6740
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5760
5760. حضرت سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس بچے کے متعلق جو ماں کے پیٹ میں مار ڈالا گیا ہو۔ فیصلہ فرمایا کہ ایک غلام یا لونڈی بطور دیت ادا کرنا ہے۔ جس نے تاوان ادا کرنا تھا اس نے کہا: میں ایسے بچے کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ کھایا نہ پیا، نہ بولا اور نہ چلایا، ایسی صورت میں تو دیت نہیں ہو سکتی؟ رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر فرمایا: ”یہ تو کاہنوں کا بھائی ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5760]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور جاہلیت میں کاہنوں کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنے باطل کلام کو مسجع اور قافیہ بند عبارت سے مزین کرتے تاکہ باطل، اس عبارت میں دب جائے اور اس کی حقیقت نہ کھل سکے اور لوگوں کو وہم میں مبتلا کرتے تھے کہ اس میں نفع ہے۔
اس حدیث میں مذکور اس شخص نے بھی یہی کام کیا تھا کہ مسجع عبارت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو رد کرنے کی کوشش کی، اس لیے وہ مذمت کا مستحق ہوا۔
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی اور سزا نہ دی کیونکہ آپ کو جاہلوں سے درگزر کرنے کا حکم تھا۔
(2)
اس حدیث سے کہانت پیشہ کی مذمت ہے اور ان لوگوں کی بھی تردید ہے جو الفاظ و عبارت پیش کرنے میں کہانت پیشہ لوگوں کی نقالی کرتے ہیں۔
بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فیصلہ فرمایا وہی برحق تھا، باقی اس شخص کی بکواسات تھیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہانت سے تشبیہ دے کر کہانت کی طرح باطل ٹھہرایا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیب کی خبریں بتانے کو شیطانی کام قرار دیا ہے، (سنن أبي داود، الطب، حدیث: 3907)
لہذا کاہنوں، یعنی مستقبل کی خبریں بتانے والوں، نجومیوں اور دست شناسوں کے پاس جانا، ان سے خبریں دریافت کرنا، پھر ان کی تصدیق کرنا حرام اور ناجائز ہے۔
شریعت نے اس قسم کے توہمات کو باطل ٹھہرایا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5760
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6740
6740. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے بنو لحیان کی ایک عورت کے جنین کے متعلق فیصلہ فرمایا جو مردہ پیدا ہوا تھا کہ مارنے والی عورت ایک غلام یا لونڈی خون بہا کے طور پر ادا کرے، پھر وہ عورت جس کے خلاف فیصلہ ہوا تھا مرگئی تو آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کی وراثت اس کے بیٹوں اور شوہر کے لیے ہے جبکہ دیت اس کے کنبے والوں کو ادا کرنا ہوگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6740]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبیلۂ بنو لحیان کی دوعورتیں لڑ پڑیں۔
ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر مارا تو دوسری کے پیٹ میں جو بچہ تھا وہ مرگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مارنے والی پر تاوان ڈالا کہ وہ ایک غلام یا لونڈی ادا کرے۔
(2)
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ بیوی کسی حالت میں بھی وراثت سے محروم نہیں رہتی۔
اس کی درج ذیل دوحالتیں ہیں:
٭جب فوت شدہ خاوند کی اولاد یا نرینہ اولاد کی اولاد نہ ہوتو بیوی کو ترکے میں سے 1/4 ملتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
”اگر تمھاری اولاد نہ ہوتو ان بیویوں کے لیے تمھارے ترکے کا 1/4 ہے۔
“ (النساء 4: 12)
٭ اگر مرنے والے خاوند کی اولاد یا نرینہ اولاد کی اولاد نہ ہو تو بیوی کو ترکے میں سے 1/8 ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”اگر تمھاری اولاد نہ ہو تو تمھاری بیویاں تمھارے ترکے سے 1/8 کی حق دار ہوں گی۔
“ (النساء 4: 12)
واضح رہے کہ بیوی ایک ہو یا متعدد ان کا مقررہ حصہ وہی ہے جو آیات بالا میں بیان ہوا ہے متعدد ہونے کی صورت میں اس مقررہ حصے کو تقسیم کریں گے، نیز رجعی طلاق کی عدت میں بھی عورت وارث ہوگی۔
اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کے استدلال کی بنیاد یہ ہے کہ جب خاوند اولاد کے ساتھ اپنی بیوی کا وارث ہوا تو بیوی بھی اولاد کے ہمراہ اپنے خاوند کے ترکے سے حصہ پائے گی، جبکہ تاوان وغیرہ کنبے والوں کو ادا کرنا پڑتا ہے کیونکہ تنگی اور آسانی میں قبیلے والے ہی ذمہ دار ہوتے ہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6740
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6910
6910. حضرت ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے انہوں نے کہا: بنو ہذیل کی دو عورتیں آپس میں لڑپڑیں۔ ان میں سے ایک نے دوسری عورت پر پتھر پھینک مارا جس سے وہ عورت اپنے پیٹ کے بچے سمیت مرگئی۔ مقتولہ کے رشتے دار، نبی ﷺ کے پاس مقدمہ لے کر گئے تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ پیٹ کے بچے کی دیت ایک غلام یا کنیز ہے اور عورت کی دیت قاتلہ عورت کے ددھیال والوں پر واجب قرار ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6910]
حدیث حاشیہ:
(1)
اگرچہ ان احادیث میں والد کا ذکر نہیں ہے لیکن اس حدیث کے دوسرے طرق میں والد کی صراحت ہے،یعنی مقتولہ عورت کی دیت قاتلہ کے والد اور اس کے دیگر عصبات کے ذمے ہے،اس کے لڑکے پر نہیں ہوگی،نیز ذوالارحام کے ذمے بھی دیت نہیں ہوگی اسی وجہ سے مادری بھائی بھی دیت ادا نہیں کریں گے۔
(فتح الباری: 12/315) (2)
ایک روایت میں صراحت ہے:
\" جب ایک عورت کے مارنے سے دوسری عورت اور اس کے پیٹ کا بیٹا فوت ہوگیا تو اس کا خاوند قاتلہ کے والد کے پاس گیا اور اپنی بیوی اور بیٹے کی دیت کا اس سے مطالبہ کیا۔
قاتلہ کے باپ نے کہا:
اس کی دیت اس کے بیٹوں کے ذمے ہے جو بنو لحیان قبیلے کے سردار ہیں، پھر یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فیصلہ دیا کہ عورت کی دیت قاتلہ کے ددھیال کے ذمے ہے اور بچے کی دیت غلام یا کنیز دینا ہے۔
\"(السنن الکبریٰ للبیھقی: 8/108)
لڑنے والی دونوں عورتیں سیدنا حمل بن نابغہ رضی اللہ عنہ کی بیویاں تھیں، ان میں سے ایک حاملہ تھی،دوسری نے خیمے کا بانس مارا جس سے وہ حاملہ اور اس کا بچہ فوت ہوگیا۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6910