(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا حجاج بن المنهال، قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن يونس بن جبير، عن محمد بن سعد، عن ابيه سعد بن مالك، ان النبي صلى الله عليه وسلم جاءه وهو مريض، فقال: إنه ليس لي ولد إلا ابنة واحدة، فاوصي بمالي كله؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا"، قال: فاوصي بنصفه؟ قال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا"، قال: فاوصي بثلثه؟ قال:" الثلث، والثلث كثير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الْمِنْهَالِ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَيْسَ لِي وَلَدٌ إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا"، قَالَ: فَأُوصِي بِنِصْفِهِ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا"، قَالَ: فَأُوصِي بِثُلُثِهِ؟ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت وہ بیمار تھے، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اللہ کے رسول!) میری کوئی اولاد (نرینہ) نہیں ہے، صرف ایک بچی ہے۔ میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: آدھے کی وصیت کر دوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: تو میں ایک تہائی مال کی وصیت کرتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی کر دو اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے“۔
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان بن سعيد، قال: حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عامر بن سعد، عن ابيه، قال: مرضت مرضا اشفيت منه، فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت: يا رسول الله، إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي، افاتصدق بثلثي مالي؟ قال:" لا"، قلت: فالشطر؟ قال:" لا"، قلت: فالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير، إنك ان تترك ورثتك اغنياء خير لهم من ان تتركهم عالة يتكففون الناس". (مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: مَرِضْتُ مَرَضًا أَشْفَيْتُ مِنْهُ، فَأَتَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا كَثِيرًا وَلَيْسَ يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَتِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ لَهُمْ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں بیمار ہوا ایسا بیمار کہ مرنے کے قریب آ لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے اور ایک بیٹی کے علاوہ میرا کوئی وارث نہیں، تو کیا میں اپنا دو تہائی مال صدقہ کر دوں؟ آپ نے جواب دیا: ”نہیں“۔ میں نے کہا: آدھا؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“۔ میں نے کہا: تو ایک تہائی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں ایک تہائی، حالانکہ یہ بھی زیادہ ہی ہے“ تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“۔
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن منصور، واحمد بن سليمان واللفظ لاحمد، قالا: حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عامر بن سعد، عن سعد، قال: جاءني النبي صلى الله عليه وسلم يعودني وانا بمكة، قلت: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قلت: فالشطر؟ قال:" لا"، قلت: فالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير، إنك ان تدع ورثتك اغنياء خير من ان تدعهم عالة يتكففون الناس، يتكففون في ايديهم". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَاللَّفْظُ لِأَحْمَدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ سَعْدٍ، قَالَ: جَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَدَعَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَدَعَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، يَتَكَفَّفُونَ فِي أَيْدِيهِمْ".
سعد بن ابی وقاس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت (بیمار پرسی) کے لیے تشریف لائے اور میں ان دنوں مکے میں تھا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے پورے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ میں نے کہا: آدھے مال کی؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: ایک تہائی؟ آپ نے فرمایا: ”ہاں، ایک تہائی دے دو، اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے، تمہارا اپنے وارثین کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں تنگدست چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، اور لوگوں سے جو ان کے ہاتھ میں ہے مانگتے پھریں“۔
(مرفوع) اخبرنا العباس بن عبد العظيم العنبري، قال: حدثنا عبد الكبير بن عبد المجيد، قال: حدثنا بكير بن مسمار، قال: سمعت عامر بن سعد، عن ابيه، انه اشتكى بمكة، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رآه سعد بكى، وقال: يا رسول الله، اموت بالارض التي هاجرت منها؟ قال:" لا، إن شاء الله"، وقال: يا رسول الله، اوصي بمالي كله في سبيل الله؟ قال:" لا"، قال: يعني بثلثيه؟ قال:" لا"، قال: فنصفه؟ قال:" لا"، قال: فثلثه؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الثلث، والثلث كثير، إنك ان تترك بنيك اغنياء خير من ان تتركهم عالة يتكففون الناس". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْكَبِيرِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا بُكَيْرُ بْنُ مِسْمَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرَ بْنَ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ اشْتَكَى بِمَكَّةَ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَآهُ سَعْدٌ بَكَى، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمُوتُ بِالْأَرْضِ الَّتِي هَاجَرْتُ مِنْهَا؟ قَالَ:" لَا، إِنْ شَاءَ اللَّهُ"، وَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: يَعْنِي بِثُلُثَيْهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَنِصْفَهُ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَثُلُثَهُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَتْرُكَ بَنِيكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ مکہ میں بیمار پڑے تو (ان کی بیمار پرسی کے لیے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، وہ آپ کو دیکھ کر رو پڑے، کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی سر زمین میں مر رہا ہوں جہاں سے ہجرت کر کے جا چکا ہوں، آپ نے فرمایا: ”نہیں، ان شاءاللہ (تم یہاں نہیں مرو گے)“۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: دو تہائی کی دے دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، انہوں نے کہا: آدھا دینے کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“ انہوں نے کہا: تو تہائی کی وصیت کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ایک تہائی کی وصیت کر دو، ایک تہائی بھی زیادہ ہے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ کر جانا انہیں محتاج چھوڑ کر جانے سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں“۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا جرير، عن عطاء بن السائب، عن ابي عبد الرحمن، عن سعد بن ابي وقاص، قال: عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضي، فقال:" اوصيت؟" قلت: نعم، قال:" بكم قلت؟" بمالي كله في سبيل الله، قال:" فما تركت لولدك؟" قلت: هم اغنياء، قال:" اوص بالعشر"، فما زال يقول: واقول: حتى قال:" اوص بالثلث، والثلث كثير او كبير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِي، فَقَالَ:" أَوْصَيْتَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ:" بِكَمْ قُلْتُ؟" بِمَالِي كُلِّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ:" فَمَا تَرَكْتَ لِوَلَدِكَ؟" قُلْتُ: هُمْ أَغْنِيَاءُ، قَالَ:" أَوْصِ بِالْعُشْرِ"، فَمَا زَالَ يَقُولُ: وَأَقُولُ: حَتَّى قَالَ:" أَوْصِ بِالثُّلُثِ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میری بیماری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس بیمار پرسی کرنے آئے۔ آپ نے فرمایا: ”تم نے وصیت کر دی؟“ میں نے کہا: جی ہاں کر دی، آپ نے فرمایا: ”کتنی؟“ میں نے کہا: اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں دے دیا ہے۔ آپ نے پوچھا: ”اپنی اولاد کیلئے کیا چھوڑا؟“ میں نے کہا: وہ سب مالدار و بے نیاز ہیں، آپ نے فرمایا: ”دسویں حصے کی وصیت کرو“، پھر برابر آپ یہی کہتے رہے اور میں بھی کہتا رہا ۱؎ آپ نے فرمایا: ”اچھا تہائی کی وصیت کر لو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ یا بڑا حصہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الجنائز 6 (975)، (تحفة الأشراف: 3898)، مسند احمد (1/174) (ضعیف) (مولف کی یہ سند عطاء بن سائب کی وجہ سے ضعیف ہے، مگر پچھلی سند صحیح ہے)»
وضاحت: ۱؎: یعنی میں نے کل مال میں سے دو تہائی کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے آدھا کہا، آپ نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تہائی؟
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: حدثنا وكيع، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه، عن سعد، ان النبي صلى الله عليه وسلم عاده في مرضه، فقال: يا رسول الله، اوصي بمالي كله؟ قال:" لا"، قال: فالشطر؟ قال:" لا"، قال: فالثلث؟ قال:" الثلث، والثلث كثير او كبير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعْدٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَادَهُ فِي مَرَضِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَالشَّطْرَ؟ قَالَ:" لَا"، قَالَ: فَالثُّلُثَ؟ قَالَ:" الثُّلُثَ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ".
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بیماری میں ان کی عیادت کی، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، کہا: آدھے کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”نہیں“، کہا: تہائی کی کر دوں؟ آپ نے فرمایا: ”ایک تہائی کی کر دو، اگرچہ ایک تہائی بھی زیادہ ہے یا بڑا حصہ ہے“۔