(مرفوع) اخبرنا الفضل بن سهل، قال: حدثنا حسن بن موسى الاشيب، قال: حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار المدني، عن ابيه، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" من آتاه الله عز وجل مالا فلم يؤد زكاته، مثل له ماله يوم القيامة شجاعا اقرع له زبيبتان، ياخذ بلهزمتيه يوم القيامة، فيقول: انا مالك، انا كنزك، ثم تلا هذه الآية: ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم الله من فضله سورة آل عمران آية 180". (مرفوع) أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ سورة آل عمران آية 180".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس مال کی زکاۃ ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا سانپ بن جائے گا، اس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے دونوں کلّے پکڑے گا، اور اس سے کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں“۔ پھر آپ نے آیت کریمہ کی تلاوت کی: «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله»”اللہ تعالیٰ نے جنہیں مال دیا ہے وہ بخیلی کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہی مال قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا“(آل عمران: ۱۸۰)۔
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا يزيد وهو ابن هارون , قال: انبانا حميد، عن الحسن، ان ابن عباس خطب بالبصرة , فقال" ادوا زكاة صومكم , فجعل الناس ينظر بعضهم إلى بعض , فقال: من هاهنا من اهل المدينة , قوموا إلى إخوانكم فعلموهم , فإنهم لا يعلمون ان رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض صدقة الفطر على الصغير والكبير , والحر والعبد , والذكر والانثى نصف صاع من بر او صاعا من تمر او شعير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ , قال: أَنْبَأَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ خَطَبَ بِالْبَصْرَةِ , فَقَالَ" أَدُّوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ , فَجَعَلَ النَّاسُ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ , فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ , قُومُوا إِلَى إِخْوَانِكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ , فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ , وَالْحُرِّ وَالْعَبْدِ , وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ شَعِيرٍ".
حسن بصری سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہم نے بصرہ میں خطبہ دیا تو کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ ادا کرو، تو (یہ سن کر) لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، تو انہوں نے کہا: یہاں مدینہ والے کون کون ہیں، تم اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، اور انہیں سکھاؤ کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۃ الفطر آدھا صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا جو، چھوٹے، بڑے، آزاد، غلام، مرد، عورت سب پر فرض کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة 20 (1622) مطولاً، (تحفة الأشراف: 5394)، مسند احمد 1/228، 351، ویأتی عند المؤلف برقم: 2510، 2517 (صحیح) (سند میں حسن بصری کا سماع ابن عباس رضی اللہ عنہم سے نہیں ہے، اس لیے صرف حدیث کا مرفوع حصہ دوسرے طرق سے تقویت پاکر صحیح ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح المرفوع منه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1622) وانظر الحديث الآتي (2510) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 333
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا يزيد بن زريع، قال: حدثنا سعيد بن ابي عروبة، قال: حدثنا قتادة، عن ابي عمرو الغداني، ان ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ايما رجل كانت له إبل، لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها، قالوا: يا رسول الله! ما نجدتها ورسلها؟ قال:" في عسرها ويسرها، فإنها تاتي يوم القيامة كاغذ ما كانت واسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه باخفافها، إذا جاءت اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس فيرى سبيله، وايما رجل كانت له بقر لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها، فإنها تاتي يوم القيامة اغذ ما كانت واسمنه وآشره يبطح لها بقاع قرقر فتنطحه كل ذات قرن بقرنها، وتطؤه كل ذات ظلف بظلفها، إذا جاوزته اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس فيرى سبيله، وايما رجل كانت له غنم لا يعطي حقها في نجدتها ورسلها، فإنها تاتي يوم القيامة كاغذ ما كانت واكثره واسمنه وآشره ثم يبطح لها بقاع قرقر فتطؤه كل ذات ظلف بظلفها وتنطحه كل ذات قرن بقرنها ليس فيها عقصاء ولا عضباء، إذا جاوزته اخراها اعيدت عليه اولاها في يوم كان مقداره خمسين الف سنة حتى يقضى بين الناس فيرى سبيله". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْغُدَانِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ، لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا نَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا؟ قَالَ:" فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، إِذَا جَاءَتْ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ بَقَرٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَغَذَّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ وَآشَرَهُ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا، وَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَكْثَرِهِ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ ثُمَّ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا وَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے (لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! «نجدتها ورسلها» سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: تنگی اور آسانی ۱؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ روند چکے گا تو پھر پہلا اونٹ روندنے کے لیے لوٹایا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی، اور یہ سلسلہ برابر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے گا، اور وہ اپنا راستہ دیکھ نہ لے گا، جن کے پاس گائے بیل ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے یعنی ان کی زکاۃ نہ دے، ان کی تنگی اور ان کی کشادگی کے زمانہ میں، تو وہ گائے بیل قیامت کے دن پہلے سے زیادہ مستی و نشاط میں موٹے تازے اور تیز رفتار ہو کر آئیں گے، اور اسے ایک کشادہ میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا اور ہر سینگ والا اسے سینگوں سے مارے گا، اور ہر کھر والا اپنی کھروں سے اسے روندے گا، جب آخری جانور روند چکے گا، تو پھر پہلا پھر لوٹا دیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے، اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور وہ ان کی تنگی اور آسانی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بکریاں اس سے زیادہ چست فربہ اور موٹی تازی ہو کر آئیں گی جتنی وہ (دنیا میں) تھیں، پھر وہ ایک کشادہ ہموار میدان میں منہ کے بل لٹا دیا جائے، تو ہر کھر والی اسے اپنے کھر سے روندیں گی، اور ہر سینگ والی اسے اپنی سینگ سے مارے گی، ان میں کوئی مڑی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی سینگ کی نہ ہو گی، جب آخری بکری مار چکے گی تو پھر پہلی بکری لوٹا دی جائے گی، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے، اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے۔
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ نہ تنگی و پریشانی کے زمانے میں زکاۃ دے کہ دینے سے اونٹ کم ہو جائیں گے، اور محتاجی و تنگی مزید بڑھ جائے گی، اور نہ خوش حالی و فارغ البالی کے دنوں میں زکاۃ دے یہ سوچ کر کہ ایسے موٹے تازے جانور کی زکاۃ کون دے؟
(مرفوع) اخبرنا عمران بن بكار، قال: حدثنا علي بن عياش، قال: حدثنا شعيب، قال: حدثني ابو الزناد، مما حدثه عبد الرحمن الاعرج مما ذكر , انه سمع ابا هريرة يحدث به، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تاتي الإبل على ربها على خير ما كانت، إذا هي لم يعط فيها حقها تطؤه باخفافها، وتاتي الغنم على ربها على خير ما كانت، إذا لم يعط فيها حقها، تطؤه باظلافها وتنطحه بقرونها، قال: ومن حقها ان تحلب على الماء الا لا ياتين احدكم يوم القيامة ببعير يحمله على رقبته له رغاء، فيقول: يا محمد , فاقول: لا املك لك شيئا قد بلغت الا لا ياتين احدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها يعار، فيقول: يا محمد , فاقول: لا املك لك شيئا قد بلغت، قال: ويكون كنز احدهم يوم القيامة شجاعا اقرع يفر منه صاحبه، ويطلبه انا كنزك فلا يزال حتى يلقمه اصبعه". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَى رَبِّهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا هِيَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَى رَبِّهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا، تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، قَالَ: وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَى الْمَاءِ أَلَا لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ , فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ أَلَا لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ , فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ، قَالَ: وَيَكُونُ كَنْزُ أَحَدِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَفِرُّ مِنْهُ صَاحِبُهُ، وَيَطْلُبُهُ أَنَا كَنْزُكَ فَلَا يَزَالُ حَتَّى يُلْقِمَهُ أُصْبُعَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا حق یہ بھی ہے کہ انہیں اسی جگہ دوہا جائے جہاں انہیں پانی پلانے کا نظم ہو ۱؎، سن لو، قیامت کے دن تم میں کا کوئی اپنے اونٹ کو اپنی گردن پر لادے ہوئے نہ لائے وہ بلبلا رہا ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (بچائیے مجھ کو اس عذاب سے) کہ میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے بتا چکا تھا، سن لو! قیامت کے دن کوئی اپنی گردن پر بکری کو لادے ہوئے نہ آئے کہ وہ ممیا رہی ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (مجھے اس عذاب سے بچائیے) کہ اس وقت میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے پہلے ہی بتا چکا ہوں“۔ آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی کا خزانہ ۲؎ قیامت کے دن گنجا سانپ بن کر سامنے آئے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا برابر پیچھا کرتا رہے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں یہاں تک کہ وہ اس کی انگلی کو اپنے منہ میں داخل کر لے گا“۔
وضاحت: ۱؎: یعنی: بکریوں کو گھاٹوں پر دوہا جائے تاکہ وہاں موجود مساکین کو بھی اس میں سے کچھ دیا جائے، نہ کہ بند گھروں میں مساکین سے بچنے کے لیے دوہا جائے۔ ۲؎: جس کی وہ زکاۃ نہیں ادا کرتا تھا۔
ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے“۔
(مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، قال: حدثنا ابو اسامة، قال: حدثنا سفيان، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد عفوت عن الخيل والرقيق، فادوا زكاة اموالكم من كل مائتين خمسة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَفَوْتُ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ مِنْ كُلِّ مِائَتَيْنِ خَمْسَةً".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے گھوڑے اور غلام کی زکاۃ معاف کر دی ہے، تو تم اپنے مالوں کی زکاۃ ہر دو سو میں سے پانچ یعنی چالیسواں حصہ دو“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة5 (1574)، سنن الترمذی/الزکاة4 (630)، (تحفة الأشراف: 10136)، مسند احمد (1/92، 113)، سنن الدارمی/الزکاة7 (1669)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة4 (1790) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1574) ترمذي (620) ابن ماجه (1790) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے گھوڑے اور غلام کی زکاۃ معاف کر دی ہے، اور دو سو درہم سے کم میں زکاۃ نہیں ہے“۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (1574) ترمذي (620) ابن ماجه (1790) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا المعتمر بن سليمان، قال: سمعت حسينا، قال: حدثني عمرو بن شعيب، قال: جاءت امراة ومعها بنت لها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي يد ابنتها مسكتان , نحوه مرسل , قال ابو عبد الرحمن: خالد اثبت من المعتمر. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُسَيْنًا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا بِنْتٌ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ , نَحْوَهُ مُرْسَلٌ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: خَالِدٌ أَثْبَتُ مِنَ الْمُعْتَمِرِ.
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی اور اس کی بچی کے ہاتھ میں دو کنگن تھے، آگے اسی طرح کی روایت ہے جیسے اوپر گزری ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: خالد معتمر سے زیادہ ثقہ راوی ہیں (اس لیے ان کی متصل روایت معتمر کی مرسل سے زیادہ صحیح ہے)۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن) (اس سند میں دو راوی ساقط ہیں، مگرسابقہ سند متصل ہے)»
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے مال کی زکاۃ نہیں دیتا ہے، اسے قیامت کے دن اس کا مال ایسے خوفناک سانپ کی صورت میں نظر آئے گا جو گنجا ہو گا، اس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ اس سے چمٹ جائے گا، یا اس کے گلے کا ہار بن جائے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں“۔
(مرفوع) اخبرنا عمران بن موسى، عن عبد الوارث، قال: حدثنا ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة رمضان على الحر، والعبد، والذكر، والانثى صاعا من تمر، او صاعا من شعير، فعدل الناس به نصف صاع من بر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ رَمَضَانَ عَلَى الْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد، غلام، مرد اور عورت ہر ایک پر رمضان کی زکاۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کی ہے، پھر اس کے برابر لوگوں نے نصف صاع گیہوں کو قرار دے لیا ۱؎۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا حماد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر على الذكر، والانثى والحر، والمملوك، صاعا من تمر او صاعا من شعير , قال: فعدل الناس إلى نصف صاع من بر". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ، وَالْمَمْلُوكِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ , قَالَ: فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَى نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ہر مرد و عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے، پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر ٹھہرا لیا۔
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة رمضان على كل صغير، وكبير حر، وعبد ذكر، وانثى، صاعا من تمر، او صاعا من شعير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ رَمَضَانَ عَلَى كُلِّ صَغِيرٍ، وَكَبِيرٍ حُرٍّ، وَعَبْدٍ ذَكَرٍ، وَأُنْثَى، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر کی ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن سلمة، والحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع واللفظ له , عن ابن القاسم، قال: حدثني مالك، عن نافع، عن ابن عمر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر، او صاعا من شعير، على كل حر، او عبد ذكر، او انثى من المسلمين". (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ , عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى النَّاسِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ، أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ، أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر مسلمان لوگوں پر ہر آزاد، غلام مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض ٹھہرایا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا يحيى بن محمد بن السكن، قال: حدثنا محمد بن جهضم، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عمر بن نافع، عن ابيه، عن ابن عمر، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر، او صاعا من شعير، على الحر، والعبد، والذكر، والانثى، والصغير، والكبير من المسلمين، وامر بها ان تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة". (مرفوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى الْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ فطر مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام مرد، عورت چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا ہے، اور حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے (گھر سے) نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، قال: انبانا عيسى، قال: حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر على الصغير، والكبير، والذكر، والانثى، والحر، والعبد، صاعا من تمر، او صاعا من شعير". (مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام پر فرض کیا ہے۔
(مرفوع) اخبرنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا خالد وهو ابن الحارث، قال: حدثنا حميد، عن الحسن، قال: قال ابن عباس وهو امير البصرة في آخر الشهر:" اخرجوا زكاة صومكم، فنظر الناس بعضهم إلى بعض، فقال: من هاهنا من اهل المدينة، قوموا فعلموا إخوانكم فإنهم لا يعلمون ان هذه الزكاة فرضها رسول الله صلى الله عليه وسلم على كل ذكر، وانثى حر، ومملوك صاعا من شعير، او تمر او نصف صاع من قمح، فقاموا" , خالفه هشام فقال: عن محمد بن سيرين. (مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ وَهُوَ أَمِيرُ الْبَصْرَةِ فِي آخِرِ الشَّهْرِ:" أَخْرِجُوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ، فَنَظَرَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قُومُوا فَعَلِّمُوا إِخْوَانَكُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ هَذِهِ الزَّكَاةَ فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ ذَكَرٍ، وَأُنْثَى حُرٍّ، وَمَمْلُوكٍ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ تَمْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ، فَقَامُوا" , خَالَفَهُ هِشَامٌ فَقَالَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ.
حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے): تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا: مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گی ہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لوگوں کو بتایا)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، انہوں نے «عن محمد بن سيرين» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1581 (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس رضی الله عنہما سے سماع نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، تقدم (1581) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340
(مرفوع) اخبرنا علي بن حجر، قال: حدثنا يزيد بن هارون، قال: حدثنا حميد، عن الحسن، ان ابن عباس خطب بالبصرة فقال: ادوا زكاة صومكم فجعل الناس ينظر بعضهم إلى بعض، فقال: من هاهنا من اهل المدينة قوموا إلى إخوانكم فعلموهم، فإنهم لا يعلمون , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" فرض صدقة الفطر على الصغير، والكبير، والحر، والعبد، والذكر، والانثى نصف صاع بر، او صاعا من تمر، او شعير" , قال الحسن: فقال علي: اما إذا اوسع الله فاوسعوا اعطوا صاعا من بر او غيره. (مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ خَطَبَ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَدُّوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ فَجَعَلَ النَّاسُ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُومُوا إِلَى إِخْوَانِكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ، وَالْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى نِصْفَ صَاعِ بُرٍّ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ شَعِيرٍ" , قَالَ الْحَسَنُ: فَقَالَ عَلِيٌّ: أَمَّا إِذَا أَوْسَعَ اللَّهُ فَأَوْسِعُوا أَعْطُوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ غَيْرِهِ.
حسن (حسن بصریٰ) سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خطبہ دیا، تو انہوں نے کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ دو (یعنی صدقہ فطر نکالو) تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ تو انہوں نے کہا: یہاں اہل مدینہ میں سے کون کون ہیں؟ تم لوگ اٹھو، اور اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، انہیں بتاؤ، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام، مذکر اور مونث پر آدھا صاع گی ہوں، یا ایک صاع کھجور، یا جو فرض کیا ہے۔ حسن کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رہی بات جب اللہ نے تمہیں وسعت و فراخی دے رکھی ہو تو تم بھی وسعت و فراخی کا مظاہرہ کرو۔ گیہوں وغیرہ (نصف صاع کے بجائے) ایک صاع دو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1581 (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد صحيح المرفوع منه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، تقدم (1581) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 340