(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا يحيى بن حمزة ، حدثني برد بن سنان ، عن إسحاق بن قبيصة ، عن ابيه ، ان عبادة بن الصامت الانصاري النقيب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، غزا مع معاوية ارض الروم، فنظر إلى الناس وهم يتبايعون كسر الذهب بالدنانير، وكسر الفضة بالدراهم، فقال: يا ايها الناس إنكم تاكلون الربا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا تبتاعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا زيادة بينهما ولا نظرة" فقال له معاوية: يا ابا الوليد لا ارى الربا في هذا إلا ما كان من نظرة، فقال عبادة: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتحدثني عن رايك، لئن اخرجني الله لا اساكنك بارض لك علي فيها إمرة، فلما قفل لحق بالمدينة، فقال له عمر بن الخطاب: ما اقدمك يا ابا الوليد؟ فقص عليه القصة، وما قال من مساكنته، فقال: ارجع يا ابا الوليد إلى ارضك، فقبح الله ارضا لست فيها، وامثالك وكتب إلى معاوية: لا إمرة لك عليه، واحمل الناس على ما قال فإنه هو الامر. (مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيَّ النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ أَرْضَ الرُّومِ، فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ كِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ، وَكِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ الرِّبَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلَا نَظِرَةَ" فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أَرَى الرِّبَا فِي هَذَا إِلَّا مَا كَانَ مِنْ نَظِرَةٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِكَ، لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ لَكَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ، فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ؟ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاكَنَتِهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَى أَرْضِكَ، فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا، وَأَمْثَالُكَ وَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: لَا إِمْرَةَ لَكَ عَلَيْهِ، وَاحْمِلِ النَّاسَ عَلَى مَا قَالَ فَإِنَّهُ هُوَ الْأَمْرُ.
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎“، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالولید! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابوالولید! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ابوالولید! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں“، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5106، ومصباح الزجاجة: 6)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساقاة 15 (1587)، سنن ابی داود/البیوع 12 (3349)، سنن الترمذی/البیوع 23 (1240)، سنن النسائی/البیوع 42 (4567)، مسند احمد (5/314)، سنن الدارمی/البیوع 41 (2554)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2254) (صحیح)» (بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ رضی اللہ عنہ سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل ومنقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں: قبیصہ کی ملاقات عبادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو۔ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالولید ہے۔
It was narrated from Ishaq bin Qabisah from his father that :
Ubadah bin Samit Al-Ansari, head of the army unit, the Companion of the Messenger of Allah (ﷺ), went on a military campaign with Mu'awiyah in the land of the Byzantines. He saw people trading pieces of gold for Dinar and pieces of silver for Dirham. He said: "O people, you are consuming Riba (usury)! For I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Do not sell gold for gold unless it is like for like; there should be no increase and no delay (between the two transactions).'" Mu'awiyah said to him: "O Abu Walid, I do not think there is any Riba involved in this , except in cases where there is a delay." 'Ubadah said to him: "I tell you a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ) and you tell me your opinion! If Allah brings me back safely I will never live in a land in which you have authority over me." When he returned, he stayed in Al-Madinah, and 'Umar bin Khattab said to him: "What brought you here, O Abu Walid?" So he told him the story, and what he had said about not living in the same land as Mu'awiyah. 'Umar said: "Go back to your land, O Abu Walid, for what a bad land is the land from where you and people like you are absent." Then he wrote to Mu'awiyah and said: "You have no authority over him; make the people follow what he says , for he is right."
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد، اور کھجور کا کھجور سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں چار ہی چیزوں کا ذکر ہے، لیکن ابوسعید کی روایت میں جو صحیحین میں وارد ہے، دو چیزوں چاندی اور نمک کا اضافہ ہے، اس طرح ان چھ چیزوں میں تفاضل (کمی بیشی) اور نسیئہ (ادھار) جائز نہیں ہے، اگر ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے تو درست ہے، اور اگر ایک طرف سے بھی ادھار ہو تو یہ سود ہو جائے گا۔
مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کسی کلیسا یا گرجا میں اکٹھا ہوئے، تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور گیہوں کو گیہوں سے، اور جو کو جو سے، اور کھجور کو کھجور سے بیچنے سے منع کیا ہے۔ (مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہے: ”اور نمک کو نمک سے“ اور دوسرے نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے) اور ہم کو حکم دیا ہے کہ ہم گیہوں کو جو سے اور جو کو گیہوں سے نقدا نقد (برابر یا کم و بیش) جس طرح چاہیں بیچیں۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور جو کو جو سے اور گیہوں کو گیہوں سے برابر برابر بیچیں“۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 15 (1588)، سنن النسائی/البیوع 44 (4573)، (تحفة الأشراف: 13625)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 12 (20)، مسند احمد (2/232) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ان میں تفاضل (کمی بیشی) درست نہیں ہے۔
(مرفوع) حدثنا ابو كريب ، حدثنا عبدة بن سليمان ، عن محمد بن عمرو ، عن ابي سلمة ، عن ابي سعيد ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يرزقنا تمرا من تمر الجمع، فنستبدل به تمرا هو اطيب منه ونزيد في السعر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يصلح صاع تمر بصاعين، ولا درهم بدرهمين، والدرهم بالدرهم، والدينار بالدينار لا فضل بينهما إلا وزنا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْزُقُنَا تَمْرًا مِنْ تَمْرِ الْجَمْعِ، فَنَسْتَبْدِلُ بِهِ تَمْرًا هُوَ أَطْيَبُ مِنْهُ وَنَزِيدُ فِي السِّعْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَصْلُحُ صَاعُ تَمْرٍ بِصَاعَيْنِ، وَلَا دِرْهَمٌ بِدِرْهَمَيْنِ، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ، وَالدِّينَارُ بِالدِّينَارِ لَا فَضْلَ بَيْنَهُمَا إِلَّا وَزْنًا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مختلف قسم کی مخلوط کھجوریں کھانے کو دیتے تھے، تو ہم انہیں عمدہ کھجور سے بدل لیتے تھے، اور اپنی کھجور بدلہ میں زیادہ دیتے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور سے اور ایک درہم کو دو درہم سے بیچنا درست نہیں، درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے، برابر برابر وزن کر کے بیچو، ان میں کمی بیشی جائز نہیں“۔
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونے کو چاندی سے بیچنا سود ہے مگر نقدا نقد“۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں کہ میں نے سفیان بن عیینہ کو کہتے سنا: یاد رکھو کہ سونے کو چاندی سے یعنی باوجود اختلاف جنس کے ادھار بیچنا «ربا»(سود) ہے۔
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن مالك بن اوس بن الحدثان ، قال: اقبلت، اقول: من يصطرف الدراهم، فقال طلحة بن عبيد الله وهو عند عمر بن الخطاب : ارنا ذهبك، ثم ائتنا إذا جاء خازننا نعطك ورقك، فقال عمر: كلا والله لتعطينه ورقه او لتردن إليه ذهبه، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" الورق بالذهب ربا إلا هاء وهاء". (مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ، أَقُولُ: مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ، فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ : أَرِنَا ذَهَبَكَ، ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَاءَ خَازِنُنَا نُعْطِكَ وَرِقَكَ، فَقَالَ عُمَرُ: كَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ".
مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ میں یہ کہتے ہوئے آیا کہ کون درہم کی بیع صرف کرتا ہے؟ یہ سن کر طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ بولے، اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے: لاؤ مجھے اپنا سونا دکھاؤ، اور دے جاؤ، پھر ذرا ٹھہر کے آنا، جب ہمارا خزانچی آ جائے گا تو ہم تمہیں درہم دے دیں گے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! یا تو اس کی چاندی دے دو، یا اس کا سونا اسے لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”چاندی کو سونے سے بیچنا سود ہے مگر جب نقدا نقد ہو“۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دینار کو دینار سے، اور درہم کو درہم سے بیچو ان میں کمی بیشی نہ ہو، اور جس کو چاندی کی حاجت ہو تو وہ اس کو سونے سے بھنا لے، اور جس کو سونے کی حاجت ہو اس کو چاندی سے بھنا لے، لیکن یہ نقدا نقد ہو، ایک ہاتھ سے لے دوسرے ہاتھ سے دے“۔