الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 2308
´قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز`
«. . . إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ الْقَبْرَ أَوَّلُ مَنْزِلٍ مِنْ مَنَازِلِ الْآخِرَةِ، فَإِنْ نَجَا مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَيْسَرُ مِنْهُ، وَإِنْ لَمْ يَنْجُ مِنْهُ فَمَا بَعْدَهُ أَشَدُّ مِنْهُ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آخرت کے منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے، سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور اگر جسے عذاب قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کے منازل سخت تر ہوں گے . . .“ [سنن ترمذي/كتاب الزهد عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/باب مِنْهُ: 2308]
فوائد و مسائل:
موت کے بعد آخروی زندگی شروع ہوتی ہے، جو دراصل جزا و سزا کا جہان ہے۔ جو شخص اس جہان میں چلا جاتا ہے، اس کا دنیا والوں سے کوئی دنیوی تعلق قائم نہیں رہتا، کیونکہ اخروی زندگی ایک الگ زندگی ہے۔ قبر کی زندگی اخروی حیات کا آغاز ہے۔
بہت سے لوگ اس اخروی زندگی کے سلسلے میں افراط و تفریط کا شکار ہو کر گمراہی کے اندھیروں میں بھٹکنے لگے ہیں۔ بعض نے تو تفریط میں مبتلا ہو کر سرے سے اس زندگی کا انکار کر دیا ہے، جبکہ بعض نے افراط میں پڑ کر اس زندگی کا اس طرح اقرار کیا کہ اسے دنیوی زندگی کی مثل سمجھ لیا۔ لیکن یہ عام زندگی جو سب کو ملتی ہے، ایک مخصوص نعرہ لگا کر انہوں نے اسے بلادلیل خاص کر دیا ہے۔
اس سلسلے میں اعتدال کی بات وہی ہے، جو ہمیں قرآن و سنت نے بتائی ہے۔ شرعی دلائل کے مطابق قبر کی زندگی نیک و بد سب کو ملتی ہے، البتہ درجات کے اعتبار سے اس زندگی کی حالت مختلف ہوتی ہے۔ انبیا و شہدا کی زندگی افضل ترین اور کفار کی بدترین ہوتی ہے، لیکن بہرحال یہ زندگی اخروی ہوتی ہے، دنیوی نہیں، جیسا کہ:
❀ ہانی مولیٰ عثمان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
”سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو وہاں اس قدر روتے کہ آپ کی ڈاڑھی تر ہو جاتی۔ آپ سے پوچھا گیا کہ جنت و جہنم کا تذکرہ ہوتا ہے، لیکن آپ نہیں روتے، مگر قبر کا ذکر سنتے ہی رو پڑتے ہیں؟ اس پر آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا تھا: بےشک قبر آخرت کی منزلوں میں سب سے پہلی منزل ہے۔ اگر کوئی شخص اس منزل کو کامیابی سے عبور کر گیا، تو اس کے بعد جو بھی منزل آئے گی، اس سے آسان تر ہی ہو گی لیکن اگر کوئی اسی منزل میں کامیاب نہ ہو سکا، تو اس کے بعد والی منزلیں اس سے بھی زیادہ سخت ہیں۔“ [مسند الام احمد: 63/1، سنن ترمذي 2308، سنن ابن ماجه 4267، وسنده حسن]
↰ اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن“، جبکہ امام حاکم رحمہ اللہ [331، 330/4] نے ” صحیح الاسناد“ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ” صحیح“ قرار دیا ہے۔
↰ اس حدیث سے یہ بات واضح طور پر سمجھ آ رہی ہے کہ موت کی صورت میں دنیوی زندگی ختم ہونے کے فورا بعد آخرت کی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ قبر آخرت کی ایک منزل ہے اور اس کی زندگی اخروی زندگی ہے، نہ کہ دنیوی۔
❀ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض موت کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے مسواک چھوٹ گئی۔ یوں اللہ تعالیٰ نے میرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب دہن کو اس دن ایک ساتھ جمع کر دیا، جو آپ کی دینوی زندگی کا آخری اور اخروی حیات کا پہلا دن تھا۔“ [صحیح بخاری: 4451]
↰ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان بھی اس سلسلے میں بالکل صریح ہے کہ موت کے فوراً بعد اخروی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔
لہٰذا قبر کی زندگی کے جو حالات قرآن و حدیث کے ذریعے ہمیں معلوم ہوئے ہیں، ان کا انکار کرنا بہت بڑی جہالت ہے۔ اس سے بھی بڑی جہالت یہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی یا اس سے مشابہ مانا جائے۔
ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 4