حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا يحيى بن حمزة ، حدثني برد بن سنان ، عن إسحاق بن قبيصة ، عن ابيه ، ان عبادة بن الصامت الانصاري النقيب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، غزا مع معاوية ارض الروم، فنظر إلى الناس وهم يتبايعون كسر الذهب بالدنانير، وكسر الفضة بالدراهم، فقال: يا ايها الناس إنكم تاكلون الربا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لا تبتاعوا الذهب بالذهب إلا مثلا بمثل لا زيادة بينهما ولا نظرة" فقال له معاوية: يا ابا الوليد لا ارى الربا في هذا إلا ما كان من نظرة، فقال عبادة: احدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتحدثني عن رايك، لئن اخرجني الله لا اساكنك بارض لك علي فيها إمرة، فلما قفل لحق بالمدينة، فقال له عمر بن الخطاب: ما اقدمك يا ابا الوليد؟ فقص عليه القصة، وما قال من مساكنته، فقال: ارجع يا ابا الوليد إلى ارضك، فقبح الله ارضا لست فيها، وامثالك وكتب إلى معاوية: لا إمرة لك عليه، واحمل الناس على ما قال فإنه هو الامر. حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنِي بُرْدُ بْنُ سِنَانٍ ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ قَبِيصَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ الْأَنْصَارِيَّ النَّقِيبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، غَزَا مَعَ مُعَاوِيَةَ أَرْضَ الرُّومِ، فَنَظَرَ إِلَى النَّاسِ وَهُمْ يَتَبَايَعُونَ كِسَرَ الذَّهَبِ بِالدَّنَانِيرِ، وَكِسَرَ الْفِضَّةِ بِالدَّرَاهِمِ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ تَأْكُلُونَ الرِّبَا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا تَبْتَاعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ لَا زِيَادَةَ بَيْنَهُمَا وَلَا نَظِرَةَ" فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: يَا أَبَا الْوَلِيدِ لَا أَرَى الرِّبَا فِي هَذَا إِلَّا مَا كَانَ مِنْ نَظِرَةٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ رَأْيِكَ، لَئِنْ أَخْرَجَنِي اللَّهُ لَا أُسَاكِنُكَ بِأَرْضٍ لَكَ عَلَيَّ فِيهَا إِمْرَةٌ، فَلَمَّا قَفَلَ لَحِقَ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَقْدَمَكَ يَا أَبَا الْوَلِيدِ؟ فَقَصَّ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، وَمَا قَالَ مِنْ مُسَاكَنَتِهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ يَا أَبَا الْوَلِيدِ إِلَى أَرْضِكَ، فَقَبَحَ اللَّهُ أَرْضًا لَسْتَ فِيهَا، وَأَمْثَالُكَ وَكَتَبَ إِلَى مُعَاوِيَةَ: لَا إِمْرَةَ لَكَ عَلَيْهِ، وَاحْمِلِ النَّاسَ عَلَى مَا قَالَ فَإِنَّهُ هُوَ الْأَمْرُ.
قبیصہ سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے (جو کہ عقبہ کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والے صحابی ہیں) معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سر زمین روم میں جہاد کیا، وہاں لوگوں کو دیکھا کہ وہ سونے کے ٹکڑوں کو دینار (اشرفی) کے بدلے اور چاندی کے ٹکڑوں کو درہم کے بدلے بیچتے ہیں، تو کہا: لوگو! تم سود کھاتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”تم سونے کو سونے سے نہ بیچو مگر برابر برابر، نہ تو اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار ۱؎“، تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ابوالولید! میری رائے میں تو یہ سود نہیں ہے، یعنی نقدا نقد میں تفاضل (کمی بیشی) جائز ہے، ہاں اگر ادھار ہے تو وہ سود ہے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ سے حدیث رسول بیان کر رہا ہوں اور آپ اپنی رائے بیان کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے یہاں سے صحیح سالم نکال دیا تو میں کسی ایسی سر زمین میں نہیں رہ سکتا جہاں میرے اوپر آپ کی حکمرانی چلے، پھر جب وہ واپس لوٹے تو مدینہ چلے گئے، تو ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابوالولید! مدینہ آنے کا سبب کیا ہے؟ تو انہوں نے ان سے پورا واقعہ بیان کیا، اور معاویہ رضی اللہ عنہ سے ان کے زیر انتظام علاقہ میں نہ رہنے کی جو بات کہی تھی اسے بھی بیان کیا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”ابوالولید! آپ اپنی سر زمین کی طرف واپس لوٹ جائیں، اللہ اس سر زمین میں کوئی بھلائی نہ رکھے جس میں آپ اور آپ جیسے لوگ نہ ہوں“، اور معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ عبادہ پر آپ کا حکم نہیں چلے گا، آپ لوگوں کو ترغیب دیں کہ وہ عبادہ کی بات پر چلیں کیونکہ شرعی حکم دراصل وہی ہے جو انہوں نے بیان کیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5106، ومصباح الزجاجة: 6)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساقاة 15 (1587)، سنن ابی داود/البیوع 12 (3349)، سنن الترمذی/البیوع 23 (1240)، سنن النسائی/البیوع 42 (4567)، مسند احمد (5/314)، سنن الدارمی/البیوع 41 (2554)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 2254) (صحیح)» (بوصیری کہتے ہیں کہ اس حدیث کی اصل صحیحین میں عبادہ رضی اللہ عنہ سے قصہ مذکورہ کے بغیرمروی ہے، اور اس کی صورت مرسل ومنقطع کی ہے کہ قبیصہ کو قصہ نہیں ملا، امام مزی کہتے ہیں: قبیصہ کی ملاقات عبادہ رضی اللہ عنہ سے نہیں ہوئی)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک ہاتھ لو اور دوسرے ہاتھ دو۔ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوالولید ہے۔
It was narrated from Ishaq bin Qabisah from his father that :
Ubadah bin Samit Al-Ansari, head of the army unit, the Companion of the Messenger of Allah (ﷺ), went on a military campaign with Mu'awiyah in the land of the Byzantines. He saw people trading pieces of gold for Dinar and pieces of silver for Dirham. He said: "O people, you are consuming Riba (usury)! For I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: 'Do not sell gold for gold unless it is like for like; there should be no increase and no delay (between the two transactions).'" Mu'awiyah said to him: "O Abu Walid, I do not think there is any Riba involved in this , except in cases where there is a delay." 'Ubadah said to him: "I tell you a Hadith from the Messenger of Allah (ﷺ) and you tell me your opinion! If Allah brings me back safely I will never live in a land in which you have authority over me." When he returned, he stayed in Al-Madinah, and 'Umar bin Khattab said to him: "What brought you here, O Abu Walid?" So he told him the story, and what he had said about not living in the same land as Mu'awiyah. 'Umar said: "Go back to your land, O Abu Walid, for what a bad land is the land from where you and people like you are absent." Then he wrote to Mu'awiyah and said: "You have no authority over him; make the people follow what he says , for he is right."
الذهب بالذهب الفضة بالفضة البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح مثلا بمثل سواء بسواء يدا بيد إذا اختلفت هذه الأصناف فبيعوا كيف شئتم إذا كان يدا بيد
الذهب بالذهب مثلا بمثل الفضة بالفضة مثلا بمثل التمر بالتمر مثلا بمثل البر بالبر مثلا بمثل الملح بالملح مثلا بمثل الشعير بالشعير مثلا بمثل من زاد فقد أربى بيعوا الذهب بالفضة كيف شئتم يدا بيد بيعوا البر بالتمر كيف شئتم يدا بيد وبيعوا الشعير بالبر
الذهب بالذهب تبرها وعينها الفضة بالفضة تبرها وعينها البر بالبر مدي بمدي الشعير بالشعير مدي بمدي التمر بالتمر مدي بمدي الملح بالملح مدي بمدي فمن زاد فقد أربى لا بأس ببيع الذهب بالفضة والفضة أكثرهما يدا بيد أما نسيئة فلا لا بأس ببيع البر بالشعير
بيع الذهب بالذهب الورق بالورق البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح إلا مثلا بمثل يدا بيد أمرنا أن نبيع الذهب بالورق الورق بالذهب البر بالشعير الشعير بالبر يدا بيد كيف شئنا من زاد أو ازداد فقد أربا
بيع الذهب بالذهب الفضة بالفضة التمر بالتمر البر بالبر الشعير بالشعير الملح بالملح إلا سواء بسواء مثلا بمثل من زاد أو ازداد فقد أربى أمرنا أن نبيع الذهب بالفضة الفضة بالذهب البر بالشعير الشعير بالبر
نبيع الذهب بالذهب الورق بالورق البر بالبر الشعير بالشعير التمر بالتمر الملح بالملح إلا سواء بسواء مثلا بمثل من زاد أو ازداد فقد أربى أمرنا أن نبيع الذهب بالورق الورق بالذهب البر بالشعير الشعير بالبر
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث18
اردو حاشہ: (1) سونے کا سونے سے، یا چاندی کا چاندی سے تبادلہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب دونوں طرف مقدار برابر ہو اور دونوں فریق بیک وقت ادائیگی کر دیں۔ البتہ سونے کا تبادلہ چاندی سے کیا جائے تو دونوں کی مقدار برابر ہونے کی شرط نہیں، تاہم دونوں طرف سے ادائیگی ایک ہی مجلس میں ہو جانی چاہیے۔ اسی پر قیاس کر کے کہا جا سکتا ہے کہ پرانے کرنسی نوٹوں کا نئے نوٹوں سے تبادلہ بھی انہی شروط کے ساتھ جائز ہے۔ مثلا سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے ایک سو دس روپے کے پرانے نوٹ لینا دینا جائز نہیں۔
(2) حدیث نبوی کے مقابلے میں کسی کی رائے معتبر نہیں، اگرچہ وہ ایک صحابی کی رائے ہو۔ تاہم ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی نے حدیث سے ایک مطلب سمجھا ہے، دوسرے صحابی کی رائے میں اس سے وہ مسئلہ نہیں نکلتا یا دوسری حدیث کو راجح سمجھتا ہے۔ اس صورت میں دونوں آراء کو سامنے رکھ کر غو ر کیا جا سکتا ہے کہ کون سا قول زیادہ صحیح ہے۔ اس اجتہاد میں اگر غلطی ہو جائے تو عنداللہ معاف ہے۔
(3) صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کی اہمیت اتنی زیادہ تھی کہ حدیث سے ہٹ کر ایک رائے ظاہر کی گئی تو صحابی رسول اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی ان کے اس جذبہ کی قدر کی حتیٰ کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو حکم دے دیا کہ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ تمہارے ماتحت نہیں ہوں گے۔
(4) جب کسی مسئلہ میں صحابہ رضی اللہ عنھم کی مختلف آراء ہوں تو وہ رائے زیادہ قابل قبول ہو گی جس کی تائید قرآن و حدیث سے ہو جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں آراء معلوم ہونے پر اس قول کو ترجیح دی جو فرمان نبوی سے ثابت تھا اور اسے قانونا نافذ کر دیا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 18
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4564
´گیہوں کے بدلے گیہوں بیچنے کا بیان۔` مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عتیک کہتے ہیں کہ ایک دن عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما اکٹھا ہوئے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سونے کو سونے کے بدلے، چاندی کو چاندی کے بدلے، گیہوں کو گیہوں کے بدلے، جَو کو جَو کے بدلے اور کھجور کو کھجور کے بدلے (ان میں سے ایک نے کہا: نمک کو نمک کے بدلے، دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا، مگر برابر برابر اور نقدا نقد، اور ہمیں حکم دیا کہ ہم سونا چاندی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4564]
اردو حاشہ: 1) گندم کے بدلے گندم بیچنی شرعاََ جائز ہے بشر طیکہ دونوں طرف سے گندم برابر ہو، نیز فریقین اسے اسی مجلس میں اپنے اپنے قبضے میں بھی لے لیں۔ (2) اس حدیث مبارکہ کے مختلف طرق (سندیں) دیکھنے سے بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے جو عہد وفا باندھا تھا اسے نہ صرف نبھایا بلکہ وفا کا حق ادا کر دیا۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ پر جو بیعت کی تھی اس کے تقاضے پورے کیے، خواہ اس ایفائے عہد سے ان کے کسی امیر کو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو یا نا گواری محسوس ہوتی ہو۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بھی انھی جلیل القدر عظماء میں سے تھے جنھوں نے نبی ﷺ سے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا نہیں کریں گے۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے حدیث بیان کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک غزوے میں لوگوں کو بہت سی غنیمتیں حاصل ہوئیں۔ غنیمتوں میں چاندی کے برتن بھی تھے۔ اس وقت ان لوگوں کے امیر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے اور انھوں نے ایک شخص کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو، وہ چاندی کے برتن جو بطور غنیمت ملے تھے، وہ برتن بیچ دے اور لوگوں کو بیت المال سے جو عطایا ملتے تھے جب وہ ملیں گے تو اس وقت ان چاندی کے برتنوں کی قیمت ان سے وصولی کر لی جائے گی۔ لوگوں نے دھڑا دھڑ یہ سودا کرنا شروع کر دیا۔ سیدنا عبادہ بن صامت تک یہ بات پہنچی تو وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی مذکورہ حدیث سنا دی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے سونے چاندی کی بیع ادھار پر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ان کی خرید و فروخت نقد کی صورت میں ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ یہ سن کر لوگوں نے چاندی کے جو برتن ان سے خرید لیے تھے واپس کر دیے اور سودا ختم کر دیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور فرمایا لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی احادیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے آپ سے نہیں سنی ہوتیں، حالانکہ ہم بھی رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے ہیں۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ یہ بات سن کر پھر کھڑے ہو گئے اور وہی حدیث مبارکہ دوبارہ سنا دی جو انھوں نے پہلے سنائی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ ہم نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے وہ ضرور بیان کریں گے، خواہ وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتنا ہی نا گوار گزرے یا فرمایا کہ اس سے معاویہ رضی اللہ عنہ اپنی ذلت محسوس کریں اور ساتھ ہی حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ یہ مسئلہ بیان کرنے کی وجہ سے اگر میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں ایک رات بھی نہ رہ سکوں تو مجھے اس کی قطعاََ کوئی پروا نہیں۔ میں نے جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے سن رکھا ہے، وہ ضرور بیان کروں گا، خواہ آج کا کوئی حکمران اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحيح مسلم، المساقاة، باب الصرف و بيع الذهب بالورق نقدا، حديث:1587) اس تفصیل سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لا يخافون لومة لائم کی جیتی جاگتی تصویر تھے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے علمائے حق پر جو بھاری ذمہ داری عائد کی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق کھل کر بیان کریں، حق کو قطعاََ نہ چھپائیں، نیز عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے والے بن جائیں اور دنیا میں شهداء الله بن کر رہیں۔ (3) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سنن کی تبلیغ کا خصوصی اہتمام کیا جائے علم رسول پھیلا یا جائے چاہے کوئی بڑے سے بڑا شخص اس کو نا پسند ہی کرتا ہو۔ حق بات برملا اور سب کے سامنے کہنی چاہیے۔ (4) حدیث مبارکہ سے مذکورہ اشیاء کی باہمی خرید و فروخت کا جواز بھی نکلتا ہے۔ ہم جنس اشیاء میں برابری اور تقابض کی شرط ہے۔ لیکن اگر جنس مختلف ہو جائے تو ان میں کمی بیشی تو جائز ہے لیکن سودے کا ہاتھوں ہاتھ ہونا شرط ہے۔ (5) اس حدیث مبارکہ سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گندم اور جو، کو ایک ہی جنس شمار کرتے ہیں۔ یہ دونوں ایک جنس نہیں بلکہ دو مختلف جنسیں ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے مذکورہ الفاظ اس کی صریح دلیل ہیں، آپ نے فرمایا: ”گندم کے عوض جو اور جو کے عوض گندم بیچ سکتے ہو جس طرح چاہو بشرطیکہ سودا نقد بہ نقد ہو، یعنی ادھار کسی طرف سے نہ ہو۔“ (6) مذکورہ چھ چیزوں میں کمی بیشی تو واقعی سود ہے، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ ان چھ کے علاوہ دوسری کون سی اشیاء میں کمی بیشی سود میں شمار ہو گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے تمام مکیلات و موزونات (جن چیزوں کو ماپا تولا جا سکے) کو اس حکم میں داخل کیا ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ان کے علاوہ تمام ماکولات (جو چیزیں کھانے اور خوراک کے کام آتی ہیں) اس حکم کے تحت داخل ہیں بشر طیکہ ان کو ذخیرہ کیا جا سکے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے دونوں قیود کو ملحوظ رکھا ہے، یعنی وہ مکیلہ و موزون بھی ہوں خوراک بھی ہوں۔ اہل ظاہر کا موقف ہے کہ سود صرف ان مذکورہ چھ چیزوں میں منحصر ہے۔ ان کے علاوہ کسی بھی چیز میں کمی بیشی سود شمار نہیں ہو گی، مگر یہ بات عقلی طور پر قابل قبول نہیں کیونکہ شریعت کے احکام کسی نہ کسی مقصد کی خاطر لاگو ہوتے ہیں۔ مذکورہ چیزوں کی بیع کمی بیشی کے ساتھ روکنے میں ایک مقصد سادگی اور قناعت پسندی بھی ہے۔ ظاہر ہے اچھی گندم ناقص گندم کے مقابلے میں ملنے سے تو رہی۔ کوئی شخص بھی ردی کھجوروں کے مقابلے میں اعلیٰ قسم کی کھجوریں نہیں دے گا۔ مذکور قسم کی بیع سے روکنے کا یہ فائدہ ہوگا کہ لوگ اپنے پاس موجود گندم، جو کھجوروں پر ہی قناعت کریں گے اور ذائقے کی تلاش میں سر گرداں نہیں ہوں گے۔ اس سے مہنگائی ختم ہو گی۔ عموما لوگوں کے پاس جنس ہی ہوتی ہے۔ پیسے کم ہی ہوتے ہیں، لہٰذا وہ اعلیٰ سے اعلیٰ کے حصول کے چکر میں نہیں پڑیں گے اور سادگی اور قناعت کا دور دورہ ہو گا۔ معاشرہ افرا تفری سے محفوظ رہے گا۔ اس مقصد کو پیش نظر رکھا جائے تو امام مالک رحمہ اللہ کی بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ یہ حکم ان تمام چیزوں کے بارے میں ہے جو بطور خوراک استعمال ہوتی ہوں اور ان کو ذخیرہ بھی کیا جا سکے۔ جبکہ اہل ظاہر کا مسلک اس حدیث سے بھی رد ہوتا ہے جس میں بیل پر لگے انگوروں کی بیع معین منقیٰ سے کرنا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ ایسی بیع میں بھی کمی بیشی کا خطرہ ہو سکتا ہے، حالانکہ منقیٰ یا انگور اس حدیث میں مذکور چھ چیزوں میں داخل نہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مسلک کی رو سے لوہا، پیتل وغیرہ بھی اس حکم میں آ جائیں گے، حالانکہ یہ چیزیں بذات خود فروخت ہونے کی بجائے عموما ان کی مصنوعات ہی فروخت ہوتی ہیں اور مصنوعات میں یہ حکم جاری کرنا تقریباََ نا ممکن ہے کیونکہ وہاں سودا صرف مادے کا نہیں بلکہ کار یگری اور مہارت کا بھی ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔ (7)”ایک منزل میں“ ان الفاظ سے ظاہرََا گھر بھی مراد ہو سکتا ہے۔ اور سفر کی منزل بھی، یہ دوسرا معنی ہی زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا تفصیلی حدیث: 1587 سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ دشمنوں کے ساتھ ایک لڑائی کے موقع پر پیش آیا اور وہ یقینا سفر میں تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4564
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4565
´جَو کے بدلے جَو بیچنے کا بیان۔` مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید (ابن عتیک)(ان کو ابن ہرمز بھی کہا جاتا ہے) بیان کرتے ہیں کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما ایک جگہ اکٹھا ہوئے، عبادہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے حدیث بیان کی کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، کھجور کھجور کے بدلے، گیہوں گی ہوں کے بدلے اور جَو جَو کے بدلے (ان دونوں راویوں میں سے ایک نے کہا:) نمک نمک کے بدلے، (دوسرے نے یہ نہیں کہا) بیچنے سے منع کیا مگر برابر برابر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4565]
اردو حاشہ: سونے اور چاندی کو اللہ تعالیٰ نے تجارت کے لیے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہ قیمت بنتے ہیں۔ جب سونے کے مقابلے میں سونا یا چاندی کے مقابلے میں چاندی ہو تو ان میں کمی بیشی منع ہے، لہٰذا جو چیزیں قیمت بنتی ہوں، ان میں بھی کمی بیشی منع ہو گی، مثلاََ: کرنسی نوٹ، بانڈ اور سر ٹیفکیٹ وغیرہ۔ سو روپے کا بانڈ یا سر ٹیفکیٹ سو روپے سے زائد میں خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا ورنہ سود بن جائے۔ اگر لوہے یا تابنے کے سکے بنائے جائیں یا لوہے تانبے کو بطور قیمت استعمال کیا جائے تو ان کی بیع یا تبادلے میں بھی کمی بیشی منع ہو گی، مثلاََ: سو روپے کا کرنسی نوٹ تبادلے میں سو روپوں کے سکوں کے برابر تصور کیا جائے گا۔ کمی بیشی منع ہو گی۔ آج کل مروجہ شیئرز (حصص) بھی اپنی اصل مالیت سے کم و بیش فروخت نہیں کیے جا سکتے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4565
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4566
´جَو کے بدلے جَو بیچنے کا بیان۔` مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما ایک جگہ اکٹھا ہوئے تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہم سونا سونے کے بدلے، چاندی چاندی کے بدلے، گیہوں گیہوں کے بدلے، جَو جَو کے بدلے اور کھجور کھجور کے بدلے بیچیں مگر نقدا نقد اور برابر برابر (ان دونوں راویوں میں سے کسی ایک نے کہا:) اور نمک نمک کے بدلے، (یہ دوسرے نے نہیں کہا اور پھر ان میں سے ایک نے کہا:) جس نے زیادہ دیا یا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4566]
اردو حاشہ: (1) مذکورہ روایت میں سلمہ بن علقمہ کے دو استاد ہیں: ایک محمد بن سیرین اور دوسرے قتادہ۔ محمد بن سیرین نے جب یہ روایت بیان کی تو فرمایا: [عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ] اور جب قتادہ نے یہ روایت بیان کی تو فرمایا: [عَنْ مُسْلِمِ بْنِ یَسَارٍ عَنْ أَيی الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِیِّ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ] مطلب یہ ہے کہ قتادہ نے مسلم بن یسار اور حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ابو الاشعث صنعانی کا واسطہ بھی بیان کیا ہے جیسا کہ اگلی روایت: 4567 کی سند سے واضح ہوتا ہے۔ (2) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیعت عقبہ کے نقباء میں سے ہیں۔ انصار کے اولیں مسلمانوں میں شامل ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زیر سایہ ان کا دور تعلیم و تربیت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تو صلح حدیبیہ کے بعد اگلے سال 7 ہجری میں مسلمان ہوئے۔ انھیں ان کی نسبت آپ سے فیض حاصل کرنے کا موقع کم ملا ہے، لہٰذا کوئی تعجب کی بات نہیں کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمان رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے نہ سنا ہو۔ یہ فرمان حضرت ابوہریرہ، حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔ اور بلا شک وشبہ صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4566
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2254
´بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔` مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید سے روایت ہے کہ عبادہ بن صامت اور معاویہ رضی اللہ عنہما دونوں کسی کلیسا یا گرجا میں اکٹھا ہوئے، تو عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں چاندی کو چاندی سے، اور سونے کو سونے سے، اور گیہوں کو گیہوں سے، اور جو کو جو سے، اور کھجور کو کھجور سے بیچنے سے منع کیا ہے۔ (مسلم بن یسار اور عبداللہ بن عبید ان دونوں میں سے ایک نے کہا ہے: ”اور نمک کو نمک سے“ اور دوسرے نے اس کا ذکر نہیں کیا ہے) اور۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2254]
اردو حاشہ: فائدہ: بعض علماء کےنزدیک یہ حکم صرف مندرجہ ذیل اشیاء کے لیے ہے: سونا، چاندی، گندم، جو، کھجور اور نمک۔ دوسرے علماء کے نزدیک جن اشیاء کا ذکر حدیث میں نہیں، ان كا بھی یہی حکم ہے کہ ایک جنس کی اشیاء کا (اچھی بری قسم کی وجہ سے) کمی بیشی کے ساتھ باہم تبادلہ نہیں ہونا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2254
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4061
ابو قلابہ بیان کرتے ہیں کہ میں شام میں ایک مجلس میں تھا، جس میں مسلم بن یسار بھی موجود تھے، تو ابو اشعث بھی آ گئے، لوگوں نے کہا، ابو اشعث آ گئے، ابو اشعث آ گئے، وہ بیٹھ گئے تو میں نے ان سے کہا، ہمارے بھائی (مسلم بن یسار) کو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ کی حدیث سنائیے، تو انہوں نے کہا، ہاں، ہم ایک جنگ میں شریک ہوئے، جس میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک آدمی کو کہا، اسے لوگوں کو عطیات کے حاصل ہونے کے وقت کی مدت کے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4061]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (1) حضرت مالک بن اوس اور حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کی حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نقدی (کرنسی) کے باہمی تبادلہ میں، اگر جنس ایک ہو تو مساوات اور دست بدست ہونا ضروری ہے، ایک طرف نقد ہو اور دوسری طرف نسیئہ ہو یعنی تاخیر ہو تو یہ تبادلہ جائز نہیں ہے۔ (2) حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے، اگر سونے یا چاندی کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو اس میں سونا، چاندی کرنسی دینار و درہم کی صورت میں ہو یا ڈلی کی صورت میں یا زیورات و برتن کی صورت میں، ہر حالت میں، ان کا برابر، برابر اور نقد بنقد ہونا ضروری ہے، لیکن معاویہ رضی اللہ عنہ کا نظریہ یہ تھا کہ جب وہ مصوغ ہے یعنی زیورات یا برتن وغیرہ کی صورت میں ہے، تو پھر اس کے عوض زیادہ سونا یا زیادہ چاندی لینا جائز ہے، کیونکہ اب یہ سونا یا چاندی نہیں ہے، قابل فروخت سامان ہے، جس میں ادھار اور کمی و بیشی دونوں جائز ہیں، حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے اس نظریہ پر اعتراض کیا تھا، لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی بات تسلیم نہیں کی تھی، پھر حضرت ابو درداء نے، حضرت عمر بن خطاب کو اس کی اطلاع دی، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو اس سے روک دیا، جس سے معلوم ہوتا ہے، یہ حضرات اس حدیث کو عام معنی میں لیتے تھے، اور وہ سونے، چاندی کی ہر صورت میں تبادلہ میں مساوات و برابری اور نقد بنقد ضروری خیال کرتے تھے، اور جمہور ائمہ کا یہی موقف ہے۔ (3) ابن عساکر کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبادہ رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ روایت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ماہ رمضان 10ھ میں سنی تھی، اور اس لیے یہ بھی ثابت ہوتا ہے، کہ ایک صحابی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نشین اور رفیق رہا ہے، ضروری نہیں ہے کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر حدیث سنی ہو، جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نہیں سنی تھی، اس لیے حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے ان کی اس دلیل کو رد کر دیا کہ میں آپﷺ کی مجلس میں حاضر ہوتا تھا، اور آپﷺ کی احادیث سنتا تھا، لیکن میں نے نہیں سنی ہے، تم کیوں بیان کرتے ہو۔ (4) اعطيات الناس سے مراد، لوگوں کو بیت المال سے ملنے والے وظائف ہیں، اس طرح گویا، لوگوں نے چاندی یا سونے کے برتن، ادھار خریدے یا بیچے تھے، کہ جب ہمیں وظائف مل جائیں گے، تو ہم ان کی قیمت ادا کر دیں، تو حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ نے اس سے منع کیا، کیونکہ تبادلہ میں نقد بنقد ہونا ضروری ہے، سونے، چاندی کا برتن، سونے چاندی کے حکم میں ہے، اس لیے اگر اسے خریدا جائے گا، تو دونوں کا وزن برابر ہونا چاہیے اور نقد بنقد ہو، جبکہ برتن خالص سونے یا خالص چاندی کا ہو۔ (5) ذهب و فضة: (سونا، چاندی) میں سود کی علت و سبب ائمہ اربعہ کے نزدیک کیا ہے، اس کی بحث گزر چکی ہے، باقی اشیاء (گندم، جو، کھجور اور نمک) کے بارے میں مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔ (1) امام ابو حنیفہ، امام احمد اور امام اسحاق وغیرہم رحمہم اللہ کے نزدیک ناپ کیل اور ایک جنس ہونا ہے، اس لیے ان کے نزدیک ہر کیلی اور وزنی چیز کا اگر اس کی مثل ہم جنس سے تبادلہ ہو گا، تو برابر، برابر اور نقد بنقد ہو گا۔ چاہے، وہ چیز طعام بنے یا نہ، مثلا روئی، اون، اناج، لوہا، پیتل، سونا اور چاندی وغیرہ۔ (2) امام شافعی کے نزدیک مطعوم (کھانے کی اشیاء) اور ہم جنس ہونا ہے، اور امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے، اس قول کی رو سے ربا الفضل کا تعلق تمام مطعومات سے ہو گا، وہ کیلی ہوں یا وزنی ہوں یا گن کر فروخت ہوتی، تبادلہ برابر، برابر ہو گا، مثلا سیبوں، انار یا انڈوں کا تبادلہ برابر ہو گا، مگر مطعوم نہیں ہیں تو کمی و بیشی جائز ہے۔ (3) امام مالک کے نزدیک ذخیرہ کے قابل اشیاء، اور ہم جنس ہوں اور بعض مالکیہ کے نزدیک اس کے ساتھ قوت (خوراک) ہونا بھی شرط ہے، یعنی ادخار، خوراک اور ہم جنس ہوں۔ شاہ ولی اللہ نے مالکیہ کے موقف کو پسند کیا ہے، حجۃ اللہ، ج 2، ص 107 اور علامہ تقی نے لکھا ہے، ان تعليل المالكية اظهر و اولي من جهة النظر ومن جهة العمل عليه (تکملة، ج 1، ص 582) مالکیہ کی علت زیادہ واضح ہے اور نظری و فکری حیثیت سے اور عملی اعتبار سے بھی زیادہ مناسب ہے، گویا ربا الفضل کا تعلق غذا بننے والی اشیاء سے ہے، جبکہ ان کا ذخیرہ کرنا ممکن ہو، ہر مطعوم چیز سے نہیں ہے اور ابن رشد مالکی نے بدایہ میں احناف کے موقف کو پسند کیا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4061
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4063
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا، سونے کے عوض، چاندی، چاندی کے عوض، گندم گندم کے عوض، جو، جو کے عوض، کھجور، کھجور کے عوض، نمک، نمک کے عوض، برابر، برابر اور ہاتھوں ہاتھ ہو گا اور جب یہ اقسام مختلف ہو جائیں تو جیسے چاہو فروخت کرو، بشرطیکہ ہاتھوں ہاتھ یعنی نقد بنقد ہو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:4063]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جنس کے ایک ہونے کی صورت میں باہمی مساوات کی صورت میں تبادلہ ہو گا، لیکن اگر جنس بدل جائے، تو کمی و بیشی جائز ہے، لیکن ادھار دونوں صورتوں میں ناجائز ہے، جبکہ کوئی چیز رقم (پیسوں) سے خریدنی ہے، تو پھر ادھار اشیاء فروخت کرنا جائز ہے۔