الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3456
3456. حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً تم (مسلمان بھی) اپنے سے پہلے لوگوں کی بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ (قدم بقدم) پیروی کرو گے۔ اگر وہ کسی سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے۔“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اور کون ہو سکتےہیں؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3456]
حدیث حاشیہ:
افسوس کہ دورحاضر کے مسلمان اس حدیث کے مصداق اندھا دھند یہود ونصاریٰ کی پیروی کرنے میں فکر محسوس کرتے ہیں۔
ملکی سطح پر ہمارے ہاں انگریز کا قانون رائج ہے اگرچہ اس پر اسلامی ہونے کا لیبل لگا دیاگیا ہے۔
ہم لو گ لباس، اخلاق اور عادات میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تقلید کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3456
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7320
7320. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں کے طریقوں کی ایسے پیروی کروگے جیسے بالشت، بالشت کے برابر ہے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہے یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کی بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کا اتباع کرو گے۔“ ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس سے یہود نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اور کون مراد ہو سکتے ہیں؟“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7320]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کرآئے، اس کی اپنی تہذیب وثقافت، طرزمعاشرت اور کلچر ہے، لیکن افسوس کہ مسلمان اس تہذیب وثقافت کو چھوڑ کر دوسروں کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
آج ہم سیاست وقیادت میں فارس وروم کے نقش قدم پرچلتے ہیں تو مذہبی ثقافت وکلچر میں ہم یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حدیثوں میں دوقسم کے لوگوں کی نشاندہی کی ہے جنھیں آج نام نہاد مسلمانوں نے اپنا قبلہ قرار دے لیا ہے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت آس پاس دو ہی بڑی حکومتیں تھیں اور ان کی رعیت بھی بکثرت تھی اور دوردراز تک ان کا سکہ چلتا تھا۔
برصغیر میں جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو پہلے انھوں نے ایرانیوں کی چال ڈھال اور وضع قطع اختیار کی، اس کے بعدانگریزوں کا دورآیا تو اکثر سربراہاں ان کی نقالی کرتے ہیں۔
آج ہمارے ہاں جو قانون نافذ ہے وہ انھی کا مرہون منت ہے، حتی کہ ہم کھانے پینے، لباس ومعاشرت اور نشست وبرخاست بلکہ تمام رسومات میں انھی کی پیروی کرتے ہیں۔
سانڈے کے بل میں گھسنے سے بھی یہی مراد ہے کہ انھی کی چال ڈھال اختیار کروگے خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔
آج مسلمانوں کی اجتہادی اور اختراعی قوت ختم ہوچکی ہے جیسے انگریز اور فرنگی کرتے ہیں، ہم بھی ان کی دیکھا دیکھی وہ کام شروع کر دیتے ہیں۔
اس بات پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ آیا یہ کام ہماری ملکی معاشرت اور طرززندگی کے لحاظ سے قرین عقل بھی ہے یا نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7320