حفص بن میسرہ نے کہا: مجھے زید بن اسلم نے عطاء بن یسار سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ضرور ان لوگوں کے طریقوں پر بالشت بر بالشت اور ہاتھ بر ہاتھ چلتے جاؤ گے جو تم سے پہلے تھے (بعینہ ان کے طریقے اختیار کرو گے، ان سے ذرہ برابر آگے پیچھے نہ ہو گے) حتی کہ اگر وہ سانڈے کے بل میں گھسے تو تم بھی ان کے پیچھے گھسو گے۔" ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول! کیا یہود اور نصاریٰ (کے پیچھے چلیں گے؟) آپ نے فرمایا: "تو (اور) کن کے؟"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم پہلی امتوں کی ڈگر پر چلو گے،برابر برابر،جس طرح ایک بالشت کے برابر ہے اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ کے برابر ہے،حتی کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تھے تو تم اس میں بھی ان کی پیروی کرو گے۔"ہم نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہود اور نصاری مراد ہیں؟"آپ نے فرمایا:"اور کون۔"
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6781
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: سنن: ڈگر، رویہ، طرز عمل، جو لوگ اس کو سنن پڑھتے ہیں، ان کے نزدیک سنة (طریقہ، راستہ) کی جمع ہے کہ ان کے راستوں پر چلو گے۔ فوائد ومسائل: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودونصاریٰ نے اپنے دین اور شریعت کے ساتھ جو وطیرہ اور طرز عمل اختیار کیا تھا، ہوبہو یہ امت بھی وہ طرزعمل اختیار کرے گی، انہیں کی طرح بدعملی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کرے گی، دین کے اندر نئی نئی بدعات کو رواج دے گی، اپنے نبی کے بارے میں غلو کرے گی اور اپنی کتاب کو اپنی تاویلوں کا نشانہ بنائے گی، ان امتوں نے اپنی کتابوں میں تحریف لفظی اور تحریف معنوی کی اور اس امت نے بھی قرآن و حدیث میں تحریف معنوی کی، حتی کہ احادیث میں تحریف لفظی بھی کی، قرآن مجید میں یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی، کیونکہ یہ آخری کتاب ہے، لیکن تحریف لفظی کی کوشش کی گئی، اپنی کتابوں میں آیات سے استدلال کرتے وقت شعوری اور غیر شعوری طور پر، آیت میں کمی و بیشی کی اور خواہشات و اھوا کی پیروی میں ان کو بھی پیچھے چھوڑ گئے، ماں، بیٹی تک سے بدفعلی کا ارتکاب کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6781
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3456
3456. حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً تم (مسلمان بھی) اپنے سے پہلے لوگوں کی بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ (قدم بقدم) پیروی کرو گے۔ اگر وہ کسی سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے۔“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اور کون ہو سکتےہیں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3456]
حدیث حاشیہ: آپ کا مطلب یہ تھاکہ تم اندھا دھند یہود و نصاریٰ کی تقلید کرنےلگو گے، فکر اور تامل کا مادہ تم سےنکل جائے گا۔ ہمارے زمانےمیں مسلمان ایسے ہی ااندھے بن گئے ہیں، یہود و نصاری نےجس طرح دین کا برباد کیا ان سےبھی بڑھ کرمسلمانوں نےبدعات ایجاد کرکے اسلام کاحلیہ مسخ کردیا ہے، قبر پرستی،امام پرستی مسلمانوں کاشعار بن گئی ہیں۔ ان میں اس قدر فرقے پیدا ہوگئے کہ یہود و نصاریٰ سے آگے ان کاقدم ہے، شیعہ اورسنی ناموں سےجو تفریق ہوئی وہ تفریق درتفریق ہوتےہوئے سینگڑوں فرقوں تک نوبت پہنج چکی ہے، کتاب وسنت کاصرف نام باقی رہ گیا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3456
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7320
7320. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں کے طریقوں کی ایسے پیروی کروگے جیسے بالشت، بالشت کے برابر ہے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہے یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کی بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کا اتباع کرو گے۔“ ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس سے یہود نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اور کون مراد ہو سکتے ہیں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7320]
حدیث حاشیہ: گوہ کے بل میں گھسنے کا مطلب یہ ہے کہ انہی کی سی چال ڈھال اختیار کرو گے۔ اچھی ہو یا بری ہر حال میں ان کی چال چلنا پسند کرو گے۔ ہمارے زمانہ میں بعینہ یہی حال ہے۔ مسلمانوں سے قوت اجتہادی اور اختراعی کا مادہ بالکل سلب ہو گیا ہے۔ پس جیسے انگریزوں کو کرتے دیکھا وہی کام خود بھی کرنے لگتے ہیں‘ کچھ سوچتے ہی نہیں کہ آیا یہ کام ہمارے ملک اور ہماری آب وہوا کے لحاظ سے مناسب اور قرین عقل بھی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم کرے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7320
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3456
3456. حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً تم (مسلمان بھی) اپنے سے پہلے لوگوں کی بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ (قدم بقدم) پیروی کرو گے۔ اگر وہ کسی سانڈے کے بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس جاؤ گے۔“ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! پہلے لوگوں سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اور کون ہو سکتےہیں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3456]
حدیث حاشیہ: افسوس کہ دورحاضر کے مسلمان اس حدیث کے مصداق اندھا دھند یہود ونصاریٰ کی پیروی کرنے میں فکر محسوس کرتے ہیں۔ ملکی سطح پر ہمارے ہاں انگریز کا قانون رائج ہے اگرچہ اس پر اسلامی ہونے کا لیبل لگا دیاگیا ہے۔ ہم لو گ لباس، اخلاق اور عادات میں یہودیوں اور عیسائیوں کی تقلید کرتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3456
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7320
7320. سیدنا ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”تم پہلے لوگوں کے طریقوں کی ایسے پیروی کروگے جیسے بالشت، بالشت کے برابر ہے اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ہے یہاں تک کہ اگر وہ سانڈے کی بل میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کا اتباع کرو گے۔“ ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! اس سے یہود نصاریٰ مراد ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”اور کون مراد ہو سکتے ہیں؟“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7320]
حدیث حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت لے کرآئے، اس کی اپنی تہذیب وثقافت، طرزمعاشرت اور کلچر ہے، لیکن افسوس کہ مسلمان اس تہذیب وثقافت کو چھوڑ کر دوسروں کی تقلید کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج ہم سیاست وقیادت میں فارس وروم کے نقش قدم پرچلتے ہیں تو مذہبی ثقافت وکلچر میں ہم یہودیوں اور عیسائیوں کی پیروی کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں حدیثوں میں دوقسم کے لوگوں کی نشاندہی کی ہے جنھیں آج نام نہاد مسلمانوں نے اپنا قبلہ قرار دے لیا ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت آس پاس دو ہی بڑی حکومتیں تھیں اور ان کی رعیت بھی بکثرت تھی اور دوردراز تک ان کا سکہ چلتا تھا۔ برصغیر میں جب مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی تو پہلے انھوں نے ایرانیوں کی چال ڈھال اور وضع قطع اختیار کی، اس کے بعدانگریزوں کا دورآیا تو اکثر سربراہاں ان کی نقالی کرتے ہیں۔ آج ہمارے ہاں جو قانون نافذ ہے وہ انھی کا مرہون منت ہے، حتی کہ ہم کھانے پینے، لباس ومعاشرت اور نشست وبرخاست بلکہ تمام رسومات میں انھی کی پیروی کرتے ہیں۔ سانڈے کے بل میں گھسنے سے بھی یہی مراد ہے کہ انھی کی چال ڈھال اختیار کروگے خواہ وہ اچھی ہو یا بری۔ آج مسلمانوں کی اجتہادی اور اختراعی قوت ختم ہوچکی ہے جیسے انگریز اور فرنگی کرتے ہیں، ہم بھی ان کی دیکھا دیکھی وہ کام شروع کر دیتے ہیں۔ اس بات پر بھی غور نہیں کیا جاتا کہ آیا یہ کام ہماری ملکی معاشرت اور طرززندگی کے لحاظ سے قرین عقل بھی ہے یا نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7320