● صحيح البخاري | 2868 | عبد الله بن عمر | ما ضمر من الخيل من الحفياء إلى ثنية الوداع وأجرى ما لم يضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق قال ابن عمر وكنت فيمن أجرى |
● صحيح البخاري | 420 | عبد الله بن عمر | سابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء وأمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها |
● صحيح البخاري | 7336 | عبد الله بن عمر | سابق النبي بين الخيل فأرسلت التي ضمرت منها وأمدها إلى الحفياء إلى ثنية الوداع والتي لم تضمر أمدها ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله كان فيمن سابق |
● صحيح البخاري | 2869 | عبد الله بن عمر | سابق بين الخيل التي لم تضمر وكان أمدها من الثنية إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله بن عمر كان سابق بها |
● صحيح البخاري | 2870 | عبد الله بن عمر | بين الخيل التي قد أضمرت فأرسلها من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع فقلت لموسى فكم كان بين ذلك قال ستة أميال أو سبعة وسابق بين الخيل التي لم تضمر فأرسلها من ثنية الوداع وكان أمدها مسجد بني زريق قلت فكم بين ذلك قال ميل أو نحوه وكان ابن عمر ممن سابق فيها |
● صحيح مسلم | 4843 | عبد الله بن عمر | سابق بالخيل التي قد أضمرت من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق |
● جامع الترمذي | 1699 | عبد الله بن عمر | أجرى المضمر من الخيل من الحفياء إلى ثنية الوداع وبينهما ستة أميال وما لم يضمر من الخيل من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق وبينهما ميل وكنت فيمن أجرى فوثب بي فرسي جدارا |
● سنن أبي داود | 2575 | عبد الله بن عمر | سابق بين الخيل التي قد ضمرت من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق وإن عبد الله كان ممن سابق بها |
● سنن أبي داود | 2576 | عبد الله بن عمر | كان يضمر الخيل يسابق بها |
● سنن أبي داود | 2577 | عبد الله بن عمر | سبق بين الخيل وفضل القرح في الغاية |
● سنن النسائى الصغرى | 3614 | عبد الله بن عمر | سابق بين الخيل التي قد أضمرت من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق |
● سنن النسائى الصغرى | 3613 | عبد الله بن عمر | سابق بين الخيل يرسلها من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر وكان أمدها من الثنية إلى مسجد بني زريق |
● سنن ابن ماجه | 2877 | عبد الله بن عمر | ضمر رسول الله الخيل فكان يرسل التي ضمرت من الحفياء إلى ثنية الوداع والتي لم تضمر من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 562 | عبد الله بن عمر | سابق بين الخيل التى قد اضمرت من الحفياء، وكان امدها ثنية الوداع |
● بلوغ المرام | 1130 | عبد الله بن عمر | وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق |
● بلوغ المرام | 1131 | عبد الله بن عمر | سبق بين الخيل وفضل القرح في الغاية |
● مسندالحميدي | 701 | عبد الله بن عمر | سابق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الخيل، فأرسل ما أضمر منها من الحفياء إلى مسجد بني زريق، وأرسل ما لم يضمر منها من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق |
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2869
´گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں کو تیار کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ وَكَانَ أَمَدُهَا مِنْ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ . . .»
”. . . عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور دوڑ کی حد ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق رکھی تھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2869]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2869 کا باب: «بَابُ إِضْمَارِ الْخَيْلِ لِلسَّبْقِ:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
مذکورہ باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں اضمار شدہ گھوڑوں کا ذکر مشروط ہے اور حدیث میں غیر اضمار گھوڑوں کا ذکر ہے۔ اس کا جواب اور تطبیق یہ ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ حدیث کا ایک لفظ لا کر دوسرے لفظ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، اس حدیث میں دوسرا لفظ یہ ہے کہ جن گھوڑوں کا اضمار ہوا تھا آپ نے ان کی شرط کرائی، حفیاءسے ثینہ تک۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ سنت تو یہ ہے کہ مقابلہ میں وہ گھوڑے مقدم کیے جائیں جن کو دبلا کیا گیا ہو، لیکن اگر ان گھوڑوں کا مقابلہ کروایا جائے جن کا اضمار نہیں کیا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
«اشارة إلى أن السنة فى المسابقة أن يتقدم اضمار الخيل، وان كانت التى لا تضمر لا تمتنع المسابقة عليها.» [فتح الباري، ج 6، ص: 89]
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أي هذا باب فى بيان اضمار الخيل لأجل السبق، هل هو شرط أم لا؟» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص: 159]
یعنی یہ باب مقابلہ کی غرض سے گھوڑے کے اضمار کے بیان میں ہے (مقابلے میں شریک) گھوڑے کا اضمار کرنا شرط ہے یا نہیں۔ لہذا اس بات کا جواب حدیث کے باب میں مذکور ہے کہ مقابلے کے گھوڑوں کے لیے اضمار شرط نہیں، اس کے بغیر بھی مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔ [المتواري على أبواب البخاري، ص: 160]
فائدہ: (اضمار کے معنی و مطلب):
اضمار خواہ باب افعال سے ہو یا تفعیل سے اس کے معنی گھوڑے کو دبلا بنانے اور چھریرا بنانے کے ہیں۔ لہذا اسی لیے کہا جاتا ہے:
«أضمر الفرس وضمره.» [مصباح اللغات، ص: 499، مادة ’ضمر‘ - المعجم الوسيط، ج 1، ص: 543، مادة ’ضمر‘]
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 405
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1130
´گھڑ دوڑ اور تیراندازی کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار شدہ گھوڑوں کی حفیاء سے ثنیہ الوداع تک دوڑ کرائی اور جو گھوڑے تیار نہیں تھے ان کو ثنیۃ سے لے کر بنی زریق کی مسجد تک دوڑایا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی مسابقت میں شریک تھے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری میں اتنا اضافہ ہے کہ سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کا فاصلہ پانچ یا چھ میل ہے اور ثنیۃ سے مسجد بنی زریق تک کا فاصلہ ایک میل ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1130»
تخریج: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب هل يقال مسجد بني فلان، حديث:420، ومسلم، الإمارة، باب المسابقة بين الخيل وضميرها، حديث:1870.»
تشریح:
1. اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑ دوڑ‘ تیر اندازی اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس دور میں یہی چیز عموماً جنگ میں کام آتی تھی۔
2. آج کے دور میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
تیر و نیزے کی جگہ بندوق‘ توپ اور جدید جنگی آلات کے استعمال کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1130
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1131
´گھڑ دوڑ اور تیراندازی کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے درمیان مسابقت کرائی اور نوجوان گھوڑوں کی حد میں فرق ملحوظ رکھا۔ اسے احمد اور ابوداؤد نے روایت کیا اور ابن حبان سے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1131»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الجهاد، باب في السبق، حديث:2577، وابن حبان (الإحسان): 7 /95، 96، حديث:4669.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جانوروں کا بھی بہت خیال اور لحاظ رکھنا چاہیے۔
جتنی ہمت و طاقت کا جانور ہو، اس سے اسی کے مطابق خدمت لی جانی چاہیے۔
ہمت و طاقت سے زیادہ کام لینا درست نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1131
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3613
´غیر سدھائے ہوئے گھوڑوں کی گھڑ دوڑ میں مسابقت کی حد کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک) گھوڑوں کی دوڑ کرائی (کہ کون گھوڑا آگے نکلتا ہے) ۱؎ حفیاء سے روانہ کرتے (دوڑاتے) اور ثنیۃ الوداع آخری حد تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں میں بھی دوڑ کرائی جو محنت و مشقت کے عادی نہ تھے (جو سدھائے اور تربیت یافتہ نہ تھے) اور ان کے دوڑ کی حد ثنیۃ سے مسجد بنی زریق تک تھی ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب الخيل/حدیث: 3613]
اردو حاشہ:
(1) ”تضمیر شدہ گھوڑے“ اس سے مراد وہ گھوڑے ہیں جنہیں دوڑ کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا جاتا تھا۔ طریقہ یہ تھا کہ کچھ عرصے کے لیے انہیں خوب کھلا کر موٹا تازہ کرلیا جاتا تھا‘ پھر بتدریج خوارک کم کی جاتی تھی اور اسے ایک بند کمرے میں داخل کردیا جاتا اور اس پر جل وغیرہ دے دیے جاتے‘ پھر اسے بھوکا رکھا جاتا تاکہ بکثرت پسینہ آنے سے اس کے جسم سے فالتو مواد ختم ہوجائے۔ نتیجتاً وہ مضبوط اور سخت جسم والا بن جاتا۔ خوب دوڑتا اور دوڑنے سے پسینہ نہ آتا تھا اور نہ سانس چڑھتا تھا۔ اور جنگ میں بہت مفید ثابت ہوتا تھا۔
(2) حَفْیَاء سے تثنیۃ الوداع تک چھ میل کا فاصلہ تھا اور تثنیۃ الوداع سے مسجد بنوزریق تک ایک میل۔ اتنا فرق ہوتا تھا تضمیر شدہ اور غیر تضمیر شدہ گھوڑوں میں۔
(3) بہترین افادیت کے حصول کے لیے جانوروں کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جاسکتا ہے جس میں ان کے لیے زیادہ مشقت اور تکلیف کا پہلو ہو جیسا کہ تضمیر کے لیے بھوکا رکھنا اور کمرے میں بند رکھنا وغیرہ۔
(4) مسجد کی نسبت مسجد بنانے والے کی طرف کی جا سکتی ہے اور یہ نسبت تمیز کے لیے ہوگی نہ کہ تملیک کے لیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3613
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2575
´گھوڑ دوڑ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کے درمیان ۱؎ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کرایا، اور غیر چھریرے بدن والے گھوڑوں، کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کرایا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مقابلہ کرنے والوں میں سے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2575]
فوائد ومسائل:
1۔
گھوڑوں کو پالتے ہوئے پہلے انہیں کھلا پلا کر خوب موٹا تازہ کیا جاتا ہے۔
پھر ان کی خوراک میں بتدریج کمی کی جاتی ہے۔
اور کسی مکان میں بند رکھا جاتا ہے۔
اور ان پر کپڑا بھی ڈالتے ہیں۔
اس سے ان کو پسینہ آتا ہے حتی ٰ کہ ان کی زائد چربی وغیرہ ختم ہوجاتی ہے۔
اور اس طرح وہ بہت طاقت ور ہوجاتے ہیں۔
اور ان کا سانس بہت کم پھولتا ہے۔
اس عمل کو اضمار اور ایسے گھوڑوں کو مضمر کہتے ہیں۔
(پہلی میم پر پیش اور دوسری پر زبر کے ساتھ)
2۔
حدیث شریف میں ہے کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کے درمیان پانچ چھ میل کا فاصلہ تھا۔
اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق کے درمیان ایک میل کا (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2868)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2575
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2577
´گھوڑ دوڑ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑ دوڑ کا مقابلہ کرایا اور پانچویں برس میں داخل ہونے والے گھوڑوں کی منزل دور مقرر کی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2577]
فوائد ومسائل:
1۔
امت میں جہاد کی روح باقی رکھئے اور جہاد کی تیاری کے لئے ان تربیتی امور کا اہتمام انتہائی ضروری اور واجب ہے۔
2۔
(قرح) یہ قارح کی جمع ہے۔
اس سے مراد ایسا گھوڑا ہے۔
جو پانچویں سال میں داخل ہو چکا ہو۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2577
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2877
´گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو پھرتیلا بنایا، آپ پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کو مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور غیر پھرتیلے گھوڑوں کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑاتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2877]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تضمیر سے مراد گھوڑوں کی ایک خاص انداز سے تربیت کرنا ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ گھوڑے کو خوب کھلا پلا کر موٹا کرتے ہیں پھر اس کا چارہ کم کردیتے ہیں اور اسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیتے ہیں۔
اسے وہاں پسینہ آتا ہے اور وہیں خشک ہوتا ہے۔
اور وہ بغیر تھکے زیادہ دوڑ سکتا ہے۔
۔
(2) (حفياء)
اور(ثنيةالوداع)
دو جگہوں کے نام ہیں جن کے درمیان تین میل کا فاصلہ ہے۔
(3) (ثنية الوداع)
سے مسجد بنی زریق تک ایک میل کا فاصلہ ہے۔
(4)
دور کے مقابلے میں مناسب فاصلے کا تعین ہونا چاہیے۔
(5)
بنی زریق ایک قبیلے کا نام ہے۔
وہ لوگ اس مسجد کے قریب رہتےاور اس میں نماز پڑھتے تھے لہٰذا مسجد کو کسی قبیلے یا گروہ کی طرف پہچان کے لیے منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ سب مسجدیں اللہ ہی کی ہوتی ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2877
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1699
´گھڑ دوڑ میں شرط لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «تضمیر» کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے، اور جو «تضمیر» کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے، گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا، چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کود گیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1699]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھڑدوڑ،
تیر اندازی،
اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے،
نبی اکرمﷺ کے دور میں عموماً یہی چیزیں جنگ میں کام آتی تھیں،
حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آج کے دور میں راکٹ،
میزائل،
ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کا تجربہ حاصل کیاجائے،
ساتھ ہی بندوق توپ اور ہرقسم کے جدید جنگی آلات کی تربیت حاصل کی جائے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1699
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4843
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تضمیر شدہ گھوڑوں کا حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کا مقابلہ کروایا اور غیر تضمیر شدہ کا، ثنیہ سے مسجد زریق تک مقابلہ کروایا، ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما نے بھی اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4843]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اضمرت:
تضمیر یہ ہے کہ گھوڑے کو پہلے خوب کھلا پلا کر موٹا تازہ کرتے ہیں،
پھر آہستہ آہستہ چارہ کم کرتے رہتے ہیں اور اس کو جھل پہنا کر ایک کوٹھڑی میں بند کر دیتے ہیں،
تاکہ اس کو خوب پسینہ آ کر خشک ہو،
اس کا گوشت کم ہو،
تاکہ وہ زیادہ تیز دوڑ سکے۔
فوائد ومسائل:
بلا معاوضہ یا بلا شرط گھوڑوں کو مقابلہ میں دوڑانا بالاتفاق جائز ہے،
اس طرح اگر کسی ایک پارٹی یا حکومت کی طرف سے اول آنے والے یا تمام شرکاء کے لیے کوئی انعام مقرر ہو تو پھر بھی بالاتفاق جائز ہے،
اس طرح اگر رقم ایک طرف سے مقرر ہو،
تو پھر بھی بالاتفاق جائز ہے،
لیکن اگر جانبین سے شرط ہو تو یہ جوا ہے،
جو بالاتفاق ناجائز ہے،
اس طرح اگر دو گھوڑے دوڑانے والے،
اپنی اپنی طرف سے رقم مقرر کر لیں اور تیسرے گھوڑے کو جو آگے نکل جانے کا احتمال رکھتا ہو،
آگے یا پیچھے رہنا یقینی نہ ہو،
شریک کر لیں تو پھر بھی مالکیہ کے سوا باقی ائمہ کے نزدیک جائز ہے،
لیکن مالکیہ کے نزدیک اس صورت میں بھی جائز نہیں ہے،
(المغني،
ج 12،
ص 413)
۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4843
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2868
2868. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک کرائی تھی اور جو گھوڑے تیار شدہ نہیں تھے ان کی دوڑثنیہ الوداع سے مسجد بنو زریق تک کرائی تھی۔ حضرت ابن عمر ؓنے کہا: میں بھی گھڑ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والوں میں سے تھا۔ (راوی حدیث)حضرت سفیان کہتے ہیں کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کا فاصلہ پانچ یا چھ میل تھا اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنو زریق صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2868]
حدیث حاشیہ:
حفیاء اور ثنیۃ الوداع دونوں مقاموں کے نام ہیں‘ مدینہ سے باہر تیار کئے گئے یعنی ان کا اضمار کیا گیا۔
اضمار اس کو کہتے ہیں کہ پہلے گھوڑے کو خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جائے پھر اس کا دانہ چارہ کم کردیا جائے اور کوٹھڑی میں جھول ڈال کر بند رہنے دیں تاکہ پسینہ خوب کرے اور اس کا گوشت کم ہو جائے اور شرط میں دوڑنے کے لائق ہو جائے۔
گھوڑ دوڑ کے متعلق حافظ صاحب فرماتے ہیں:
وقد أجمع العلماء علی جواز المسابقة بغیر عوض لکن قصرھا مالك والشافعي علی الخف والحافر والنصل وخصه بعض العلماء بالخیل وأجازہ عطاء في کل شيئ الخ (فتح الباري)
یعنی علمائے اسلام نے دوڑ کرانے کے جواز پر اتفاق کیا ہے جس میں بطور شرط کوئی معاوضہ مقرر نہ کیا گیا ہو لیکن امام شافعی اور امام مالک نے اس دوڑ کو اونٹ اور گھوڑے اور تیر اندازی کے ساتھ خاص کیا ہے اور بعض علماء نے اسے صرف گھوڑے کے ساتھ خاص کیا ہے اور عطاء نے اس مسابقت کو ہر چیز میں جائز رکھا ہے۔
ایک روایت میں ہے لا سبقَ إلافی خف أو حافر أو نصل۔
یعنی آگے بڑھنے کی شرط تین چیزوں میں درست ہے‘ اونٹ اور گھوڑے اور تیر اندازی میں اور ایک روایت میں یوں ہے من أدخل فرسا بین فرسین فإن کان یؤمن أن یسبق فلا خبر فیه (لغات الحدیث) (حرف س‘ص: 30)
جس شخص نے ایک گھوڑا شرط کے دو گھوڑوں میں شریک کیا اگر اس کو یہ یقین ہے کہ یہ گھوڑا ان دونوں سے آگے بڑھ جائے گا تب تو بہتر نہیں اگر یہ یقین نہیں تو شرط جائز ہے۔
اس تیسرے شخص کو محلل کہتے ہیں یعنی شرط کو حلال کردینے والا مزید تفصیل کے لئے دیکھو (لغات الحدیث‘ حرف س ‘ صفحہ 30)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2868
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2869
2869. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنھیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور مقابلے کی حدثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنوزریق تک رکھی تھی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ حدیث میں: لفظ أَمَدُکے معنی حد اور انتہاکے ہیں۔ قرآن مجید میں ﴿فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ﴾ بھی اسی معنی میں ہے۔ یعنی ان پر وقت کی انتہا طویل ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2869]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
باب میں تو اضمار شدہ گھوڑوں کی شرط مذکور ہے اور حدیث میں ان گھوڑوں کا ذکر ہے جن کا اضمار نہیں ہوا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ حدیث کا ایک لفظ لا کر اس کے دوسرے لفظ کی طرف اشارہ کردیتے ہیں‘ اس حدیث میں دوسرا لفظ ہے کہ جن گھوڑوں کا اضمار ہوا تھا آپ نے ان کی شرط کرائی‘ حفیاء سے ثنیۃ تک جیسے اوپر گزرا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2869
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2870
2870. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنھیں تیار کیاگیا تھا۔ یہ دوڑ مقام حفیاء سےشروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی حد تھی۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے (اپنےاستاد) موسیٰ سے پوچھا کہ اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ توانھوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل۔ پھر آپ ﷺ نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جو تیار شدہ نہیں تھے۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور اس کی حد مسجد بنو زریق تھی۔ راوی نےپوچھا: اس میں کتنا فاصلہ تھا تو بتایا تقریباً ایک میل۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2870]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ اضمار شدہ گھوڑوں کی دوڑ کی حد چھ یا سات میل ہے جیسا کہ مقام حفیاء اور ثنیۃ الوداع کا فاصلہ ہے اور غیر اضمار شدہ کی حد تقریباً ایک میل جو ثنیۃ الوداع اور مسجد بنو زریق کی حد تھی۔
ایک متمدن حکومت کے لئے اس مشینی دور میں بھی گھوڑے کی بڑی اہمیت ہے۔
عربی نسل کے گھوڑے جو فوقیت رکھتے ہیں وہ محتاج تشریح نہیں۔
زمانۂ رسالت میں گھوڑوں کو سدھانے کے لیے یہ مقابلہ کی دوڑ ہوا کرتی تھی مگر آج کل ریس کی دوڑ جو آج عام طور پر شہروں میں کرائی جاتی ہے اور گھوڑوں پر بڑی بڑی رقوم بطور جوئے بازی کے لگائی جاتی ہیں یہ کھلا ہوا جوا ہے جو شرعاً قطعاً حرام ہے اور کسی پر مخفی نہیں۔
صد افسوس کہ عام مسلمانوں نے آج کل حلال و حرام کی تمیز ختم کردی ہے اور کتنے ہی مسلمان ان میں حصہ لیتے ہیں اور تباہ ہوتے ہیں۔
مختصر یہ کہ آج کل ریس کی گھوڑ دوڑ میں شرکت کرنا بالکل حرام ہے‘ اللہ ہر مسلمان کو اس تباہی سے بچائے۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2870
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7336
7336. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے گھوڑوں کی دوڑ کرائی۔ جو گھوڑے مقابلے کے لیے تیار کردہ تھے دوڑ کے لیے چھوڑا گیا تو ان کے دوڑنے کا میدان مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک تھا اور جو تیار شدہ نہ تھے ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے مسجد بنو زریق تک تھی۔ اور سیدنا عبداللہ ؓ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7336]
حدیث حاشیہ:
مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک کا میدان بھی تاریخی عظمت کا حامل ہے کیونکہ عہد رسالت میں یہاں جہاد کے لیے تیار کردہ گھوڑوں کی دوڑ ہوا کرتی تھی۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7336
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:420
420. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک، اور غیر تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوفاع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس دوڑ میں حصہ لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:420]
حدیث حاشیہ:
1۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم بخاری میں فرماتے ہیں کہ تمام مساجد درحقیقت اللہ کی ملکیت ہیں کسی اور کی نہیں اس لیے کوئی شخص وہم کر سکتا ہے کسی انسان کی طرف ان کی نسبت کرنا صحیح نہیں۔
مصنف نے اس وہم کو دور کرنے کی غرض سے اس بات کو ثابت کیا ہےکہ مسجد کی نسبت کسی شخص یا قبیلے کی طرف جائز ہے اور ایسا کسی تعلق کی بنا پر ہو سکتا ہے مثلاً بنانے والے یا متولی یا قرب و جوار کے رہنے والے کی طرف اس کی نسبت کر دی جائے۔
جیسا کہ حدیث میں بنو زریق کی طرف نسبت کی گئی ہے۔
2۔
امام ابن ابی شیبہ ؒ نے بیان کیا ہے۔
حضرت امام ابراہیم نخعی ؒ کسی مسجد کو غیر اللہ کی طرف منسوب کرنا ناپسند کرتے تھے، اس لیے کہ مسجدیں صرف اللہ کے لیے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
جمہور علماء بھی اس کی تائید کرتے ہیں اور ایسی مساجد میں جس نسبت کا بیان ہے، وہ تمیز کے لیے ہے، ملکیت بتانے کے لیے نہیں۔
(فتح الباري: 667/1)
3۔
اس زمانے میں گھوڑوں کو جہاد کے لیے اس طرح تیار کیا جاتا تھا کہ پہلے انھیں خوب کھلا پلا کر موٹا کیا جاتا، پھر انھیں بھوکا رکھا جاتا اور گھروں میں ان پر جھول ڈال دیے جاتے تاکہ پسینہ آنے کے بعد ان کی چربی پگھل کر جز و بدن بن جائے۔
یہ عمل چالیس دن کرنےسے گھوڑا تیز رو ہو جاتا اور اس کا سانس بھی بڑھ جاتا تھا، ان کی دوڑ کے لیے زیادہ فاصلہ رکھا گیا، جبکہ غیر تیار شدہ گھوڑوں کے مقابلے کے لیے فاصلہ کم رکھا گیا تھا۔
بنو زریق انصار مدینہ کے مشہور قبیلے خزورج کی ایک شاخ تھی۔
واضح رہے کہ دوڑ کا یہ مقابلہ جہادی مشقوں کا ایک حصہ تھا، اس کے برعکس موجودہ دور میں ریس کے، میدانوں میں جو دوڑ کرائی جاتی ہے جن کی ہار جیت کا سلسلہ جوئے بازی پر ہوتا ہے ایسی دوڑ میں شرکت کرنا مسلمان کے لیے جائز نہیں۔
اس حدیث سے متعلقہ دیگر مسائل کتاب الجهاد حدیث 2868 کے تحت بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 420
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2868
2868. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے تیار شدہ گھوڑوں کی دوڑ مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک کرائی تھی اور جو گھوڑے تیار شدہ نہیں تھے ان کی دوڑثنیہ الوداع سے مسجد بنو زریق تک کرائی تھی۔ حضرت ابن عمر ؓنے کہا: میں بھی گھڑ دوڑ کے مقابلے میں حصہ لینے والوں میں سے تھا۔ (راوی حدیث)حضرت سفیان کہتے ہیں کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کا فاصلہ پانچ یا چھ میل تھا اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنو زریق صرف ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2868]
حدیث حاشیہ:
1۔
گھوڑے کو سخت جان اور چالاک بنانے کو تضمیر کہا جا تا ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ اسے چند روز تک خوب کھلایا پلایا جائے۔
جب وہ موٹا تازہ ہو جائے تو اس کا دن بدن چارہ کم کر کے اسے دبلا پتلا کیا جائے۔
ایسا گھوڑا بہت پھر تیلا اور تیز دوڑنے والا ہوتا ہے جتنے وقت میں عام گھوڑا ایک میل سفر طے کرتا ہے تیار شدہ گھوڑا پانچ چھ میل سفر طے کر لیتا ہے۔
زمانہ جاہلیت میں لوگ ایسا کیا کرتے تھے۔
اسلام نے اسے برقراررکھا۔
2۔
جنگی مشقوں کے لیےگھوڑوں میں دوڑ لگانا جائز ہے البتہ اس میں شرط لگانا حرام ہے۔
ہمارے ہاں جو ریس کلب میں گھوڑ دوڑ ہوتی ہے اس میں جوا بھی ہوتا ہے۔
اس کا جہاد اور جنگی مشقوں سے کوئی تعلق نہیں لہٰذا ریس کی گھوڑدوڑ میں شرکت کرنا قطعاً حرام ہے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2868
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2869
2869. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنھیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور مقابلے کی حدثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنوزریق تک رکھی تھی۔ اور عبداللہ بن عمر ؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے گھوڑے دوڑائے تھے۔ ابو عبد اللہ (امام بخاری ؒ) نے کہا کہ حدیث میں: لفظ أَمَدُکے معنی حد اور انتہاکے ہیں۔ قرآن مجید میں ﴿فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ﴾ بھی اسی معنی میں ہے۔ یعنی ان پر وقت کی انتہا طویل ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2869]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ان گھوڑوں کی دوڑ کا ذکر ہے جو تیار شدہ نہیں تھے جبکہ عنوان اس کے برعکس ہے۔
یعنی اس میں تیارشدہ گھوڑوں کا ذکر ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ عنوان میں ایک لفظ لا کر حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں اگرچہ پیش کردہ حدیث میں وہ لفظ نہیں ہوتا۔
اگرچہ اس حدیث میں تیارشدہ گھوڑوں کا ذکر نہیں لیکن اس سے پہلے ایک حدیث میں ان کا ذکر تھا جس کی طرف امام بخاری ؒنے عنوان میں اشارہ کیا ہے ملاحظہ ہو۔
حدیث 2867۔
لہٰذا یہ حدیث عنوان کے خلاف نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2869
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2870
2870. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنھیں تیار کیاگیا تھا۔ یہ دوڑ مقام حفیاء سےشروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی حد تھی۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے (اپنےاستاد) موسیٰ سے پوچھا کہ اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ توانھوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل۔ پھر آپ ﷺ نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جو تیار شدہ نہیں تھے۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور اس کی حد مسجد بنو زریق تھی۔ راوی نےپوچھا: اس میں کتنا فاصلہ تھا تو بتایا تقریباً ایک میل۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2870]
حدیث حاشیہ: گھوڑ دوڑ کے مقابلے کے لیے چند چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جن کی تفصیل یہ ہے۔
تیار شدہ اور غیر تیار گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ الگ الگ ہونا چاہیے۔
اس دوڑ کے مقابلے کے لیے حد مقرر ہو جیسا کہ اس حدیث میں مذکورہے۔
یہ دوڑ عظیم جنگی مقاصد کے لیے ہو محض تفریح طبع مقصود نہیں ہونی چاہیے۔
یہ دوڑ سوار سمیت ہو اس کے بغیر گھوڑے کے بدکنےکا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس دوڑ پر دونوں طرف سے کوئی شرط وغیرہ طے نہ ہو بصورت دیگر یہ کھلا جوا ہو گا جو حرام ہے۔
واضح رہے کہ یہ مقابلہ گھوڑوں،اونٹوں، انسانوں، تیراندازی اور نیزہ بازی کا بھی ہو سکتا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2870
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7336
7336. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے گھوڑوں کی دوڑ کرائی۔ جو گھوڑے مقابلے کے لیے تیار کردہ تھے دوڑ کے لیے چھوڑا گیا تو ان کے دوڑنے کا میدان مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک تھا اور جو تیار شدہ نہ تھے ان کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے مسجد بنو زریق تک تھی۔ اور سیدنا عبداللہ ؓ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7336]
حدیث حاشیہ:
1۔
گھوڑوں کے تیار شدہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انھیں کچھ مدت کے لیے خوب چارہ کھلایا جاتا، پھر ان پر جل وغیرہ ڈال کر ان کا چارہ آہستہ آہستہ کم کیا جاتا تاکہ ان کا موٹا پن ختم ہوجائے اور ان میں مضبوطی اور چستی آ جائے۔
اس قسم کے گھوڑے بہت دوڑتے ہیں، اس لیے ان کے دوڑنے کی مسافت زیادہ رکھی جاتی اور غیر تیار شدہ گھوڑوں کی مسافت کم ہوتی تھی۔
2۔
(حَفيَاء)
ایک مقام ہے جو ثنیۃ الوداع سے پانچ چھ میل پر واقع ہے اور ثنیۃ الوداع ایک گھاٹی ہے جہاں تک لوگ اپنے مہمانوں کو الوداع کہنے کے لیے جاتے تھے۔
مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک کا میدان بھی تاریخی عظمت کا حامل ہے کیونکہ عہدرسالت میں وہاں گھوڑوں کی دوڑ کرائی جاتی تھی تاکہ وہ جہاد میں کام آئیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7336