● صحيح البخاري | 6795 | عبد الله بن عمر | قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● صحيح البخاري | 6798 | عبد الله بن عمر | قطع النبي يد سارق في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● صحيح البخاري | 6796 | عبد الله بن عمر | قطع النبي في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● صحيح البخاري | 6797 | عبد الله بن عمر | قطع النبي في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● صحيح مسلم | 4406 | عبد الله بن عمر | قطع سارقا في مجن قيمته ثلاثة دراهم |
● جامع الترمذي | 1446 | عبد الله بن عمر | في مجن قيمته ثلاثة دراهم |
● سنن أبي داود | 4386 | عبد الله بن عمر | قطع يد رجل سرق ترسا من صفة النساء ثمنه ثلاثة دراهم |
● سنن أبي داود | 4385 | عبد الله بن عمر | قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4911 | عبد الله بن عمر | قطع رسول الله في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4912 | عبد الله بن عمر | قطع في مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4913 | عبد الله بن عمر | قطع يد سارق سرق ترسا من صفة النساء ثمنه ثلاثة دراهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4915 | عبد الله بن عمر | قطع في مجن قيمته ثلاثة دراهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4911 | عبد الله بن عمر | قطع رسول الله في مجن قيمته خمسة دراهم |
● سنن ابن ماجه | 2584 | عبد الله بن عمر | قطع النبي في مجن قيمته ثلاثة دراهم |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 528 | عبد الله بن عمر | قطع سارقا فى مجن ثمنه ثلاثة دراهم |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 528
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6795، ومسلم 6/1686، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ تین درہم (ربع دینار) سے کم چوری میں چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا جس نے ایک دینار یا دس درہم کی چوری کی تھی۔ دیکھئے [سنن ابي داود 4387]
اس روایت کی سند محمد بن اسحاق بن یسار مدلس کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لاقطع فى ثمر ولا كثر] پھل اور گابھے چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ [مسند الحميدي بتحقيق: 408، وسنده صحيح، ورواه الترمذي: 1449، وغيره و صحيحه ابن حبان: 4449يا 4466، وابن الجاردد: 826]
محدث ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ الیشکری رحمہ اللہ نے فرمایا: میں ابوحنیفہ کے پاس موجود تھا کہ ایک آدمی نے سوال پوچھا: ایک آدمی نے کھجوریں چرائی ہیں۔ ابوحنیفہ نے فرمایا: اس کا ہاتھ کٹنا چاہئے۔ میں نے اس آدمی سے کہا: یہ بات نہ لکھو، یہ عالم کی غلطی ہے۔ انہوں نے پوچھا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھل اور گابھے چرانے والے کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ (امام) ابوحنیفہ نے اس آدمی سے فرمایا: میرے فتوے کو کاٹ دو اور لکھو: ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ [كتاب السنة لعبدالله بن أحمد بن حنبل: 380 وسنده صحيح،]
معلوم ہوا کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ صحیح حدیث کے قائل وفاعل تھے اور اس کے ساتھ قرآن مجید کی تخصیص کے بھی قائل تھے۔ حق کی طرف رجوع کرنا، اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 246
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4911
´مال کی وہ مقدار جس کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (چرانے) میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہی روایت صحیح اور درست ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4911]
اردو حاشہ:
(1) کتنی مالیت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا؟ مذکورہ باب کے تحت بیا ن کی گئی پہلی روایت (4910) میں ڈھال کی قیمت پانچ درہم بیان کی گئی ہے یہ قطعا درست نہیں یہ راوی کا وہم اور اس کی غلطی ہے۔ دیگر صحیح روایات میں ڈھال کی قیمت تین درہم بیان کی گئی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے۔ پانچ درہم والی روایت شاذ (ضعیف) ہے کیونکہ اس کے راوی مخلد نے اپنے سے اوثق واحفظ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے یہ روایت بیان کی تو قیمت تین درہم بیان کی ہے جبکہ یہ پانچ درہم بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ ڈھال کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ ایک ہی روایت کی دو سندیں ہیں لہٰذا ایک کو راوی کی غلطی کہا جائے گا۔ ویسے اگر دونوں روایات صحیح ہوں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ تین درہم یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز سو درہم کی ہو تو اس میں بھی کاٹا جائے گا، اگر لاکھ درہم کی ہو تب بھی لہذا پانچ درہم میں ہاتھ کاٹنے سے تین درہم میں ہاتھ کاٹنے کی نفی نہیں ہوتی۔ البتہ تین درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا کہیں ذکر نہیں، لہذا تین درہم اور ربع دینار میں کوئی فرق نہیں۔ نبی ﷺ کے دور میں دینار دس، بارہ درہم کا ہوتا تھا۔ بارہ کا چوتھائی تو تین ہی ہے۔ دس کا ربع بھی تین دینار ہی کو کہا جائے گا کیونکہ شریعت کسر پر حکم نہیں لگاتی بلکہ اسے پورا کر دیتی ہے، یعنی ڈھائی درہم کی بجائے تین درہم پر قطع ید کا حکم لگے گا۔ تین درہم اور ربع دینار کی روایات قطعا صحیح اور بخاری ومسلم کی ہیں، اس لیے انہی پر عمل ہوگا۔ احناف نے بعض ضعیف روایات کی بنا پر نصاب مسروقہ دس درہم مقرر کیا ہے۔ یہ بات سراسر اصول کے خلاف ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو ترجیح دی جائے۔ اگرچہ احناف نے اسے احتیاط قرار دیا ہے مگر یہ عجیب احتیاط ہے جس سے شریعت کا صحیح اور صریح حکم کالعدم ہو جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4911
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4911
´مال کی وہ مقدار جس کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (چرانے) میں ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہی روایت صحیح اور درست ہے۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4911]
اردو حاشہ:
(1) کتنی مالیت کی چیز چرانے پر ہاتھ کاٹا جائے گا؟ مذکورہ باب کے تحت بیا ن کی گئی پہلی روایت (4910) میں ڈھال کی قیمت پانچ درہم بیان کی گئی ہے یہ قطعا درست نہیں یہ راوی کا وہم اور اس کی غلطی ہے۔ دیگر صحیح روایات میں ڈھال کی قیمت تین درہم بیان کی گئی ہے جیسا کہ آئندہ روایت میں ہے۔ پانچ درہم والی روایت شاذ (ضعیف) ہے کیونکہ اس کے راوی مخلد نے اپنے سے اوثق واحفظ راویوں کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے حضرت نافع رحمہ اللہ سے یہ روایت بیان کی تو قیمت تین درہم بیان کی ہے جبکہ یہ پانچ درہم بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ ڈھال کی قیمت مختلف ہو سکتی ہے مگر چونکہ یہ ایک ہی روایت کی دو سندیں ہیں لہٰذا ایک کو راوی کی غلطی کہا جائے گا۔ ویسے اگر دونوں روایات صحیح ہوں تب بھی کوئی فرق نہ پڑتا کیونکہ تین درہم یا اس سے زائد میں ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ اگر کوئی چیز سو درہم کی ہو تو اس میں بھی کاٹا جائے گا، اگر لاکھ درہم کی ہو تب بھی لہذا پانچ درہم میں ہاتھ کاٹنے سے تین درہم میں ہاتھ کاٹنے کی نفی نہیں ہوتی۔ البتہ تین درہم سے کم میں ہاتھ کاٹنے کا کہیں ذکر نہیں، لہذا تین درہم اور ربع دینار میں کوئی فرق نہیں۔ نبی ﷺ کے دور میں دینار دس، بارہ درہم کا ہوتا تھا۔ بارہ کا چوتھائی تو تین ہی ہے۔ دس کا ربع بھی تین دینار ہی کو کہا جائے گا کیونکہ شریعت کسر پر حکم نہیں لگاتی بلکہ اسے پورا کر دیتی ہے، یعنی ڈھائی درہم کی بجائے تین درہم پر قطع ید کا حکم لگے گا۔ تین درہم اور ربع دینار کی روایات قطعا صحیح اور بخاری ومسلم کی ہیں، اس لیے انہی پر عمل ہوگا۔ احناف نے بعض ضعیف روایات کی بنا پر نصاب مسروقہ دس درہم مقرر کیا ہے۔ یہ بات سراسر اصول کے خلاف ہے کہ صحیح احادیث کے مقابلے میں ضعیف روایت کو ترجیح دی جائے۔ اگرچہ احناف نے اسے احتیاط قرار دیا ہے مگر یہ عجیب احتیاط ہے جس سے شریعت کا صحیح اور صریح حکم کالعدم ہو جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4911
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4913
´مال کی وہ مقدار جس کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا ہاتھ کاٹا جس نے عورتوں کے چبوترے سے ایک ڈھال چرائی، جس کی قیمت تین درہم تھی۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4913]
اردو حاشہ:
”عورتوں والے چھپر سے“ مسجد نبوی میں عورتوں کے لیے ایک سایہ دار جگہ بنا دی گئی تھی، اسے صفۃ النساء (عورتوں کا چھپر) کہا جاتا تھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4913
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4915
´مال کی وہ مقدار جس کی چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال (چرانے) پر ہاتھ کاٹا۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں: یہ غلط ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب قطع السارق/حدیث: 4915]
اردو حاشہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ ہشام دستوائی نے قتادہ سے انہوں نے حضرت انسؓ سے جو مرفوعا بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ڈھال چرانے پر ہاتھ کاٹا تھا، یہ روایت مرفوعا بیان کرنا درست نہیں بلکہ درست یہ ہے کہ یہ روایت موقوف، یعنی حضرت ابوبکر صدیقؓ کا فعل ہے۔ امام حدیث شعبہ ؓ نے قتادہ ؓ سے انہوں نے انسؓ سے موقوفا ہی بیان کیا ہے جیسا کہ اگلی روایت (4916) میں صراحت ہے اور اس موقوف روایت کو امام نسائی رحمہ اللہ نے صحیح اور درست قرار دیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4915
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4386
´چور کا ہاتھ کتنے مال کی چوری میں کاٹا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے لوگوں سے بیان کیا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ہاتھ کاٹا جس نے عورتوں کے چبوترہ سے ایک ڈھال چرائی تھی جس کی قیمت تین درہم تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4386]
فوائد ومسائل:
تین درہم ان دنوں ایک دینار کے چوتھائی ہی کے برابرتھے جیسےکہ درج ذیل روایت میں آرہا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4386
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1446
´کتنے مال کی چوری میں چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم ۱؎ تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1446]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آج کے وزن کے اعتبار سے ایک درہم (چاندی) تقریبا تین گرام کے برابر ہے،
معلوم ہوا کہ چوتھائی دینار (سونا):
یعنی تین درہم (چاندی) یا اس سے زیادہ کی مالیت کا سامان اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اس کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1446
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6795
6795. حضرت عبدااللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک ڈھال کے چوری کرنے پر ہاتھ کاٹا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ محمد بن اسحاق نے مالک بن انس کی متابعت کی ہے اور لیث نے نافع سے ثمنه کی جگہ قیمته کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6795]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ کم از کم بارہ آنہ کی مالیت کی چیز پر ہاتھ کاٹا جائے گا اور ایسے امور امام وقت یا اسلامی عدالت کے مقدمہ کی پوزیشن سمجھنے پر موقوف ہیں۔
واللہ أعلم بالصواب۔
(بارہ آنہ مولانا موصوف شائد اپنے وقت کے حساب سے کہتے ہیں جب سکے چاندی کے ہوتے تھے۔
اب روپے کے حساب سے یہ مقدار نہیں ہے، تونسوی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6795
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6798
6798. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے ایک اورمزید روایت ہے ہے انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک چور کا ہاتھ ایک ڈھال چوری کرنے پر کاٹا تھا جس کی قیمت تین درہم تھی۔ محمد بن اسحاق نے نافع سے روایت کرنے میں موسیٰ بن عقبہ کی متابعت کی ہے۔ لیث نے کہا: مجھ سے نافع نے ثمنه کے بجائے قِیمتُه کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6798]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک دینار، بارہ درہم کے برابر تھا، چنانچہ سنن بیہقی میں اس کی وضاحت ہے کہ ربع دیناران دنوں تین درہم کے مساوی ہوتا تھا اور دینار، بارہ درہم کے برابر تھا۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 255/8)
غالباً اس لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے چاندی والوں پر دیت کی مقدار بارہ ہزار درہم اور سونے والوں پر ایک ہزار دینار مقرر کی تھی۔
(السنن الکبریٰ للبیھقی: 8/256) (2)
درہم، چاندی کا ڈھلا ہوا ایک ایسا سکہ ہے جسے عرب لین دین کے معاملات میں استعمال کرتے تھے۔
اس کی جمع دراہم ہے۔
ایک درہم تین ماشے اور 1 1/5رتی کے برابر ہوتا ہے۔
ہمارے برصغیر میں دو سو درہم تقریباً ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہیں، چنانچہ ہم جب ساڑھے باون تولے کو دوسو درہم پر تقسیم کرتے ہیں تو ایک درہم کا وزن 21/80 بنتا ہے جو تین ماشے اور1 1/5 رتی کے برابر ہے۔
اعشاری نظام کے مطابق 3.061 گرام ہے۔
چوری کا نصاب تین درہم ہے۔
جب اسے تین ماشے اور 1 1/5 سے ضرب دی تو نو ماشے 3 3/5 رتی وزن بنتا ہے۔
(3)
اب چونکہ چاندی کی قیمت سونے کے مقابلے میں بہت گر چکی ہے، لہٰذا ہم چوری کے نصاب میں سونے کی قیمت کا اعتبار کریں گے، البتہ زکاۃ دیتے وقت چاندی کا نصاب پیش نظر رکھنا ہوگا، یعنی اگر ہمارے پاس اتنی کرنسی ہوکہ اس کے ساڑھے باون تولے چاندی خریدی جا سکے تو اس کرنسی پر زکاۃ دینی ہوگی۔
اس میں غرباء اور مساکین کا فائدہ ہے۔
لیکن چوری کے نصاب میں سونے کی قیمت کو سامنے رکھا جائے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6798