258- وبه من رواية عيسى: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون واحد.“ كمل حديث نافع عن ابن عمر، وذلك اربعة وستون حديثا، وتقدم له حديث ”لا ينظر الله يوم القيامة“ فى باب زيد بن اسلم.258- وبه من رواية عيسى: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان ثلاثة فلا يتناجى اثنان دون واحد.“ كمل حديث نافع عن ابن عمر، وذلك أربعة وستون حديثا، وتقدم له حديث ”لا ينظر الله يوم القيامة“ فى باب زيد بن أسلم.
اور (ابوموسیٰ) عیسٰی (بن مسکین: راوی کتاب) کی روایت سے اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین آدمی ہوں تو تیسرے کو چھوڑ کر، دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں“۔ نافع کی ابن عمر سے روایتیں مکمل ہو گئیں اور یہ چونسٹھ (۶۴) حدیثیں ہیں اور ایک حدیث «لا ينظر الله يوم القيامة» زید بن اسلم کے باب میں گزر چکی ہے۔ [ديكهئے حديث سابق: ۱۶۵]
(अबु मूसा) ईसा (बिन मस्कीन: किताब के रावी) की रिवायत से इसी सनद के साथ (हज़रत इब्न उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से) रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “जब तीन आदमी हों तो तीसरे को छोड़ कर, दो आदमी आपस में कानाफूसी न करें”। नाफ़अ की इब्न उमर से रिवायतें पूरी हो गईं और ये चौंसठ (64) हदीसें हैं और एक हदीस « لا ينظر الله يوم القيامة » ज़ैद बिन असलम के बॉब में गुज़र चुकी है। [देखिये पिछली हदीस: 165]
تخریج الحدیث: «258- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 989/2 ح 1923، ك 56 ب 6 ح 14) التمهيد 287/15، الاستذكار:1859، أخرجه البخاري (6288) و مسلم (2183) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 465
[وأخرجه البخاري 6288، ومسلم 2183، من حديث مالك به] تفقه: ➊ دو آدمیوں کا آپس میں دوسروں سے خفیہ راز دارانہ باتیں کرنا تناجی اور نجویٰ کہلاتا ہے۔ ➋ اگر مجلس میں کل تین آدمی ہوں تو دو آدمیوں کا بلا اجازت ایسی زبان میں باتیں کرنا ممنوع ہے جسے تیسرا آدمی نہیں سمجھتا۔ ➌ دینِ اسلام کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں میں ہمیشہ اتفاق و اتحاد رہے اور آپس میں کسی قسم کی غلط فہمی یا سوئے ظن نہ ہو۔ ➍ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کی عزت نفس کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہئے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 258
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3776
´اگر تین آدمی ہوں تو ان میں سے دو آدمی کانا پھوسی نہ کریں۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ اگر تین آدمی موجود ہوں تو تیسرے کو اکیلا چھوڑ کر دو آدمی باہم سرگوشی کریں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3776]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی ہر حرکت سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(2) جب تین آدمیوں میں سے دو الگ ہو کر بات کریں گے تو تیسرا محسوس کرے گا کہ انہوں نے مجھے اس لائق نہیں سمجھا کہ بات چیت میں شریک کریں، علاوہ ازیں شیطان کے وسوسے سے یہ خیال بھی آسکتا ہے کہ شاید یہ دونوں میرے خلاف کوئی مشورہ کر رہے ہیں۔
(3) ایسے عمل سے پر ہیز کرنا چا ہیے جس کے نتیجے میں بدگمانی پیدا ہونے کا اندیشہ ہو۔
(4) جب تین آدمی ہوں تو دو آدمیوں کو آپس میں ایسی زبان میں گفتگو نہیں کرنی چاہیے جسے تیسرا سمجھ نہ سکے۔
(5) اگر مجلس میں زیادہ افراد موجود ہوں تو دو آدمی الگ ہو کر بات چیت کر سکتے ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3776
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5694
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو ایک کو چھوڑ کر دو باہمی سرگوشی نہ کریں۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5694]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو تمام ایسے کاموں سے منع فرمایا ہے، جو باہمی بدگمانی اور بدظنی کا باعث بنتے ہوں، یا ان سے باہمی حسد و بغض اور نفرت پیدا ہوتی ہے اس لیے ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانے سے روک دیا ہے، اگر ایک آدمی کو چھوڑ کر دو یا چند آدمی باہمی کانا پھوسی کریں تو یہ چیز اس کے لیے رنج اور تکلیف کا باعث بن سکتی ہے کہ انہیں مجھ پر اعتماد نہیں ہے، یا یہ میرے خلاف کوئی سازش کرنا چاہتے ہیں، یا میرے خلاف گفتگو کر رہے ہیں، ہاں اگر دو آدمی بیٹھ کر گفتگو کر رہے ہوں اور تیسرا ان سے دور بیٹھا ہو تو پھر اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان کے قریب آ کر ان کی گفتگو سننے کی کوشش کرے اور بلاوجہ یہ تجسس کرے کہ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں، اگر وہ خود ان کو شریک کر لیں یا وہ خود ان سے علیحدہ ہو جائے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5694
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6288
6288. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تین شخص ہوں تو تیسرے سے علیحدہ ہو کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6288]
حدیث حاشیہ: دوسری روایت کسی کی صحبت میں بیٹھے تو وہ امانت کی باتیں اپنے دل میں رکھے اور افشاء نہ کرے کہ ان سے اس بھائی کو دکھ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6288
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6288
6288. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تین شخص ہوں تو تیسرے سے علیحدہ ہو کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6288]
حدیث حاشیہ: ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: ”یہ سرگوشی تیسرے کو غمناک کرتی ہے۔ “(صحیح البخاري، الاستئذان، حدیث: 6290) اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تین شخص ہوں، ان میں سے دو علیحدہ جا کر خفیہ بات کریں تو تیسرے کو یہ فکر لاحق ہوگا کہ وہ اس کے خلاف کوئی سازش ترتیب دے رہے ہیں، اس لیے وہ خواہ مخواہ پریشان اور غمناک ہوگا اور اگر زیادہ لوگ ہوں تو کوئی حرج نہیں جیسا کہ آئندہ اس کی وضاحت ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6288