● صحيح البخاري | 1504 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين |
● صحيح البخاري | 1512 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك |
● صحيح البخاري | 1511 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير فعدل الناس به نصف صاع من بر |
● صحيح البخاري | 1507 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● صحيح البخاري | 1503 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة |
● صحيح مسلم | 2278 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين |
● صحيح مسلم | 2280 | عبد الله بن عمر | صدقة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● صحيح مسلم | 2282 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر أو عبد أو رجل أو امرأة صغير أو كبير صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● سنن دارمی | 1699 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر من رمضان صاعا من تمر او صاعا، من شعير على كل حر وعبد |
● صحيح مسلم | 2281 | عبد الله بن عمر | أمر بزكاة الفطر صاع من تمر أو صاع من شعير |
● جامع الترمذي | 675 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● جامع الترمذي | 676 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر من رمضان صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين |
● سنن أبي داود | 1611 | عبد الله بن عمر | صاع من تمر أو صاع من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين |
● سنن أبي داود | 1614 | عبد الله بن عمر | صاعا من شعير أو تمر أو سلت أو زبيب |
● سنن أبي داود | 1613 | عبد الله بن عمر | صاعا من شعير أو تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك |
● سنن ابن ماجه | 1826 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين |
● سنن ابن ماجه | 1825 | عبد الله بن عمر | أمر بزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● سنن النسائى الصغرى | 2502 | عبد الله بن عمر | زكاة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير فعدل الناس به نصف صاع من بر |
● سنن النسائى الصغرى | 2503 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير قال فعدل الناس إلى نصف صاع من بر |
● سنن النسائى الصغرى | 2504 | عبد الله بن عمر | زكاة رمضان على كل صغير وكبير حر وعبد ذكر وأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● سنن النسائى الصغرى | 2505 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين |
● سنن النسائى الصغرى | 2506 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على الحر والعبد والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة |
● سنن النسائى الصغرى | 2507 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر على الصغير والكبير والذكر والأنثى والحر والعبد صاعا من تمر أو صاعا من شعير |
● سنن النسائى الصغرى | 2518 | عبد الله بن عمر | صاعا من شعير أو تمر أو سلت أو زبيب |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 279 | عبد الله بن عمر | فرض زكاة الفطر فى رمضان على الناس، صاعا من تمر، او صاعا من شعير، على كل حر او عبد، ذكر او انثى من المسلمين |
● بلوغ المرام | 505 | عبد الله بن عمر | زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير والكبير من المسلمين وامر بها |
● مسندالحميدي | 718 | عبد الله بن عمر | صدقة الفطر صاع من شعير، أو صاع من تمر |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 279
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1504، ومسلم 984، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ یہ صدقہ فطر مسلمانوں پر فرض ہے۔ دیکھئے: [ح211]
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔۔۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم: 985 2284]
◈ معلوم ہوا کہ درج بالا حدیث مرفوع ہے۔
➌ صاع کے وزان کے بارے میں اختلاف ہے - راجح یہی ہے کہ ڈھائی کلووزن کے مطابق صاع نکالا جائے تاکہ آدمی کسی شک میں نہ رہے۔
➍ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے گندم کا آدھا صاع ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پورا صاع ثابت ہے لہٰذا راجح یہی ہے کہ پورا صاع ادا کیا جائے۔
➎ بہتر اور افضل یہی ہے کہ گندم، جو، کھجور اور انگور وغیرہ پھلوں، غلے اور کھانے سے صاع نکالا جائے لیکن اگر مجبوری یا کوئی شرعی عذر ہو تو صاع کی مروجہ رقم سے ادائیگی بھی جائز ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف حکم لکھ کر بھیجا تھا کہ اہلِ دیوان کے عطیات میں سے ہر انسان کے بدلے آدھا درہم لیا جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3/174 ح10368، وسنده صحيح]
◈ ابواسحاق السبیعی فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں طعام (کھانے) کے بدلے دراہم دیتے ہوئے پایا ہے۔ [ابن ابئ شيبه ح 10371، و سنده صحيح]
➏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقۂ فطر صرف کھجور میں سے دیتے تھے سوائے ایک دفعہ کے (جب کھجوریں نہ ملیں تو) آپ نے جَو دیئے۔ [الموطأ 1/284 ح635، وسنده صحيح]
➐ صدقہ فطر صرف مساکین کا حق ہے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1609، وسنده حسن]
◈ لہٰذا اسے آٹھ قسم کے مستحقینِ زکوٰۃ میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد [2/22] اور ”عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد“ [ص212]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 211
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 505
´صدقہ فطر کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب پر صدقہ فطر واجب کیا ہے۔ ایک صاع (ٹوپا) کھجوروں سے یا ایک صاع جو سے اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ یہ فطرانہ نماز کیلئے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) ابن عدی اور دارقطنی میں ضعیف سند سے ہے کہ اس روز غرباء کو در بدر پھرنے سے بے نیاز کر دو۔ [بلوغ المرام/حدیث: 505]
لغوی تشریح:
بَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ رمضان کے اختتام پر فطرانہ دینا۔ امام قسطلانی رحمہ الله کے بقول فطرانے کی فرضیت رمضان المبارک میں عید سے صرف دو روز پہلے دو ہجری میں ہوئی۔ ٘فَرَضَ اسے واجب اور لازم قرار دیا گیا۔ یہ صدقۂ فطر (فطرانے) کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فَرَضَ قَدَرَ کے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔
مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یعنی کافروں میں سے نہ ہو، اس لیے کافر غلام کا صدقۂ فطر نہیں نکالا جاتا۔
أُغْنُوھُمْ إغناء سے امر کا صیغہ ہے۔ ضمیر جمع جو مفعول ہونے کی وجہ سے نصبی حالت میں ہے، فقراء کی طرف راجع ہے، یعنی ھم ضمیر سے مراد محتاج اور ضرورت مند لوگ ہیں۔
عَنِ الطَّوَافِ دست دراز سوال کرنے کے لیے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومنے پھرنے سے بے نیاز کر دیں اور لوگوں کے سامنے اپنی معاشی ضروریات طلب کرنے کے لیے ہاتھ پھیلانے سے روک دیں۔ یہ بے نیازی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ فطرانہ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔
فوائد و مسائل 505: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فطرانہ مسلمانوں کے تمام افراد پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورتمند افراد اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانے کی مقدار ایک صاع مقرر فرمائی ہے۔
➌ صدقۂ فطر میں نقدی ادا کرنے کا مؤقف بعض علماے کرام نے اپنایا ہے لیکن فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اسوۂ حسنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر میں وہ جنس ادا کرنی چاہیے جو اہل خانہ کی عمومی غذا ہو، مثلاً: گندم، چاول اور کھجور وغیرہ۔
➍ غیرمسلم غلام کا فطرانہ نہیں، البتہ جن افراد کی کفالت کسی کے ذمہ ہو ان سب کا فطرانہ وہ خود ادا کرے گا۔
➎ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقۂ فطرکے لیے نصاب کا مالک ہونا بھی ضروری نہیں۔
➏ فرض کا لفظ بتارہا ہے کہ فطرانہ ادا کرنا نہایت ضروری اور لازمی ہے۔ امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ الله نے تو فطرانے کے وجوب پر اجماع کا دعوٰی کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 505
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1611
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع فرض کیا ہے، جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام پر، مرد اور عورت پر (فرض) ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1611]
1611. اردو حاشیہ:
➊ جناب عبد اللہ بن مسلمہ کی یہ حدیث امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے د و طرح سے حاصل ہوئی ہے۔ایک بطور تحدیث کے امام صاحب نے طلبہ کی جماعت میں بیان فرمائی یا ان پر پڑھی گئی۔اوردوسرے خاص عبد اللہ بن مسلمہ کو پڑھ کر سنائی۔اور اس دوسری صورت میں (من رمضان) کی صراحت بھی کی۔
➋ (صاع) غلہ نا پنے کا برتن ہوتا ہے۔جس میں چار مد ہوتے ہیں۔اور ایک مد متوسط ہاتھوں والے انسان کے دونوں ہاتھ ملا کر بھرنے کی مقدار کو کہتے ہیں۔اور اس سلسلے میں معیا ر اہل مدینہ کا ہی ناپ ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے <حدیث>۔(الوزن وزن اهل مكة والميكال ميكال اهل المدينه)(سنن ابی دائود۔البیوع حدیث 3340) یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔اور کیل(کسی چیز کا بھر کر ماپ)اہل مدینہ کا اور یہ گزر چکا ہے کہ گند م کا ایک صاع کم وبیش ڈھائی کلو کے برابر ہوتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1611
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1614
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ صدقہ فطر میں ایک صاع جو یا کھجور یا بغیر چھلکے کا جو، یا انگور نکالتے تھے، جب عمر رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور گیہوں بہت زیادہ آنے لگا تو انہوں نے ان تمام چیزوں کے بدلے گیہوں کا آدھا صاع (صدقہ فطر) مقرر کیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1614]
1614. اردو حاشیہ: علامہ منذری نے اس حدیث کے راوی عبد لعزیز بن ابی رو اد کو ضعیف لکھا ہے۔نیز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زکر اس روایت میں وہم ہے۔صحیح یہ ہے کہ وہ معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔(علامہ البانیرحمۃ اللہ علیہ)تاہم صحابہ کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابن الزبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی والدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے گندم کا آدھا صاع دینا ثابت ہے۔ لیکن اس اختیار پر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ثابت نہیں۔بلکہ اختلاف رہا ہے اس لئے ااسے حجت نہیں بنایا جاسکتا۔(الروضۃ الندیہ)جیسے کہ مندرجہ زیل دو احادیث میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عمل کا زکر آرہا ہے لہذا صحیح اور راحج یہی ہے کہ ایک صاع دیا جائے گندم ہویا کچھ اور۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1614
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2502
´رمضان کی زکاۃ (یعنی صدقہ فطر) کی فرضیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد، غلام، مرد اور عورت ہر ایک پر رمضان کی زکاۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کی ہے، پھر اس کے برابر لوگوں نے نصف صاع گیہوں کو قرار دے لیا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2502]
اردو حاشہ:
(1) اس صدقے کو زکاۃ رمضان اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ رمضان المبارک کے روزوں کی وجہ سے واجب ہوتا ہے اور صدقۃ الفطر، اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی ادائیگی افطار، یعنی رمضان المبارک کے اختتام پر واجب ہوتی ہے، جیسے اس عید کو عید الفطر کہتے ہیں۔
(2) غلام پر بھی صدقۃ الفطر واجب ہے، البتہ غلام کی طرف سے ادائیگی اس کا مالک کرے گا بشرطیکہ مالک مسلمان ہو۔ اگر مالک ادا نہیں کرتا اور غلام استطاعت رکھتا ہے تو وہ خود ادا کر دے گا۔ اگر مالک کافر ہے اور غلام استطاعت نہیں رکھتا تو پھر اسے معاف ہے کیونکہ ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾
(3) ”کھجور اور جو کا ایک صاع۔“ اس دور میں عرب میں عام خوراک یہی دو چیزیں تھیں، لہٰذا ان میں ایک صاع مقرر فرما دیا۔ گندم کا عام رواج نہ تھا، بعد میں رفاہیت کا دور آیا تو لوگوں نے عموماً گندم کھانی شروع کر دی لیکن گندم کھجور اور جو کی نسبت بہت مہنگی تھی، اس لیے قیمت کا حساب لگاتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو کھجور اور جو کے ایک صاع کے برابر قرار دیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے گنجائش تھی اور اسے گنجائش ہی سمجھنا چاہیے کیونکہ فی زمانہ ہمارے ہاں گندم کھجور سے کافی سستی ہے، اس لیے اب اس کا ایک صاع نکالنا ہی افضل ہے اور یہ حکمت کے عین موافق بھی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2502
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2503
´غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر کی فرضیت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ہر مرد و عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے، پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر ٹھہرا لیا۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2503]
اردو حاشہ:
(1) صدقۃ الفطر ہر امیر اور غریب پر واجب ہے، جو خود فقیر ونادار ہے وہ اگرچہ لینے کا مستحق ہے لیکن اس کے پاس جو صدقۃ الفطر جمع ہو جائے اس میں سے اپنا صدقہ نکالے، نیز اس کے وجوب کے لیے روزے رکھنا شرط نہیں۔ اگر کسی نے شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھے ہوں تو صدقۃ الفطر اس پر بھی واجب ہے حتیٰ کہ نومولود بچے پر بھی اور کھوسٹ بوڑھے پر بھی، مریض پر بھی اور مسافر پر بھی۔
(2) ایک صاع 2 کلو 100 گرام ہے جسے تقریباً اڑھائی کلو کہتے ہیں۔ تفصیل ان شاء اللہ آگے (حدیث: 2515 کے) فوائد میں آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2503
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2505
´صدقہ فطر کافر ذمی پر فرض نہ ہونے اور مسلمانوں پر فرض ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر مسلمان لوگوں پر ہر آزاد، غلام مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض ٹھہرایا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2505]
اردو حاشہ:
(1) صدقہ فطر ایک عبادت ہے۔ روزوں کی بنا پر واجب ہوتا ہے۔ ادائیگی عید الفطر سے پہلے کی جاتی ہے۔ یہ سب چیزیں مسلمانوں کے ساتھ خاص ہیں، لہٰذا مسلمان ہی پر واجب ہوگا، کسی کافر پر واجب نہ ہوگا۔ من المسلمین کے الفاظ اس کی واضح دلیل ہیں۔ مگر احناف کے نزدیک کافر غلام پر بھی واجب ہے۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے: [ليسَ في العَبْدِ صَدَقَةٌ إلّا صَدَقَةُ الفِطْرِ] ”مسلمان پر اس کے غلام میں صرف صدقہ فطر ہی واجب ہے۔“ (صحیح مسلم، الزکا ة، حدیث: 10982) حدیث میں ”عبد“ عام ہے، خواہ مسلم ہو یا کافر، لیکن یہ حدیث عام ہے اس کا مفہوم دوسری صریح حدیث کی روشنی میں متعین ہوگا اور وہ یہی مذکورہ بالا حدیث ہے جس میں یہ وضاحت ہے کہ جن کی طرف سے نکالا جائے وہ مسلم ہو، اور زیر بحث حدیث خاص بھی ہے، اصول ہے کہ عام کو خاص پر محمول کیا جاتا ہے، اس طرح دونوں احادیث کا مفہوم برقرار رہتا ہے اور ان میں تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا۔ امام طحاوی اس مذکورہ بالا حدیث کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق مخرجین، یعنی صدقہ نکالنے والوں کے ساتھ ہے، نہ کہ ان سے جن کی طرف سے صدقہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ تاویل بلا دلیل اور دیگر دلائل وروایات کی روشنی میں بے معنیٰ ہے، اس لیے کہ اس حدیث میں غلام کا اور ایک دوسری صحیح حدیث میں بچے کا بھی ذکر آتا ہے کیا یہ بھی مخرجین میں شمار ہوتے ہیں، نیز صحیح مسلم کی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ من المسلمین کی شرط کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کی طرف سے صدقہ فطر نکالا جائے گا۔ [عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، حُرٍّ اَوْ عَبْدٍ…] ”مسلمانوں کے ہر فرد پر (فرض کیا ہے) خواہ وہ آزاد ہو یا غلام۔“ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 984/ 16) جب کافر وجوب کا اہل ہی نہیں تو اس کی طرف سے ادائیگی کیسی؟
(2) ہر مسلمان کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ فقیر اور محتاج بھی صدقہ فطر ادا کرے گا۔
(3) ”رمضان کی زکاۃ۔“ ایک دوسری روایت میں رسول اللہﷺ نے صدقۃ الفطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں: [طُھْرَۃً لِلصِّیَامِ… وَطُعْمَۃً لِلْمَسَاکِیْن] (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1609) یعنی یہ ادا شدہ روزوں کو پاکیزہ بنائے گا اور یاوہ گوئی کی آلودگی سے روزے کو صاف کرے گا، نیز مساکین کے لیے کھانے کا انتظام ہو جائے گا، اس لیے صدقۃ الفطر کو روزوں یا رمضان کی زکاۃ کہنا مناسب ہے۔ یہاں زکاۃ کے معنیٰ پاکیزگی ہیں۔ (باقی مباحث کے لیے دیکھیے، حدیث: 2510)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2505
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2506
´صدقہ فطر کافر ذمی پر فرض نہ ہونے اور مسلمانوں پر فرض ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ فطر مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام مرد، عورت چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا ہے، اور حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے (گھر سے) نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2506]
اردو حاشہ:
(1) صدقہ فطر کی ادائیگی نماز عید فطر سے قبل واجب ہے نماز کے بعد ادا کیا ہوا صدقہ، صدقہ فطر نہیں ہوگا اور تاخیر کرنے والا شخص اس واجب کی ادائیگی سے محروم رہے گا۔ سنن ابوداؤد میں حدیث ہے کہ جس نے صدقہ فطر عید سے پہلے ادا کیا تو وہ مقبول ہے اور اگر عید کے بعد ادا کیا گیا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ متصور ہوگا۔ دیکھیے (سنن أبي داؤد، الزکاة، حدیث: 1609)
(2) صدقۃ الفطر وقت سے پہلے بھی دیا جا سکتا ہے کیونکہ مقصد تو فقیر کی حاجت برآری ہے، خصوصاً اگر صدقۃ الفطر اجتماعی طور پر جمع کر کے تقسیم کرنا مقصود ہو تو لازماً وقت سے پہلے ہی اکٹھا کیا جائے گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ بعض صحابہ سے چند دن قبل صدقۃ الفطر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2506
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2507
´صدقہ فطر کتنا فرض ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام پر فرض کیا ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2507]
اردو حاشہ:
صدقۃ الفطر کی مقدار کے لیے دیکھیے حدیث: 2502۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2507
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1825
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور جو سے ایک ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر لوگوں نے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے برابر کر لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1825]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صاع ایک پیمانہ ہے جیسے ہمارے ہاں ٹوپہ ہوتا ہے۔
جو چیز عام خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہو اسے اس پیمانے سے ماپ کر صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔
(2)
اس پیمانے کا اندازہ 5 اور 1/3 رطل، یعنی تقریبا ڈھائی کلو ہے اور بعض کے نزدیک 2100 گرام ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے اس اجتہاد سے اتفاق نہیں کیا کہ گندم کا نصف صاع کھجوروں کے ایک صاع کے برابر ہے۔
گندم کا آدھا صاع کافی ہونے کا قول حضرت معاویہ کا ہے جیسے کہ حدیث 1829 میں آ رہا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1825
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1826
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر میں ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر ایک پر فرض کیا، خواہ وہ آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1826]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
مدینہ منورہ میں لوگوں کی عام خوراک جو اور کھجور تھی، اس لیے انہی کا ذکر کیا گیا۔
گھر میں جتنے افراد ہوں، اتنے صاع صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔
مسلمان غلام کا صدقہ فطر آقا کے ذمے ہے۔
اسی طرح بچوں اور عورتوں کا صدقہ فطر اس شخص کے ذمے ہے جو ان کے دوسرے ضروری اخراجات کا ذمہ دار ہے۔
صدقہ فطر میں نقدی ادا کرنے کا موقف بعض علمائے کرام نے اپنایا ہے لیکن فرامین نبوی اور صحابہ کرام کے اسوہ حسنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ فطر میں وہ جنس ادا کرنی چاہیے جو اہل خانہ کی عمومی غذا ہو مثلاً:
گندم، چاول اور کھجور وغیرہ۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1826
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 676
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 676]
اردو حاشہ: 1؎:
اس روایت میں لفظ ((فَرَضَ)) استعمال ہوا ہے جس کے معنی فرض اور لازم ہونے کے ہیں،
اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے بعض لوگوں نے((فَرَضَ)) کو ”قَدَّرَ“ کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں ((مِنْ الْمُسْلِمِينَ)) کی قید اتفاقی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 676
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1512
1512. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر صدقہ فطرایک صاع جوَیا ایک صاع کھجور فرض کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1512]
حدیث حاشیہ:
(1)
صدقہ فطر ادا کرنے میں صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے جس کے پاس عید کے دن اپنے اہل و عیال کی خوراک سے اتنا غلہ زائد موجود ہو کہ وہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ادا کر سکے۔
امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ زکاۃ میں نصاب کی ملکیت کا اعتبار نہیں بلکہ ہر اس انسان پر واجب ہے جو عید کی رات اور دن اپنی خوراک سے ایک صاع زائد غلہ رکھتا ہو، یہی جمہور کا قول ہے۔
(الجامع للاختیارات الفقیھیة: 408/1۔
412)
اس حدیث میں ایک صاع بطور فطرانہ ادا کرنے کا ذکر ہے لیکن حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں گندم سے دو مد، یعنی نصف صاع بطور فطرانہ ادا کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 350/6)
علامہ ابن قیم ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور چند احادیث کے حوالے سے اسے مضبوط بھی کہا ہے۔
خوف طوالت کے پیش نظر ہم صرف زاد المعاد کے حوالے پر اکتفا کرتے ہیں۔
(زادالمعادلابن القیم، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في زکاةالفطر: 19/2،20)
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں:
گندم سے نصف صاع فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
(تمام المنة: 387)
علامہ ابن حزم نے متعدد احادیث و آثار ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گندم سے نصف صاع بھی دیا جا سکتا ہے۔
(محلیٰ ابن حزم: 129/6)
عرب میں دوسری اشیائے خوردنی کے مقابلے میں گندم قیمتی ہوتی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبار کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ عام دستیاب ہے، اس لیے ہمیں گندم سے ایک صاع ہی ادا کرنا چاہیے، البتہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے نصف صاع ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
دوران رمضان روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے ہی پر پابندی نہیں ہوتی بلکہ ہر عضو بالخصوص زبان پر کنٹرول بھی ضروری ہوتا ہے، تاہم احتیاط کے باوجود روزے دار سے کوتاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔
اس قسم کی غلطیوں کی تلافی کے لیے صدقہ فطر کو کفارہ کی حیثیت دی گئی ہے۔
مسلم معاشرے میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے، کچھ لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں جبکہ بعض مفلس اور نادار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت کے اموال میں غرباء و مساکین کا بھی حصہ رکھا ہے، اور صدقہ فطر اس حق کو ادا کرنے کی ایک عملی شکل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان مقاصد کی نشاندہی بایں الفاظ فرمائی ہے:
”صدقہ فطر روزے داروں کے لیے فحش گوئی اور لغویات سے پاکیزگی کا باعث اور غرباء کے لیے خوراک کا ایک ذریعہ ہے۔
“ (سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1609)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1512
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1503
1503. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر صدقہ فطر ایک صاع کھجور یاجو سے فرض کیاہے اور نماز کے لیے جانے سے قبل اس کی ادائیگی کاحکم دیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1503]
حدیث حاشیہ:
(1)
لغوی اعتبار سے "فرض" کے معنی مقرر کرنا ہیں۔
اصطلاحی طور پر یہ لفظ واجب کے معنی میں آتا ہے، بعض روایات میں صدقہ فطر کو زکاۃ فطر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
(سنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2506)
اس سے بھی صدقہ فطر کی فرضیت کی تائید ہوتی ہے۔
(2)
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ اس کی فرضیت منسوخ ہو چکی ہے۔
وہ درج ذیل حدیث دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں:
حضرت قیس بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں زکاۃِ اموال کا حکم نازل ہونے سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا، جب زکاۃ کے احکام نازل ہوئے تو آپ نے اس کے متعلق کوئی حکم نہ دیا اور نہ اس کی ادائیگی ہی سے منع فرمایا، البتہ ہم اسے ادا کرتے ہیں۔
(سنن النسائي، الزکاة، حدیث: 2508)
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب صدقہ فطر پہلے فرض قرار دے دیا گیا تھا تو زکاۃِ اموال کے نزول کے ساتھ اس کی فرضیت منسوخ نہیں ہو گی، کیونکہ ایک فرض کا نازل ہونا دوسرے کے ساقط ہونے کو لازم نہیں جبکہ دونوں کی حیثیت بھی الگ الگ ہے کیونکہ صدقہ فطر نفوس سے متعلق ہے اور زکاۃ اموال لوگوں کے مال و اسباب سے تعلق رکھتی ہے۔
(فتح الباري: 463/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1503
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1504
1504. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان پر، وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یاعورت، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقہ فطر فرض کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1504]
حدیث حاشیہ:
(1)
غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر واجب ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کی طرف سے مالک صدقہ دے گا جیسا کہ ایک روایت میں چھوٹے بچے پر صدقہ فطر واجب ہونے کا ذکر ہے، لیکن اس کی طرف سے اس کا سرپرست ادا کرتا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ من المسلمين کے اضافے کو امام مالک کے تمام شاگرد بیان کرتے ہیں، البتہ قتیبہ بن سعید اس کا ذکر نہیں کرتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرانے کے وجوب کے لیے اسلام شرط ہے، اس کا تقاضا ہے کہ کافر پر اس کا ادا کرنا ضروری نہیں۔
(3)
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مسلمان آقا اپنے کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا پابند ہے یا نہیں؟ جمہور کا موقف ہے کہ کافر غلام کی طرف سے فطرانہ ادا نہیں کیا جائے گا، البتہ احناف نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ آقا کو اپنے کافر غلام کا فطرانہ ادا کرنا ہو گا، لیکن یہ موقف محل نظر ہے، البتہ راوی حدیث حضرت ابن عمر ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ اپنے تمام گھر والوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے وہ آزاد ہوں یا غلام، چھوٹے ہوں یا بڑے، مسلمان غلام ہوں یا کافر۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیا ہے کہ وہ بطور نفل ایسا کرتے تھے اور اس پر کوئی پابندی نہیں۔
(فتح الباري: 467/3)
رسول اللہ ﷺ نے ہر شخص کی طرف سے فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا ہے جس کی کفالت اس کے ذمے ہے، خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، آزاد ہو یا غلام۔
(سنن الدارقطني: 14/2)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1504
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1507
1507. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو سے صدقہ فطردینے کا حکم دیا تھا لیکن لوگوں نے اس کے بدلے دومد گندم کو مقررکرلیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1507]
حدیث حاشیہ:
(1)
دو مد سے مراد نصف صاع ہے کیونکہ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ کھجور سے بھی ایک صاع فطرانہ ادا کیا جائے، حضرت معاویہ ؓ کے زمانے میں شام کے علاقے سے بکثرت گندم مدینہ آنے لگی تو انہوں نے اس کی قیمت کا اعتبار کرتے ہوئے گندم کے نصف صاع کو جو کے ایک صاع کے مساوی قرار دے دیا جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ خود فرماتے ہیں کہ جب سیدنا معاویہ ؓ کا دور آیا تو لوگوں نے گندم کے نصف صاع کو جو کے ایک صاع کے برابر قرار دے لیا۔
(صحیح ابن خزیمة: 81/4)
جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ جب امیر معاویہ ؓ کا زمانہ آیا اور گندم باہر سے آنے لگی تو انہوں نے کہا کہ گندم کا ایک مد دوسری اجناس کے مقابلے میں دو مد کے برابر ہے۔
(صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1508)
البتہ ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں گندم مدینہ آنا شروع ہوئی تو آپ نے اس کے نصف صاع کو دوسری اجناس کے ایک صاع کے برابر قرار دے دیا تھا۔
(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1614)
حافظ ابن حجر ؒ نے امام مسلم کے حوالے سے بتایا ہے کہ مذکورہ روایت ایک راوی عبدالعزیز بن ابی رواد کے وہم پر مبنی ہے اور امام مسلم ؒ نے (کتاب التمییز، ص: 43-
45، حدیث: 92،93)
میں اس کی تردید کی ہے۔
(فتح الباري: 469/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1507
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1511
1511. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ہر مذکر، مؤنث، آزاد اور غلام پر صدقہ فطر یا صدقہ رمضان ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مقرر کیا ہے، پھر لوگوں نے نصف صاع گندم اس کے مساوی قراردے لیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فطرانہ کھجوروں سے دیا کرتے تھے، ایک دفعہ اہل مدینہ کھجوریں نہ حاصل کر سکے تو آپ نے بطور فطرانہ اداکیے۔ راوی کہتا ہے کہ حضرت ابن عمر ؓ ہر چھوٹے بڑے حتی کہ میرے بیٹوں کی طرف سے فطرانہ ادا کرتے تھے۔ اور آپ فطرانہ ان لوگوں کو دیتے تھے جو صدقہ وصول کرنے پرتعینات تھے، لوگ انھیں عید الفطرسے ایک یا دودن پہلے فطرانہ دے دیتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1511]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ غلام اگر تجارت کے لیے ہوں تو مسلمان اور کافر کی تمیز کیے بغیر ان کی مالیت پر زکاۃ واجب ہے۔
اور اگر تجارت کے لیے نہیں ہیں تو ان کا فطرانہ ادا کیا جائے لیکن صرف ان غلاموں کا جو مسلمان ہیں۔
(2)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر اس جنس سے ادا کیا جائے جو سال کے اکثر حصے میں بطور خوراک استعمال ہوتی ہے، اس سے بہتر جنس بھی بطور فطرانہ دی جا سکتی ہے، البتہ اس سے کمتر کو بطور فطرانہ دینا درست نہیں۔
لیکن حضرت ابن عمر ؓ میں اتباع سنت کا جذبہ موجزن تھا، چنانچہ ابو مجلز ؒ کہتے ہیں:
میں نے ایک دفعہ ان سے کہا:
اللہ تعالیٰ نے اب فراخی کر دی ہے اور گندم کھجور سے بڑھ کر ہے، لہذا آپ کھجور کے بجائے گندم سے صدقہ فطر ادا کریں تو انہوں نے فرمایا:
صدقہ فطر کی ادائیگی میں جو راستہ میرے ساتھیوں نے اختیار کیا تھا میں بھی اس پر چلنا پسند کرتا ہوں۔
(فتح الباري: 474/3) (3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صدقہ فطر ایک دو دن پہلے بھی دیا جا سکتا ہے۔
ہمارے نزدیک صدقہ فطر کا مقصد ”مساکین کی خوراک“ ٹھہرایا گیا ہے جس کی وضاحت حدیث میں ہے۔
(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1609)
اس بنا پر اشیائے خوردنی ہی فطرانے میں دی جائیں، قیمت وغیرہ ادا کرنا محل نظر ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1511
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2282
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے سبب، ہرمسلمان جان پر آزاد ہو یا غلام، مرد ہویا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، کھجوروں سے ایک صاع یا جو سے ایک صاع فطرانہ لازم ٹھہرایا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2282]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
1۔
رمضان 2 ہجری میں فرض ہوا اسی سال فطرانہ ضروری ٹھہرایا گیا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صدقہ الفطر فرض ہے اور احناف کے نزدیک واجب ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے قول کے مطابق سنت مؤکدہ ہے۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے ایک قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا قول جدید اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک صدقہ الفطر عید کی رات کو غروب شمس کے وقت فرض ہوتا ہے اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ،
امام لیث رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ قول قدیم اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے قول کے مطابق عید کے دن طلوع فجر کے وقت فرض ہوتا ہے۔
یعنی اس وقت موجود تمام افراد پر لاگو ہو گا۔
2۔
صدقہ الفطر تمام مسلمان افراد پر فرض ہے اس میں چھوٹے بڑے،
آزاد غلام اور مذکر ومؤنث میں کوئی امتیاز نہیں ہے۔
اور یہ عید الفطر سے پہلے ادا کرنا ہوگا۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مؤقف یہی ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فطرانہ اس شخص پر فرض ہے جو عید کے دن اور اس کے ایک دن بعد کے لیے بھی اپنے اہل وعیال کے لیے کھانے پینے کا سامان رکھتا ہو۔
اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ا س پر واجب ہے جو عید کے دن صاحب نصاب ہو یعنی اس پر زکاۃ فرض ہو۔
3۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت کا فطرانہ خاوند کے ذمہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عورت اپنا فطرانہ خود ادا کرے گی۔
4۔
جمہور امت کے نزدیک غلام کا فطرانہ مالک کے ذمہ ہے بشرط یہ کہ وہ مسلمان ہو۔
5۔
گندم اور انگوروں کے سوا ہرجنس سے بالاتفاق ایک صاع فطرانہ ادا کرنا ہوگا۔
اورجمہور امت کے نزدیک گندم اورانگوروں سے بھی ایک صاع ادا کرنا ہوگا،
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہرجنس سے ایک صاع ادا کیا جاتا تھا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گندم کے بدیسی اور مہنگی ہونے کے سبب اس کا آدھا صاع مقرر کیا تھا۔
جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہم ایسی جنس سے فطرانہ ادا نہ کریں جو ہم باہر سے منگواتے ہیں۔
اور ہماری ملکی پیداوار کے مقابلے میں وہ ہمیں بہت مہنگی پڑتی ہے۔
مثلاً کھجور اور انگور تو ہم نصف صاع ادا کر سکتے ہیں۔
اگرچہ بہتر صورت یہی ہے کہ ہم ہرجنس سے صاع ہی ادا کریں گے جیسا کہ آگے حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث آ رہی ہے۔
لیکن امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اورامام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک گندم اور منقہ کا نصف صاع ادا کرنا ہوگا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2282
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1504
1504. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان پر، وہ غلام ہو یا آزاد، مرد ہو یاعورت، ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقہ فطر فرض کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1504]
حدیث حاشیہ:
غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے۔
بعضوں نے کہا کہ یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپر اٹھالیتا ہے۔
(وحیدی)
صدقہ فطرکی فرضیت یہاں تک ہے کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے۔
کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا:
«صَاعٌ مِنْ بُرٍّ، أَوْ قَمْحٍ عَلَى كُلِّ اثْنَيْنِ صَغِيرٍ أَوْ كَبِيرٍ، حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ، ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى، أَمَّا غَنِيُّكُمْ فَيُزَكِّيهِ اللَّهُ، وَأَمَّا فَقِيرُكُمْ، فَيَرُدُّ اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ أَكْثَرَ مِمَّا أَعْطَى» (أبوداود)
یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مالدار کو گناہوں سے پاک کردے گا (اس کا روزہ پاک ہوجائے گا)
اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔
صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مدینہ منورہ میں مروج تھا‘ نہ صاع عراقی مراد ہے۔
صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے، حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث ؒ فرماتے ہیں:
وهو خمسة أرطال وثلث رطل بالبغدادي، ويقال له:
الصاع الحجازي؛ لأنه كان مستعملا في بلاد الحجاز، وهو الصاع الذي كان مستعملاً في زمن النبي - صلى الله عليه وسلم -، وبه كانوا يخرجون صدقة الفطر. وزكاة المعشرات وغيرهما من الحقوق الواجبة المقدرة في عهد النبي - صلى الله عليه وسلم -، وبه قال مالك والشافعي وأحمد وأبويوسف وعلماء الحجاز. وقال أبوحنيفة ومحمد. بالصاع العراقي، وهو ثمانية أرطال بالرطل المذكور. وإنما قيل له العراقي، لأنه كان مستعملاً في بلاد العراق، وهو الذي يقال له الصاع الحجاجي؛ لأنه أبرزة الحجاج الوالي، وكان أبويوسف يقول كقول أبي حنيفة ثم رجع إلى قول الجمهور، لما تناظر مع مالك بالمدينة فأراه الصيعان التي توراثها أهل المدينة عن إسلافهم من زمن النبي - صلى الله عليه وسلم۔
(مرعاۃ ج 3 ص 93)
صاع کا وزن 5 رطل اور ثلث رطل بغدادی ہے، اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا۔
اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاع سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔
امام مالک ؒ اور امام شافعی ؒ اور امام احمد ؒ اور امام ابویوسف ؒ اور علماء حجاز کا یہی قول ہے۔
اور امام ابوحنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ صاع عراقی مراد لیتے ہیں۔
جو بلاد عراق میں مروج تھا۔
جسے صاع حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔
اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابویوسف ؒ بھی اپنے استاد گرامی امام ابوحنیفہ ؒ ہی کے قول پر فتویٰ دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اس بارے میں امام المدینہ امام مالک ؒ سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک ؒ نے مدینہ کے بہت سے پرانے صاع جمع کرائے۔
جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت ماب ﷺ سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا، ان کا وزن کیا گیا تو 5 رطل ثلث بغدادی نکلا۔
چنانچہ حضرت امام ابویوسف ؒ نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا۔
صاع حجاجی اس لیے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیاتھا۔
حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن 234 تو لہ ہوتا ہے جس کے 6 تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی (80)
تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1504