337- وبه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”قال رجل لم يعمل حسنة قط لاهله: إذا هو مات فاحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر؛ فوالله، لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه احدا من العالمين. فلما مات الرجل فعلوا ما امرهم فامر الله البر فجمع ما فيه، وامر البحر فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت هذا؟ فقال: من خشيتك يا رب، وانت اعلم، قال: فغفر الله له.“337- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”قال رجل لم يعمل حسنة قط لأهله: إذا هو مات فأحرقوه، ثم اذروا نصفه فى البر ونصفه فى البحر؛ فوالله، لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين. فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه، وأمر البحر فجمع ما فيه، ثم قال: لم فعلت هذا؟ فقال: من خشيتك يا رب، وأنت أعلم، قال: فغفر الله له.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں سے کہا: اگر وہ مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی سمندر میں اڑا دیں کیونکہ اگر اللہ نے اس پر سختی (باز پرس) کی تو اسے ایسا عذاب دے گا جو اس نے اپنی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر جب وہ آدمی مر گیا تو انہوں نے وہی کیا جس کا اس نے حکم دیا تھا پھر اللہ نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے اور سمندر کو حکم دیا تو اس نے (بھی) اس آدمی کے ذرات اکٹھے کر لئے پھر اللہ نے فرمایا: تو نے یہ کیوں کیا ہے؟ تو اس نے کہا: اے رب! تو جانتا ہے کہ میں نے یہ تیرے ڈر کی وجہ سے کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ نے اسے بخش دیا۔“
इसी सनद के साथ (हज़रत अबु हुरैरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से) रिवायत है कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “एक आदमी जिस ने कभी कोई नेकी नहीं की थी, अपने घर वालों से कहा ! अगर वह मर जाए तो उसे जला दें, फिर उस की आधी राख ख़ुश्की और आधी समुद्र में अड़ा दें क्यूंकि अगर अल्लाह ने उस पर सख़्ती की तो उसे ऐसा अज़ाब देगा जो उस ने अपनी जीवों में से किसी को नहीं दिया। फिर जब वह आदमी मर गया तो उन्हों ने वही किया जिस का उस ने हुक्म दिया था फिर अल्लाह ने ख़ुश्की को हुक्म दिया तो उस ने उस आदमी के ज़र्रे जमा कर लिए और समुद्र को हुक्म दिया तो उस ने भी उस आदमी के ज़र्रे जमा कर लिए फिर अल्लाह ने फ़रमाया ! तू ने ये क्यों किया है ? तो उस ने कहा ! ऐ रब ! तू जानता है कि मैं ने ये तेरे डर की वजह से किया है। आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! तो अल्लाह ने उसे क्षमा दिया।”
تخریج الحدیث: «337- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 240/1 ح 571، ك 16 ب 16 ح 51) التمهيد 37/18، الاستذكار: 525، و أخرجه البخاري (7506) ومسلم (2756) من حديث مالك به.»
إذا أنا مت فأحرقوني ثم اطحنوني ثم ذروني في الريح فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه أحدا فلما مات فعل به ذلك فأمر الله الأرض فقال اجمعي ما فيك منه ففعلت فإذا هو قائم فقال ما حملك على ما صنعت ق
إذا مات فحرقوه واذروا نصفه في البر ونصفه في البحر فوالله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين فأمر الله البحر فجمع ما فيه وأمر البر فجمع ما فيه ثم قال لم فعلت قال من خشيتك وأنت أعلم فغفر له
إذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم اذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه به أحدا قال ففعلوا ذلك به فقال للأرض أدي ما أخذت فإذا هو قائم فقال له ما حملك على ما صنعت فقال
إذا مات فحرقوه ثم اذروا نصفه في البر ونصفه في البحر فوالله لئن قدر الله عليه ليعذبنه عذابا لا يعذبه أحدا من العالمين فلما مات الرجل فعلوا ما أمرهم فأمر الله البر فجمع ما فيه وأمر البحر فجمع ما فيه ثم قال لم فعلت هذا
إذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم اذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر الله علي ليعذبني عذابا لا يعذبه أحدا من خلقه قال ففعل أهله ذلك قال الله لكل شيء أخذ منه شيئا أد ما أخذت فإذا هو قائم قال الله
إذا أنا مت فأحرقوني ثم اسحقوني ثم ذروني في الريح في البحر فوالله لئن قدر علي ربي ليعذبني عذابا ما عذبه أحدا قال ففعلوا به ذلك فقال للأرض أدي ما أخذت فإذا هو قائم فقال له ما حملك على ما صنعت قال خشيتك أ
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 226
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 7506، ومسلم 2756، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اس روایت میں مذکورہ شخص نے اللہ تعالیٰ کی قدرت پر کوئی شک نہیں کیا تھا بلکہ یہ گمان کیا تھا کہ اس طریقے سے اللہ تعالیٰ اُس پر سختی نہیں کرے گا۔ دیکھئے [زاد المسير لابن الجوزي ص940، الانبياء: 87] اور [التمهيد 18/43] ➋ عذاب روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے۔ ➌ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ قوانینِ قدرت کا محتاج نہیں بلکہ ہر چیز اسی کی محتاج ہے اور ہر چیز کو اُسی نے پیدا کیا ہے۔ ➍ سچی توبہ سے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ➎ میت کو جلانا جائز نہیں ہے بلکہ اسے قبر میں دفن کرنا ضروری ہے۔ ➏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کان رجل ممن کان قبلکم لم یعمل خیرًا قط إلا التوحید۔» تم سے پہلے ایک آدمی تھا جس نے توحید کے علاوہ نیکی کا کوئی کام نہیں کیا تھا۔ [مسند أحمد 2/304 ح8040 وسنده صحيح] پھر انہوں نے حدیثِ بالا کے مفہوم والی روایت بیان کی۔ معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص موحد تھا لہٰذا یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس نے قدرت میں شک کیا ہو۔ ➐ موحد (توحید ماننے والا) آخرکار جنت میں جائے گا بشرطیکہ اسلام کے مناقض اُمور میں سے کسی بات کا ارتکاب نہ کرے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 337
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2081
´مومنوں کی روحوں کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا: ”ایک بندے نے اپنے اوپر (بڑا) ظلم کیا، یہاں تک کہ موت (کا وقت) آپ پہنچا، تو اس نے اپنے گھر والوں سے کہا: جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا، پھر مجھے پیس ڈالنا، کچھ ہوا میں اڑا دینا اور کچھ سمندر میں ڈال دینا، اس لیے کہ اللہ کی قسم! اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوا تو ایسا (سخت) عذاب دے گا کہ ویسا عذاب اپنی کسی مخلوق کو نہیں دے گا“، تو اس کے گھر والوں نے ایسا ہی کیا، الل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2081]
اردو حاشہ: (1)”مجھے پکڑ لیا“ اس نے سمجھا کہ اس طریقے سے جسم کو بظاہر ختم کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھے پکڑ نہ سکے گا، مگر یہ اس کی نادانی تھی کیونکہ اس طریقے سے بھی جسم کی شکل و صورت تو بدل سکتی ہے کہ وہ گوشت اور ہڈیوں سے راکھ بن گیا مگر ختم تو نہ ہوسکے گا، راکھ تو موجود ہی ہے۔ (2)”معاف کر دیا“ اس کی جہالت کو عذر قرار دیا، نیز اس کی نیت تو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچنے ہی کی تھی اگرچہ طریقہ غلط تھا۔ معلوم ہوا عمل کے بجائے نیت کا اعتبار زیادہ ہوتا ہے۔ نیت غلط ہو اور عمل صحیح تو عمل غیر معتبر ہوتا ہے، جیسے دکھلاوے کی نماز، لیکن اگر نیت صحیح ہو، عمل غلط ہو جائے تو ثواب مل جاتا ہے، جیسے حق کی تلاش کرنے والے مجتہد کو حق نہ بھی مل سکے تب بھی وہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ (3) حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر نہ تھا، قابل معافی تھا ورنہ کفر اور شرک تو کسی صورت بھی معاف نہیں ہوسکتا۔ گناہوں کا احساس اور خوف بھی ایمان کی علامت ہے۔ (4) موت کے بعد اٹھنے کا اثبات ہوتا ہے۔ (5) اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت معلوم ہوتی ہے۔ (6) اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی فضیلت کا پتا چلتا ہے۔ (7) اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2081
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6980
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ایک آدمی نے جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی، اپنے گھر والوں کو کہا، جب وہ مرجائے تو اسے جلا دینا، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی اور آدھی راکھ سمندر میں بکھیر دینا، کیونکہ اللہ کی قسم!اگر اللہ نے اس پر گرفت کر سکا تو اسے اس قدر شدید عذاب دے گا۔ جو کائنات میں سے کسی کو نہیں دے گا تو جب وہ آدمی فوت ہو گیا، انھوں نے (گھر والوں نے)اس کے مشورہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6980]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: یہ انسان مومن تھا اور اس کا خیال تھا، میں نے کوئی نیکی نہیں کی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اسے خوب مال و دولت سے نوزا تھا اور اولاد بھی دی تھی، جس کے ساتھ وہ بہت اچھا سلوک کرتا تھا، لیکن اپنے گناہوں کے مواخذہ کے خوف اور ڈر کی بنا پر ہوش و حواس پر قابو نہ رکھ سکا تھا، اس لیے ایک غلط اور انتہائی ناگوار بات کہہ دی کہ اگر اللہ نے مجھ پر قابو پا لیا، یا گرفت کر سکا تو وہ مجھے شدید عذاب دے گا، چونکہ یہ بات خشیت کے غلبہ کی بنا پر کہی گئی تھی، اس لیے اس کو معاف کر دیا گیا، کیونکہ کامیابی اور کامرانی کامدار اور انحصار تو اللہ کے خوف و خشیت پر ہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6980
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6984
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ" تم سے پہلے لوگوں میں سے ایک آدمی کو اللہ نے مال اور اولاد سے نوازا تھا چنانچہ اس نے اپنی اولاد سے کہا، جو میں تمھیں حکم دینے والا ہوں، لازماً تم اس پر تم عمل پیرا ہو گے یا میں اپنی وراثت تمھارے سواکسی اورکو دے دوں گا، جب میں مرجاؤں تو مجھے جلا دینا راوی کہتا ہے میرا ظن غالب یہی ہے کہ اس نے کہا، پھر مجھے پیس ڈالنا اور مجھے ہوامیں اڑادینا کیونکہ میں نے اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:6984]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: راشه: اس کو عطا کیا، اگرراسه تو معنی ہوگا، (مال اور اولاد کا) سرداربنایا۔ ابتئر: اور ہمزہ کوہاء سے بدل دیتے ہیں، ابتهر، جمع کیا، ذخیرہ کیا، یعنی آگے بھیجا۔ فما تلافاه غيرها: اس کے گناہوں کی تلافی اور ازالہ خوف الٰہی ہی نے کیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6984
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3481
3481. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا۔ پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیاتو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کہا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزاء جمع کردے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کردیا۔ پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے پروردگار!تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔“ راوی حدیث ہشام کے علاوہ جب کسی دوسرے (عبدالرزاق) نے اس حدیث کو بیان کیا تو خشیت کے بجائے خوف کے لفظ بیان کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3481]
حدیث حاشیہ: حافظ صاحب ؒ فرماتےہیں کہ الفاظ لئن قدر اللہ علی اس شخص نےغلبہ و دہشت کی بنا پرزبان سےنکالے جب کہ وہ حالت غفلت ونسیان میں تھا اسی لیے یہ الفاظ اس کےلیے قابل مؤاخذہ نہیں ہوئے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3481
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7506
7506. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا تھا۔ اس نے وصیت کی کہ جب ہو مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی میں اڑا دیں اور باقی آدھی دریا میں بہا دیں اللہ کی قسم! اگر اللہ اس پر قادر ہوا تو وہ اسے ایسا عذاب دے گا جودنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی پھر اس نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے بھی وہ اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو ا سکے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آدمی سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر سے۔ اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7506]
حدیث حاشیہ: کیونکہ وہ شخص گو گنہگار تھا پرمؤحد تھا۔ اہل توحید کےلیے مغفرت کی بڑی امید ہے۔ آدی کو چاہیے کہ شرک سے ہمشہ بچتا رہے اور توحید پر قائم رہے اگرشرک پرمرا تومغفرت کی امید بالکل نہیں ہے۔ قبروں کو پوجنا، تعزیوں اور جھنڈوں کے آگےسر جھکانا، مزرات کا طواف کرنا، کسی خواجہ وقطب کی نذر ونیاز کرنا، یہ سارے شرکیہ افعال ہیں اللہ ان سب سے بچائے آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7506
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3481
3481. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”ایک شخص بہت گناہ گار تھا۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں مرجاؤں تو مجھے جلادینا۔ پھر مجھے باریک پیس کر ذرات کو ہوا میں اڑادینا۔ اللہ کی قسم! اگراللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہوگیاتو مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو اس نے کسی کو نہیں دیاہوگا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے ساتھ وہی کچھ کہا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اس شخص کے تمام اجزاء جمع کردے تو زمین نے ان ذرات کو جمع کردیا۔ پھر اچانک وہ شخص کھڑا ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جو کچھ تو نے کیا اس پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟ اس نے کہا: اے پروردگار!تیرے خوف نے مجھے ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا۔“ راوی حدیث ہشام کے علاوہ جب کسی دوسرے (عبدالرزاق) نے اس حدیث کو بیان کیا تو خشیت کے بجائے خوف کے لفظ بیان کیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3481]
حدیث حاشیہ: اللہ تعالیٰ کی قدرت کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرنا کفر ہے لیکن مذکورہ شخص نے اللہ کی قدرت کے متعلق شک کا اظہار کیا اس کے باوجود اسے معاف کردیا گیا کیونکہ یہ شک شدت غم کی وجہ سے تھا۔ کسی کو کافر قرار دینے کے لیے یہ ایک مانع ہے جس طرح شدت خوشی بھی کسی کو کافر قرار دینے کے لیے ایک رکاوٹ ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث ہے۔ ایک آدمی جنگل میں اپنی سواری زادِراہ سمیت گم کر بیٹھا جب اچانک وہ اسے ملی تو شدت خوشی کی بنا پر اس نے کہا: (اللهم أنت عبدي وأنا ربك) ”یعنی اے اللہ! تو میرا بندہ اور میں تیرا رب ہوں۔ “(صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 6960(2747) بظاہر یہ کفریہ کلمہ ہے لیکن شدت خوشی کی بنا پر اس سے سر زد ہوا اس لیے اس سے اللہ نے درگزر کیا۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3481
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7506
7506. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ایک آدمی نے کبھی کوئی اچھا کام نہیں کیا تھا۔ اس نے وصیت کی کہ جب ہو مر جائے تو اسے جلا دیں، پھر اس کی آدھی راکھ خشکی میں اڑا دیں اور باقی آدھی دریا میں بہا دیں اللہ کی قسم! اگر اللہ اس پر قادر ہوا تو وہ اسے ایسا عذاب دے گا جودنیا کے کسی شخص کو بھی وہ نہیں دے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے سمندر کو حکم دیا تو اس نے تمام راکھ جمع کر دی جو اس کے اندر تھی پھر اس نے خشکی کو حکم دیا تو اس نے بھی وہ اپنی تمام راکھ جمع کر دی جو ا سکے اندر تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس آدمی سے پوچھا: تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر سے۔ اور تو سب سے زیادہ جاننے والا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کر دیا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7506]
حدیث حاشیہ: ۔ وہ شخص بنی اسرائیل میں کفن چور تھا جو قبروں سے مُردوں کے کفن اتارلیا کرتا تھا۔ اگر سوال کیاجائے کہ وہ شخص مومن تھا یا کافر؟ اگر مومن تھا تو اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک کیوں کیا؟ اگر کافر تھا تو اس کی مغفرت کس طرح ہوئی؟اس کا جواب یہ ہے کہ وہ مومن تھا اور دہشت زدہ ہوکر اس نے یہ اقدام کیا۔ اس کے مومن ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس نے کہا: اے اللہ! میں نے تیرے خوف سے ایسا کیا تھا۔ (عمدة القاري: 684/16) 2۔ بہرحال اہل توحید کے لیے مغفرت کی بڑی اُمید ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ شرک سے اپنا دامن بچائے رکھے اور توحید پر قائم رہے۔ شرک ایسی بدترین نحوست ہے کہ اگر اس پر موت آجائےتو بخشش کی بالکل امید نہیں۔ اس حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہوا، سمندر اور مرنے والے سے گفتگو کی اور یہ گفتگو بھی آواز و حروف پر مشتمل تھی اورقرآن کریم کے علاوہ تھی۔ افسوس ہے ان لوگوں پر جو اس کا انکار کرتے ہیں یا دو راز کار تاویلوں کا سہارا لیتے ہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7506