سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
54. باب مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ
54. باب: پورا عرفات ٹھہرنے کی جگہ ہے۔
Chapter: What Has Been Related About: All of Arafat Is A Place For Standing
حدیث نمبر: 885
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو احمد الزبيري، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن بن الحارث بن عياش بن ابي ربيعة، عن زيد بن علي، عن ابيه، عن عبيد الله بن ابي رافع، عن علي بن ابي طالب رضي الله عنه، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة، فقال: " هذه عرفة وهذا هو الموقف، وعرفة كلها موقف "، ثم افاض حين غربت الشمس، واردف اسامة بن زيد وجعل يشير بيده على هينته والناس يضربون يمينا وشمالا يلتفت إليهم، ويقول: يا ايها الناس عليكم السكينة. ثم اتى جمعا فصلى بهم الصلاتين جميعا، فلما اصبح اتى قزح فوقف عليه، وقال: " هذا قزح، وهو الموقف وجمع كلها موقف "، ثم افاض حتى انتهى إلى وادي محسر، فقرع ناقته فخبت حتى جاوز الوادي، فوقف واردف الفضل، ثم اتى الجمرة فرماها ثم اتى المنحر، فقال: " هذا المنحر ومنى كلها منحر "، واستفتته جارية شابة من خثعم، فقالت: إن ابي شيخ كبير قد ادركته فريضة الله في الحج، افيجزئ ان احج عنه؟ قال: حجي عن ابيك، قال: ولوى عنق الفضل، فقال العباس: يا رسول الله، لم لويت عنق ابن عمك؟ قال: " رايت شابا وشابة فلم آمن الشيطان عليهما "، ثم اتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إني افضت قبل ان احلق، قال: " احلق او قصر ولا حرج "، قال: وجاء آخر، فقال: يا رسول الله، إني ذبحت قبل ان ارمي، قال: " ارم ولا حرج "، قال: ثم اتى البيت فطاف به، ثم اتى زمزم، فقال: " يا بني عبد المطلب لولا ان يغلبكم الناس عنه لنزعت ". قال: وفي الباب عن جابر. قال ابو عيسى: حديث علي حديث حسن صحيح، لا نعرفه من حديث علي إلا من هذا الوجه من حديث عبد الرحمن بن الحارث بن عياش، وقد رواه غير واحد، عن الثوري مثل هذا، والعمل على هذا عند اهل العلم راوا ان يجمع بين الظهر والعصر بعرفة في وقت الظهر، وقال بعض اهل العلم: إذا صلى الرجل في رحله ولم يشهد الصلاة مع الإمام إن شاء جمع هو بين الصلاتين مثل ما صنع الإمام، قال: وزيد بن علي هو ابن حسين بن علي بن ابي طالب عليه السلام.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ: " هَذِهِ عَرَفَةُ وَهَذَا هُوَ الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ "، ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِهِ عَلَى هِينَتِهِ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمُ السَّكِينَةَ. ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمُ الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: " هَذَا قُزَحُ، وَهُوَ الْمَوْقِفُ وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ "، ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى وَادِي مُحَسِّرٍ، فَقَرَعَ نَاقَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّى جَاوَزَ الْوَادِيَ، فَوَقَفَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ، ثُمَّ أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ: " هَذَا الْمَنْحَرُ وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ "، وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ: حُجِّي عَنْ أَبِيكِ، قَالَ: وَلَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ؟ قَالَ: " رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا "، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ، قَالَ: " احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: وَجَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَنْهُ لَنَزَعْتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الثَّوْرِيِّ مِثْلَ هَذَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ فِي رَحْلِهِ وَلَمْ يَشْهَدِ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ إِنْ شَاءَ جَمَعَ هُوَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الْإِمَامُ، قَالَ: وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا: یہ عرفہ ہے، یہی وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے، عرفہ (عرفات) کا پورا ٹھہرنے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تو وہاں سے لوٹے۔ اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اور آپ اپنی عام رفتار سے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہتے جاتے تھے: لوگو! سکون و وقار کو لازم پکڑو، پھر آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء قصر کر کے) ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی تو آپ قزح ۱؎ آ کر ٹھہرے، اور فرمایا: یہ قزح ہے اور یہ بھی موقف ہے اور مزدلفہ پورا کا پورا موقف ہے، پھر آپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر ۲؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پار کر لی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اور فضل بن عباس رضی الله عنہما کو (اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا، پھر آپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر (قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا: یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کا پورا منحر (قربانی کرنے کی جگہ) ہے، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا، اس نے عرض کیا: میرے والد بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہو چکا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کافی ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کر لے۔ علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی گردن موڑ دی، اس پر آپ سے، عباس رضی الله عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ تو آپ نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تو میں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا ۳؎، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے سر منڈانے سے پہلے طواف افاضہ کر لیا۔ آپ نے فرمایا: سر منڈوا لو یا بال کتروا لو کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر ایک دوسرے شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی، آپ نے فرمایا: رمی کر لو کوئی حرج نہیں ۴؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پر آئے، اور فرمایا: بنی عبدالمطلب! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کر دیں گے تو میں بھی (تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا۔ (اور لوگوں کو پلاتے)
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمٰن بن حارث بن عیاش کی سند سے، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے،
۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کو ملا کر ایک ساتھ پڑھے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: جب آدمی اپنے ڈیرے (خیمے) میں نماز پڑھے اور امام کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھ لے، جیسا کہ امام نے کیا ہے۔

وضاحت:
۱؎: مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔
۲؎: منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیات ھا۔
۳؎: یعنی: مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے، شیطان ان کو بہکا نہ دے۔
۴؎: حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چار کام کرنے پڑتے ہیں، ۱- جمرہ عقبیٰ کی رمی، ۲- نحر ہدی (جانور ذبح کرنا)، ۳- حلق یا قصر، ۴- طواف افاضہ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے، اور اگر کسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہو گا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا جب کہ بعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہو گا لیکن دم لازم آئے گا۔ مگر ان کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 64 (1922) (مختصراً) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن حجاب المرأة المسلمة (28)، الحج الكبير

قال الشيخ زبير على زئي: (885) إسناده ضعيف
/د 1922،1935، جه 3010

   جامع الترمذي885علي بن أبي طالبعليكم السكينة أتى جمعا فصلى بهم الصلاتين جميعا لما أصبح أتى قزح فوقف عليه وقال هذا قزح وهو الموقف جمع كلها موقف أفاض حتى انتهى إلى وادي محسر فقرع ناقته فخبت حتى جاوز الوادي وقف وأردف الفضل أتى الجمرة فرماها أتى المنحر
   سنن أبي داود1935علي بن أبي طالبهذا قزح وهو الموقف وجمع كلها موقف ونحرت ها هنا

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 885 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 885  
اردو حاشہ:
1؎:
مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔

2؎:
منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیا تھا۔

3؎:
یعنی:
مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے،
شیطان ان کو بہکا نہ دے۔

4؎:
حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چار کام کرنے پڑتے ہیں۔ 1-جمرہ عقبیٰ کی رمی۔
2- نحر ہدی (جانور ذبح کرنا)
3- حلق یا قصر۔
4- طواف افاضہ۔

ان چاروں میں ترتیب افضل ہے،
اور اگر کسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہو گا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا جب کہ بعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہو گا لیکن دم لازم آئے گا۔
مگر اُن کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 885   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.