(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن حارثة بن وهب، قال: " صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى آمن ما كان الناس واكثره ركعتين ". قال: وفي الباب عن ابن مسعود، وابن عمر، وانس. قال ابو عيسى: حديث حارثة بن وهب حديث حسن صحيح، وروي عن ابن مسعود، انه قال: صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم بمنى ركعتين، ومع ابي بكر ومع عمر ومع عثمان ركعتين صدرا من إمارته، وقد اختلف اهل العلم في تقصير الصلاة بمنى لاهل مكة، فقال بعض اهل العلم: ليس لاهل مكة ان يقصروا الصلاة بمنى، إلا من كان بمنى مسافرا، وهو قول ابن جريج، وسفيان الثوري، ويحيى بن سعيد القطان، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وقال بعضهم: لا باس لاهل مكة ان يقصروا الصلاة بمنى، وهو قول الاوزاعي، ومالك، وسفيان بن عيينة، وعبد الرحمن بن مهدي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى آمَنَ مَا كَانَ النَّاسُ وَأَكْثَرَهُ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ بِمِنًى لِأَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لِأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًى، إِلَّا مَنْ كَانَ بِمِنًى مُسَافِرًا، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا بَأْسَ لِأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًى، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ابن مسعود رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ ان کے ابتدائی دور خلافت میں دو رکعتیں پڑھیں، ۴- اہل مکہ کے منیٰ میں نماز قصر کرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں نماز قصر کریں ۱؎، بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو، یہ ابن جریج، سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید قطان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے منیٰ میں نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اوزاعی، مالک، سفیان بن عیینہ، اور عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔
وضاحت: ۱؎: ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے، اور جوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 882
اردو حاشہ: 1؎: ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے، اور جو لوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 882
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1446
´منیٰ میں نماز قصر کرنے کا بیان۔` حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو ہی رکعت پڑھی، ایک ایسے وقت میں جس میں کہ لوگ سب سے زیادہ مامون و بےخوف تھے، اور تعداد میں زیادہ تھے۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1446]
1446۔ اردو حاشیہ: منیٰ می چونکہ سب حاجی مسافر ہی ہوتے ہیں، لہٰذا منیٰ میں سب حاجی قصر کریں گے۔ امام احمد رحمہ اللہ کے نزدیک یہ قصر حج کی بنا پر ہے سفر کی بنا پر نہیں۔ احناف کے نزدیک جو لوگ منیٰ سے مسافت قصر کے اندر اندر رہتے ہیں، وہ پوری نماز پڑھیں گے، مگر یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں اور نہ کسی حدیث میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے والوں میں کوئی ایسی تفریق کی گئی ہو، مثلاً: یہ نہیں کہا گیا کہ مکہ والے قصر نہ کریں وغیرہ۔ صحیح بات یہی ہے کہ سب حاجی منیٰ میں قصر کریں گے۔ (قصر کے لیے خوف کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1446
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1965
´اہل مکہ کے لیے قصر نماز کا بیان۔` ابواسحاق کہتے ہیں کہ مجھ سے حارثہ بن وہب خزاعی نے بیان کیا اور ان کی والدہ عمر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں تو ان سے عبیداللہ بن عمر کی ولادت ہوئی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے منیٰ میں نماز پڑھی، اور لوگ بڑی تعداد میں تھے، تو آپ نے ہمیں حجۃ الوداع میں دو رکعتیں پڑھائیں ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حارثہ کا تعلق خزاعہ سے ہے اور ان کا گھر مکہ میں ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1965]
1965. اردو حاشیہ: اس سےمعلوم ہوا کہ منی ٰ میں قصر کرنامناسک حج کا حصہ ہے اس لیے دیگر مسافرین کی طرح اہل مکہ بھی منیٰ میں نماز قصر کر کے ہی پڑھیں گے۔ البتہ فریضہ حج کی ادائیگی کے بعد اہل مکہ کامنی ٰ میں قصر کرنا جائز نہ ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1965
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1083
1083. حضرت حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے بحالت امن منیٰ میں ہمیں دو رکعتیں پڑھائی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1083]
حدیث حاشیہ: (1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ نماز قصر جنگی حالات کے ساتھ خاص ہے۔ وہ دلیل کے طور پر قرآن کریم کی وہ آیت پیش کرتے ہیں جس میں بحالت سفر نماز قصر کو ہنگامی حالات کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ امام بخاری ؒ نے وضاحت فرمائی ہے کہ دوران سفر میں بحالت امن بھی قصر کی جا سکتی ہے۔ آیت کریمہ میں اندیشۂ دشمن کا ذکر غالب احوال کی بنا پر کیا گیا ہے کیونکہ مسلمانوں کے لیے اس وقت پورا عرب دار الحرب کی صورت اختیار کر چکا تھا۔ (2) امام ابن قیم ؒ فرماتے ہیں کہ قصر کی دو اقسام ہیں: ٭ قصر ارکان، یعنی نماز کی ہئیت اور ارکان میں تخفیف کر دی جائے۔ ٭ قصر عدد، یعنی رکعات نماز میں تخفیف کر دی جائے، چار کے بجائے دو۔ جب خوف اور سفر دونوں ہوں تو مطلق قصر، یعنی قصر ارکان اور قصر عدد کیا جائے گا۔ جب خوف اور سفر نہ ہو تو نماز کو پورا ادا کرنا ہو گا۔ جب خوف ہو لیکن سفر نہ ہو تو قصر ارکان سے نماز پوری ادا کی جائے گی، یعنی رکعات کی تعداد میں کمی نہیں ہو گی جیسا کہ غزوۂ خندق کے موقع پر تھا۔ جب خوف نہیں صرف سفر ہے تو مقدار میں کمی ہو سکتی ہے، ارکان کی کمی جائز نہیں، اسے صلاۃ امن کہا جاتا ہے، البتہ رکعات میں کمی کے اعتبار سے اسے نماز قصر کہا جاتا ہے۔ تمام ارکان کے لحاظ سے یہ نماز پوری ہے جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا تھا: سفر کی نماز دو رکعت، جمعہ بھی دو رکعت، اسی طرح نماز عید بھی دو رکعت، یہ صلاۃ تمام ہے قصر نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کی زبان سے ایسا ہی ثابت ہے اور افترا پردازی کرنے والا نقصان میں رہے گا۔ (مسند أحمد: 1/37) اس بحث کو امام ابن قیم ؒ نے بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ (زادالمعاد: 1/466)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1083
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1656
1656. حضرت حارثہ بن وہب خزاعی ؓ سے روایت ہےانھوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے ہمیں منیٰ میں دو رکعتیں پڑھائیں، حالانکہ ہم کسی وقت بھی اس سے زیادہ کثیر تعداد میں نہ تھے اور نہ اس سے زیادہ امن والے ہی تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1656]
حدیث حاشیہ: (1) قرآن کریم میں نماز قصر کو حالت خوف کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے۔ حضرت حارثہ بن وہب ؓ نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ قرآن کریم کی مذکورہ شرط اتفاقی ہے احترازی نہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں منیٰ میں نماز قصر پڑھائی، حالانکہ ہمیں وہاں کسی کا خوف یا دشمن سے خطرہ نہیں تھا بلکہ تعداد کے اعتبار سے ہم کبھی اس سے زیادہ نہ تھے اور وہاں ہمیں کسی قسم کا خوف یا خطرہ بھی نہ تھا، اس کے باوجود رسول الله ﷺ نے ہمیں منیٰ میں قیام کے دوران دو، دو رکعتیں پڑھائی ہیں۔ بہرحال حجاج کرام کو منیٰ میں قیام کے دوران نماز قصر کا اہتمام کرنا چاہیے، خواہ وہ مسجد خیف میں باجماعت پڑھیں یا اپنے اپنے خیموں میں ادا کریں۔ (2) امام ابوداود ؒ نے اس حدیث سے اہل مکہ کے لیے ایام حج میں نماز قصر ثابت کی ہے کیونکہ حضرت حارثہ ؓ مکہ کے رہائشی تھے۔ (سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1965)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1656