(مرفوع) حدثنا علي بن خشرم، اخبرنا عيسى بن يونس، عن محمد بن عمرو، عن عبيدة بن سفيان، عن ابي الجعد يعني الضمري، وكانت له صحبة فيما زعم محمد بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ترك الجمعة ثلاث مرات تهاونا بها طبع الله على قلبه ". قال: وفي الباب عن ابن عمر، وابن عباس، وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابي الجعد حديث حسن. قال: وسالت محمدا عن اسم ابي الجعد الضمري، فلم يعرف اسمه، وقال: لا اعرف له عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا هذا الحديث. قال ابو عيسى: ولا نعرف هذا الحديث إلا من حديث محمد بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ، فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَهُ، وَقَالَ: لَا أَعْرِفُ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوالجعد ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جمعہ تین بار سستی ۱؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوالجعد کی حدیث حسن ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ابوالجعد ضمری کا نام پوچھا تو وہ نہیں جان سکے، ۳- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتا جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۴- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل جمعہ چھوڑنا ایک خطرناک کام ہے، اس سے دل پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد اخروی کامیابی کی امید ختم ہو جاتی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 210 (1052)، سنن النسائی/الجمعة 1 (1369)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 93 (1125)، (تحفة الأشراف: 11883)، مسند احمد (3/424)، سنن الدارمی/الصلاة 205 (1612) (حسن صحیح)»
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1370
´نماز جمعہ چھوڑنے کی شناعت کا بیان۔` ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ (جنہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تین جمعہ سستی سے چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1370]
1370۔ اردو حاشیہ: ➊ ”مہر لگانا“ ایک محاور ہ ہے جس سے مراد کسی چیز کو یقینی بنانا اور ناقابل تنسیخ کر دینا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بلاعذر شرعی تین جمعے چھوڑنے والا شخص قطعاً منافق ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ (الا یہ کہ توبہ کر لے۔) ➋ جمعہ ادا کرنا واجب ہے کیونکہ اس قسم کی وعید ترک واجب ہی پر ہوتی ہے۔ ➌ واجب اعمال کی ادائیگی میں سستی بہت بڑا جرم ہے۔ ترک واجب پر دوام سے نیکی کی توفیق سلب ہو جاتی ہے، آدمی کے دل پر غفلت کے پردے چڑھ جاتے ہیں اور آدمی نیکی کو نیکی اور برائی کو برائی نہیں سمجھتا۔ أعادنا اللہ منه۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1370
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1052
´جمعہ چھوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔` ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (انہیں شرف صحبت حاصل تھا) وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص سستی سے تین جمعہ چھوڑ دے تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ۱؎۔“[سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1052]
1052۔ اردو حاشیہ: دل پر مہر لگ جانا بہت بڑی بدنصیبی محرومی اور سزا ہے کہ انسان نیکی اور خیر کی توفیق سے محروم ہو جاتا ہے اس لئے بندے کو فوراً اپنی اصلاح اور توبہ کرنی چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1052
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1125
´بغیر عذر کے جمعہ چھوڑنے والے کے بارے میں وارد وعید کا بیان۔` ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ (انہیں شرف صحبت حاصل ہے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تین جمعے سستی سے چھوڑ دئیے، اس کے دل پہ مہر لگ گئی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1125]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1)(تَھَاوُناً) کا لفظ ھَیِّنٌ سے تعلق رکھتا ہے۔ جس کا مطلب معمولی اور غیر اہم چیز ہے۔ انسان جس چیز کواہمیت نہیں دیتا۔ اس کی ادایئگی میں سستی اور کاہلی سے کام لیتا ہے۔ اس لئے اس لفظ کا ترجمہ سستی کرتے ہوئے بھی کیا جاتا ہے۔
(2) دل پر مہر لگ جانا بعض گناہوں کی سزا کے طور پر ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں دل خیر وشر میں امتیاز سے محروم ہوجاتا ہے۔ پھر ا س کو نیکی سے محبت اور بُرائی سے نفرت نہیں رہتی۔ جب دل کی بیماری اس درجہ تک پہنچ جائے۔ تو پھر ہدایت کی اُمید بہت ہی کم رہ جاتی ہے۔ مومن کو اس خطرناک مرحلے سے بچنے کے لئے نمازوں کاخاص طور پر جمعے کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1125