(مرفوع) حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك، عن سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكانما قرب بدنة، ومن راح في الساعة الثانية فكانما قرب بقرة، ومن راح في الساعة الثالثة فكانما قرب كبشا اقرن، ومن راح في الساعة الرابعة فكانما قرب دجاجة، ومن راح في الساعة الخامسة فكانما قرب بيضة، فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة يستمعون الذكر ". قال: وفي الباب عن عبد الله بن عمرو، وسمرة. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح (یعنی خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر نماز جمعہ کے لیے (پہلی گھڑی میں) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا، اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کر کے اللہ کا تقرب حاصل کیا، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، پھر جب امام خطبہ کے لیے گھر سے نکل آیا تو فرشتے ذکر سننے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
وضاحت: ۱؎: یعنی نام درج کرنے والا رجسٹر بند کر کے خطبہ سننے لگتے ہیں۔
من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة فإذا خرج الإمام حضرت الملا
من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة فإذا خرج الإمام حضرت الملا
من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة فإذا خرج الإمام حضرت الملا
من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا أقرن ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة فإذا خرج الإمام حضرت الملا
من اغتسل يوم الجمعة غسل الجنابة ثم راح فكأنما قرب بدنة ومن راح في الساعة الثانية فكأنما قرب بقرة ومن راح في الساعة الثالثة فكأنما قرب كبشا ومن راح في الساعة الرابعة فكأنما قرب دجاجة ومن راح في الساعة الخامسة فكأنما قرب بيضة فإذا خرج الإمام حضرت الملائكة ي
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 351
´جمعہ کے دن غسل کرنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح غسل کیا پھر (پہلی گھڑی میں) جمعہ کے لیے (مسجد) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو دوسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک گائے اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک سینگ دار مینڈھا اللہ کی راہ میں پیش کیا، جو چوتھی گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک مرغی اللہ کی راہ میں پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں پیش کیا، پھر جب امام (خطبہ کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے بھی آ جاتے ہیں اور ذکر (خطبہ) سننے لگتے ہیں۔“[سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 351]
351۔ اردو حاشیہ: ➊ تاخیر سے آنے والے کا جمعہ تو یقیناً ہو جاتا ہے مگر وہ مذکورہ فضیلت سے بالکل محروم رہتا ہے اور ملائکہ کے مخصوص صحیفوں میں اس کا اندراج نہیں ہوتا، خیال رہے کہ اس حدیث سے مرغی اور انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اس میں صرف تقرب اور ثواب کے لیے اللہ کی راہ میں بطور صدقہ و خیرات خرچ کرنا مراد ہے۔ ➋ وعظ و نصیحت کی مجلس جمعہ میں ہو یا عام اس میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 351
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1389
´جمعہ کے وقت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ (جمعہ میں شریک ہونے کے لیے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا، تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا، اور جو چوتھی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک انڈا پیش کیا، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آ جاتے ہیں، اور خطبہ سننے لگتے ہیں“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1389]
1389۔ اردو حاشیہ: ➊ ان ساعات یا اوقات سے مراد قبل از زوال کی وہ گھڑیاں ہیں جن کا آغاز سورج چڑھنے کے بعد ہوتا ہے جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔ اور یہی موقف دلائل کی رو سے درست ہے۔ واللہ أعلم۔ جس کی تفصیل گزشتہ حدیث [1386] کے فوائد میں گزر چکی ہے۔ ➋ باب کے عنوان سے لگتا ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کا موقف ممکن ہے یہ ہو کہ نماز جمعہ کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ سمیت اکثر اہل علم کا یہی مذہب ہے لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث سے اس مسئلے کا استنباط محل نظر ہے کیونکہ اس حدیث میں پانچ گھڑیوں کا ذکر ہے، اور پانچویں کے اختتام اور چھٹی گھڑی کے آغاز میں خروج امام کا ذکر ہے اور یہ قبل از زوال کا وقت ہے، اس طرح یہ حدیث ان اہل علم کی دلیل بنتی ہے جو قبل از زوال بھی نماز جمعہ کے قائل ہیں۔ ہاں اگر ان پانچ گھڑیوں کا شمار دوسری گھڑی سے ہو اور پہلی گھڑی غسل اور جمعے کی تیاری کے لیے ہو، جیسا کہ ابن حجر رحمہ اللہ نے توجیہ کی ہے تو پھر یہ حدیث قبل از زوال جمعہ کے موقف کے حاملین کی دلیل نہیں بنتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا مذکورہ حدیث سے استدلال تب محل نظر ہو گا جب احادیث میں «بطۃ» بطخ اور «عصفور»”چڑیا“ کا ذکر شاذ اور ضعیف تصور کیا جائے اور حق بھی یہی ہے کہ یہ دونوں اضافے ضعیف ہیں، لیکن اگر انہیں صحیح سمجھا جائے تو پھر مذکورہ اشکال وارد نہیں ہوتا کیونکہ اس صورت میں کل چھ گھڑیاں بنتی ہیں جس سے خطیب کا نکلنا ساتویں گھڑی کے آغاز میں لازم ٹھہرتا ہے اور یہ وقت بعد از زوال کا ہوتا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا یہ ذہن ہو سکتا ہے کیونکہ انہوں نے مذکورہ اضافات والی روایات کے بعد یہ عنوان قائم کیا ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1389
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1964
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کیا پھر مسجد چلا گیا تو اس نے گویا ایک اونٹ قربان کیا اور جو دوسری ساعت میں گیا تو گویا اس نے گائے قربان کی اور جو تیسری گھڑی میں گیا گو یا اس نے سینگوں والا ایک مینڈھا قربان کیا اور جو چوتھی ساعت میں گیا اس نے گویا ایک مرغ قربان کیا اور جو پانچویں گھڑی میں گیا اس نے گویا ایک انڈا صدقہ کیا کیونکہ جب امام نکل آتا ہے تو... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:1964]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: 1۔ جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کیا، سے مراد اکثر علماء کے نزدیک یہ ہے کہ غسل جنابت کی طرح پورے اہتمام سے اچھی طرح غسل کیا جائے لیکن بعض تابعین رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس سے مراد تعلقات کے بعد غسل کرنا مراد ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول یہی ہے۔ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کو ترجیح دی ہے۔ 2۔ الساعة الاولیٰ سے مراد نماز فجر یا طلوع شمس کے بعد کی ساعات ہیں کہ امام کے خطبہ جمعہ کے لیے آنے تک کے وقت کو فجر سے شروع کر کے پانچ حصوں میں تقسیم کیا جائےگا۔ پہلےحصہ میں آنے والے اس قدر ثواب حاصل کریں گے۔ گویا کہ انہوں نے اونٹ قربان کیا ہے۔ اس طرح دوسرے حصے میں آنے والے بقرہ کے صدقہ کا ثواب پائیں گے اور ساعات کے ابتداء اور انتہاء اس طرح درمیان کے اعتبار سے یہ جانور بھی قدوقامت اور چھوٹے بڑے ہونے میں منقسم ہوں گے یعنی جو پہلی ساعت کے آغاز میں آئے گا اس کا اونٹ قدوقامت اور قیمت میں زیادہ ہو گا اور اس ساعت کے آخر میں آنےوالے کا اونٹ قدوقامت اور قیمت میں کم ہو گا۔ جمہور علماء کا یہی موقف ہے۔ لیکن امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ پانچ ساعات سورج ڈھلنے سے لے کر امام کی آمد تک شمار ہوں گی متأخرین میں سے امام ابوالحسن سندھی اور امام محمد حیات سندھی نے اسی موقف کو اختیار کیا ہے لیکن دلائل کی رو سے جمہور کا موقف مضبوط ہے۔ 3۔ امام کی آمد کے بعد فضیلت والا ثواب ختم ہو جاتا ہے صرف جمعہ کا ثواب حسب آمد ملتا ہے کیونکہ خطیب کی آمد پر زائد ثواب کا رجسٹر بند ہو جاتا ہے۔ اور اس کے حامل فرشتے خطبہ کے سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1964
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 881
881. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح (اہتمام سے) غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:881]
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں ثواب کے پانچ درجے بیان کئے گئے ہیں جمعہ میں حاضری کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے اور سب سے پہلا ثواب اسی کو ملے گا جو اول وقت جمعہ کے لیے مسجد میں آجائے۔ سلف امت کا اسی پر عمل تھا کہ وہ جمعہ کے دن صبح سویرے مسجد میں چلے جاتے اور نماز کے بعد گھر جاتے، پھر کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے۔ دوسری احادیث میں ہے کہ جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو ثواب لکھنے والے فرشتے بھی مسجد میں آجاتے اور سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ مرغ کے ساتھ انڈے کا بھی ذکر ہے اسے حقیقت پر محمول کیا جائے تو انڈے کی بھی حقیقی قربانی جا ئز ہوگی جس کا کوئی بھی قائل نہیں۔ ثابت ہو اکہ یہاں مجازاً قربانی کا لفظ بولاگیا ہے جو تقرب الی اللہ کے معنی میں ہے (کما سیاتي)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 881
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:881
881. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص جمعہ کے دن غسل جنابت کی طرح (اہتمام سے) غسل کرے، پھر نماز کے لیے جائے تو گویا اس نے ایک اونٹ کی قربانی دی۔ جو شخص دوسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے گائے کی قربانی کی۔ اور جو شخص تیسری گھڑی میں جائے تو گویا اس نے سینگ دار مینڈھا بطور قربانی پیش کیا۔ جو چوتھی گھڑی میں جائے تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کیا۔ اور جو پانچویں گھڑی میں جائے تو اس نے گویا ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا۔ پھر جب امام خطبے کے لیے آ جاتا ہے تو فرشتے خطبہ سننے کے لیے مسجد میں حاضر ہو جاتے ہیں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:881]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں امام بخاری ؒ نے خطبے کے لیے پہلے پہل آنے والوں کی فضیلت کو بیان کیا ہے لیکن اس میں اختلاف ہے کہ فضیلت کا وقت صبح ہی سے شروع ہو جاتا ہے یا زوال آفتاب کے بعد جب نماز جمعہ کا وقت شروع ہوتا ہے، چنانچہ امام مالکؒ بعد زوال کے قائل ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم نے تعامل اہل مدینہ اس کے موافق نہیں پایا بلکہ وہ زوال کے بعد مسجد میں آتے تھے۔ اس کے علاوہ لفظ راح، رواح سے مشتق ہے جس کے معنی زوال کے بعد چلنے کے ہیں جبکہ جمہور اہل علم نے اس موقف سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کا استدلال تعامل سلف ہے کہ یہ حضرات صبح ہی سے مسجد میں آنا شروع کر دیتے تھے اور فراغت کے بعد واپس جا کر دوپہر کا کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے، نیز لغت عرب میں رواح کے معنی مطلق جانے کے بھی آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ممکن ہے کہ اہل مدینہ اپنی ضروریات و مشاغل کی وجہ سے صبح سویرے جمعے کے لیے نہ آتے ہوں، اس لیے ایسے حالات میں تعامل اہل مدینہ کو پیش کرنا صحیح نہیں۔ (2) واضح رہے کہ بعض حضرات نے اس حدیث سے مرغی کی قربانی دینے کا مسئلہ بھی کشید کیا ہے، حالانکہ یہاں قربانی کے مسائل بیان نہیں ہوئے بلکہ فضیلت کے مختلف مراتب سمجھانے کے لیے جانوروں کی قربانی کے اعلیٰ اور ادنیٰ مراتب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ علمائے امت میں سے کسی نے بھی اس حدیث سے قربانی کا مسئلہ کشید نہیں کیا اور نہ اس کے متعلق کوئی امت کا تعامل پیش کیا جا سکا ہے۔ اگر اس قسم کے اجتہاد پر اصرار ہے تو حدیث میں تو انڈے کا بھی ذکر ہے تو اس کی قربانی بھی جائز ہونی چاہیے۔ واللہ أعلم۔ (3) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جمعے کے دن غسل جنابت کر کے مسجد میں آنے والے کو مذکورہ فضیلت ملتی ہے، یعنی جمعہ کے دن پہلے بیوی سے ہم بستری کرے پھر غسل کر کے جلدی مسجد میں آئے۔ علامہ نووی نے اس مفہوم کو غلط قرار دیا ہے لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ اس مفہوم کو غلط قرار دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کیونکہ جمعے کا دن اجتماع کا دن ہوتا ہے۔ اس کے لیے بازاروں سے گزر کر مسجد میں آنا ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ کسی عورت پر نظر پڑ جائے پھر وہ بدنظری کا مرتکب ہو۔ اس سے محفوظ رہنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہ اس قسم کے اسباب و خیالات سے فارغ ہو جائے کیونکہ جب ہم بستری سے فارغ ہو کر غسل جنابت کیا ہو گا تو طبیعت میں آسودگی اور سکون ہو گا۔ اس سے ہیجانی کیفیت پیدا ہو گی نہ بدنظری کا شکار ہو گا، اس لیے اس مفہوم کو کسی صورت غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔ (فتح الباري: 471/2)(4) اس حدیث کی عنوان سے بایں طور مطابقت ہے کہ جمعہ کی ادائیگی گویا بدنی اور مالی عبادات کو بجا لانا ہے کیونکہ ذاتی طور پر نماز جمعہ ایک بدنی عبادت ہے لیکن اس کے لیے پہلے پہلے آنے والے کو اونٹ، گائے، بکری وغیرہ ذبح کرنے کا ثواب بھی ملتا ہے، چنانچہ جانوروں کو اللہ کی راہ میں ذبح کرنا مالی عبادت ہے اس طرح نماز جمعہ ادا کرنے سے انسان کو بدنی اور مالی دونوں عبادات کا ثواب ملتا ہے۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو دیگر نمازوں کی ادائیگی سے حاصل نہیں ہوتی۔ (عمدة القاري: 18/5)(4) حدیث میں وارد ساعات سے مراد مختصر لمحات ہیں جو زوال آفتاب سے لے کر خطیب کے منبر پر بیٹھنے تک ہیں یا ان سے مراد حقیقی ساعات ہیں جن کا آغاز طلوع آفتاب سے شروع ہوتا ہے؟ امام ابن دقیق العید رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان سے معروف ساعات مراد لینا زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ اس حدیث میں پانچ ساعات کا ذکر ہے لیکن ایک روایت میں چھٹی گھڑی بھی بیان ہوئی ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث: 1388،اس میں چڑیا کا ذکر ہے لیکن یہ الفاظ منکر ہیں۔ قاله الألباني) ایک دوسری روایت میں جمعہ کی بارہ گھڑیوں کا بھی ذکر ہے۔ (سنن النسائي، الجمعة، حدیث: 1390،وسنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1048) ٭ دن کی بارہ گھڑیوں کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭الشروق٭البكور٭العدوة٭الضحی٭الهاجرة٭ الطهيرة٭الرواح٭العصر٭القصر٭الأصيل٭العشي٭العروب٭ رات کی بارہ گھڑیاں مندرجہ ذیل ہیں: ٭الشفق٭العسق٭العثمة٭السدقة٭الجهمة٭الزلة٭الرلغة٭البهرة٭السحر٭الفجر٭الصبح٭الصباح-
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 881