ويروى عن عبدالله بن المبارك قال: كان سفيان الثوري يقول: كان عبدالملك بن ابي سليمان ميزانا في العلم.وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ قَالَ: كَانَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ يَقُولُ: كَانَ عَبْدُالْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُليْمَانَ مِيزَانًا فِي الْعِلْمِ.
عبداللہ بن المبارک سے روایت ہے کہ سفیان ثوری کہتے تھے: عبدالملک بن ابی سلیمان علم کی میزان ہیں۔
حدثنا ابو بكر، عن علي بن عبدالله قال: سالت يحيى بن سعيد، عن حكيم بن جبير فقال: تركه شعبة من اجل الحديث الذي رواه في الصدقة يعني حديث عبدالله بن مسعود عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من سال الناس وله ما يغنيه كان يوم القيامة خموشا في وجهه، قيل: يا رسول الله! وما يغنيه؟ قال:"خمسون درهما او قيمتها من الذهب".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِاللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ فَقَالَ: تَرَكَهُ شُعْبَةُ مِنْ أَجْلِ الْحَدِيثِ الَّذِي رَوَاهُ فِي الصَّدَقَةِ يَعْنِي حَدِيثَ عَبْدِاللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"مَنْ سَأَلَ النَّاسَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ خُمُوشًا فِي وَجْهِهِ، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! وَمَا يُغْنِيهِ؟ قَالَ:"خَمْسُونَ دِرْهَمًا أَوْ قِيمَتُهَا مِنْ الذَّهَبِ".
علی بن المدینی کہتے ہیں: میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے حکیم بن جبیر کے بارے میں سوال کیا تو کہا: صدقہ والی حدیث کی روایت کی وجہ سے شعبہ نے ان سے روایت ترک کر دی، یعنی ابن مسعود کی حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جس نے سوال کیا اور اس کے پاس موجود مال اس کو دوسروں سے بے نیاز کر دینے والا ہے، تو وہ قیامت کے دن ایسے ہو گا کہ اس کے چہرہ پر خراش ہو گی، کہا گیا: اللہ کے رسول! اسے کون سی چیز دوسروں سے بے نیاز کرے گی؟ فرمایا: پچاس درہم (چاندی کے) یا اس قیمت کا سونا۔“
قال علي: قال يحيى: وقد حدث عن حكيم بن جبير سفيان الثوري، وزائدة.قَالَ عَلِيٌّ: قَالَ يَحْيَى: وَقَدْ حَدَّثَ عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَزَائِدَةُ.
علی بن المدینی سے روایت ہے کہ یحییٰ بن سعید القطان کہتے ہیں: سفیان ثوری اور زائدہ نے حکیم بن جبیر سے روایت کی ہے۔
حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا يحيى بن آدم، عن سفيان الثوري، عن حكيم بن جبير بحديث الصدقة.حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ بِحَدِيثِ الصَّدَقَةِ.
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ان سے یحییٰ بن آدم نے، یحییٰ نے سفیان ثوری سے روایت کی، وہ کہتے ہیں کہ حکیم بن جبیر نے صدقہ والی حدیث روایت کی۔
قال يحيى بن آدم: قال عبدالله بن عثمان صاحب شعبة لسفيان الثوري: لو غير حكيم حدث بهذا؟ فقال له سفيان: وما لحكيم لا يحدث عنه شعبة؟ قال: نعم، فقال سفيان الثوري: سمعت زبيدا يحدث بهذا عن محمد بن عبدالرحمن بن يزيد.قَالَ يَحْيَى بْنُ آدَمَ: قَالَ عَبْدُاللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ صَاحِبُ شُعْبَةَ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ: لَوْ غَيْرُ حَكِيمٍ حَدَّثَ بِهَذَا؟ فَقَالَ لَهُ سُفْيَانُ: وَمَا لِحَكِيمٍ لا يُحَدِّثُ عَنْهُ شُعْبَةُ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ: سَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ بِهَذَا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ.
یحیی بن آدم کہتے ہیں: شعبہ کے شاگرد عبداللہ بن عثمان نے سفیان ثوری سے کہا: اگر صدقہ والی حدیث حکیم بن جبیر کے علاوہ کسی اور نے روایت کی ہوتی تو کیا حکم ہوتا؟۔ سفیان ثوری نے جواب دیا: حکیم کو کیا ہو گیا کہ شعبہ نے ان سے روایت نہیں کی؟ عبداللہ بن عثمان نے کہا: ہاں! (ایسے ہی ہے، شعبہ نے حکیم سے روایت نہیں کی) تو سفیان ثوری نے کہا: میں نے زبید کو یہ حدیث محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید سے روایت کرتے ہوئے سنا ہے۔
قال ابو عيسى: وما ذكرنا في هذا الكتاب"حديث حسن"؛ فإنما اردنا به حسن إسناده عندنا.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَمَا ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ"حَدِيثٌ حَسَنٌ"؛ فَإِنَّمَا أَرَدْنَا بِهِ حُسْنَ إِسْنَادِهِ عِنْدَنَا.
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم نے اس کتاب میں جس حدیث کو ”حسن“ کہا ہے اس سے ہماری مراد اس کی سند کا ”حسن“ ہونا ہے۔
كل حديث يروى لا يكون في إسناده من يتهم بالكذب، ولا يكون الحديث شاذا، ويروى من غير وجه نحو ذاك؛ فهو عندنا حديث حسن.كُلُّ حَدِيثٍ يُرْوَى لا يَكُونُ فِي إِسْنَادِهِ مَنْ يُتَّهَمُ بِالْكَذِبِ، وَلا يَكُونُ الْحَدِيثُ شَاذًّا، وَيُرْوَى مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ نَحْوَ ذَاكَ؛ فَهُوَ عِنْدَنَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ہر وہ حدیث جس کی سند میں متہم بالکذب راوی نہ ہو اور نہ وہ شاذ ہو اور وہ دوسرے طرق سے مروی ہو تو یہ ہمارے نزدیک ”حسن“ ہے ۱؎۔
وما ذكرنا في هذا الكتاب"حديث غريب" فإن اهل الحديث يستغربون الحديث لمعان:وَمَا ذَكَرْنَا فِي هَذَا الْكِتَابِ"حَدِيثٌ غَرِيبٌ" فَإِنَّ أَهْلَ الْحَدِيثِ يَسْتَغْرِبُونَ الْحَدِيثَ لِمَعَانٍ:
اور ہم نے اس کتاب میں جن احادیث کو ”غریب“ کہا ہے تو اہل حدیث کے نزدیک ”غریب حدیث“ کے مختلف معانی ہیں:
1- رب حديث يكون غريبا لا يروى إلا من وجه واحد مثل حديث حماد بن سلمة عن ابي العشرائ عن ابيه قال: قلت يا رسول الله! اما تكون الذكاة إلا في الحلق واللبة؟ فقال:"لو طعنت في فخذها اجزا عنك".1- رُبَّ حَدِيثٍ يَكُونُ غَرِيبًا لا يُرْوَى إِلا مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ مِثْلُ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَمَا تَكُونُ الذَّكَاةُ إِلا فِي الْحَلْقِ وَاللِّبَّةِ؟ فَقَالَ:"لَوْ طَعَنْتَ فِي فَخِذِهَا أَجْزَأَ عَنْكَ".
۱- کبھی حدیث کی غرابت یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف ایک سند سے مروی ہوتی ہے جیسے حماد بن سلمہ کی حدیث جس کو وہ ابوالعشرا ء سے روایت کرتے ہیں، اور وہ اپنے باپ سے، عشراء کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول: کیا ذبح کی جگہ صرف حلق اور گردن ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم اس کی ران میں زخم لگاؤ گے تو یہ بھی کافی ہو گا۔“
فهذا حديث تفرد به حماد بن سلمة، عن ابي العشرائ، ولا يعرف لابي العشرائ، عن ابيه إلا هذا الحديث، وإن كان هذا الحديث مشهورا عند اهل العلم؛ وإنما اشتهر من حديث حماد بن سلمة، لا نعرفه إلا من حديثه.فَهَذَا حَدِيثٌ تَفَرَّدَ بِهِ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْعُشَرَائِ، وَلا يُعْرَفُ لأَبِي الْعُشَرَائِ، عَنْ أَبِيهِ إِلا هَذَا الْحَدِيثُ، وَإِنْ كَانَ هَذَا الْحَدِيثُ مَشْهُورًا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ؛ وَإِنَّمَا اشْتُهِرَ مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ.
حماد بن سلمہ اس حدیث کی ابوالعشراء سے روایت میں منفرد ہیں، ابوالعشراء کی اپنے والد سے صرف یہی ایک حدیث معروف ہے، گرچہ اہل علم کے نزدیک یہ حدیث مشہور ہے، اور یہ صرف حماد بن سلمہ کی حدیث سے مشہور ہے، ہمیں اس کا علم صرف انہیں کی حدیث سے ہے۔
2-ورب رجل من الائمة يحدث بالحديث لا يعرف إلا من حديثه، فيشتهر الحديث لكثرة من روى عنه مثل ما روى عبد الله بن دينار، عن ابن عمر"ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن بيع الولائ وعن هبته". وهذا حديث لا نعرفه إلا من حديث عبدالله بن دينار، رواه عنه عبيد الله بن عمر، وشعبة، وسفيان الثوري، ومالك بن انس، وابن عيينة، وغير واحد من الائمة.2-وَرُبَّ رَجُلٍ مِنْ الأَئِمَّةِ يُحَدِّثُ بِالْحَدِيثِ لا يُعْرَفُ إِلا مِنْ حَدِيثِهِ، فَيَشْتَهِرُ الْحَدِيثُ لِكَثْرَةِ مَنْ رَوَى عَنْهُ مِثْلُ مَا رَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلائِ وَعَنْ هِبَتِهِ". وَهَذَا حَدِيثٌ لا نَعْرِفُهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، رَوَاهُ عَنْهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَشُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَابْنُ عُيَيْنَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ.
۲- اور کبھی کوئی امام حدیث ایک حدیث روایت کرتا ہے، جو صرف اسی امام کی حدیث سے معروف ہوتی ہے، اور حدیث کی شہرت اس سے روایت کرنے والوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے، جیسے عبداللہ بن دینار کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کی خرید و فروخت اور ہبہ سے منع کیا ہے، اس حدیث کو ہم صرف عبداللہ بن دینار ہی کی روایت سے جانتے ہیں، اور ان سے روایت عبیداللہ بن عمر، شعبہ، سفیان ثوری، مالک بن انس، سفیان بن عیینہ اور دوسرے کئی ائمہ نے کی ہے۔
وروى يحيى بن سليم هذا الحديث عن عبيدالله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر؛ فوهم فيه يحيى بن سليم، والصحيح هو"عن عبيدالله بن عمر، عن عبدالله بن دينار، عن ابن عمر". هكذا روى عبد الوهاب الثقفي، وعبدالله بن نمير، عن عبيدالله بن عمر عن عبدالله بن دينار، عن ابن عمر، وروى المؤمل هذا الحديث عن شعبة فقال شعبة: لوددت ان عبد الله بن دينار اذن لي حتى كنت اقوم إليه فاقبل راسه.وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ؛ فَوَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، وَالصَّحِيحُ هُوَ"عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ". هَكَذَا رَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَعَبْدُاللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَرَوَى الْمُؤَمِّلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ شُعْبَةَ فَقَالَ شُعْبَةُ: لَوَدِدْتُ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ دِينَارٍ أَذِنَ لِي حَتَّى كُنْتُ أَقُومُ إِلَيْهِ فَأُقَبِّلُ رَأْسَهُ.
یحیی بن سلیم نے اس حدیث کی روایت بسند «عبیداللہ بن عمر عن نافع عن ابن عمر» کی ہے، یحییٰ بن سلیم کو اس روایت میں وہم ہو گیا ہے، صحیح بسند «عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر» ہی ہے۔ ایسے ہی اس حدیث کی روایت عبدالوہاب ثقفی اور عبداللہ بن نمیر نے بسند «عبیداللہ بن عمر عن عبداللہ بن دینار عن ابن عمر» کی ہے۔ مؤمل نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے کی ہے، شعبہ کہتے ہیں: مجھے یہ پسند ہے کہ عبداللہ بن دینار مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے پاس اٹھ کر آؤں اور ان کا سر چوم لوں۔
وإنما يصح إذا كانت الزيادة ممن يعتمد على حفظه مثل ما روى مالك بن انس، عن نافع، عن ابن عمر قال:"فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر من رمضان على كل حر او عبد ذكر او انثى من المسلمين صاعا من تمر او صاعا من شعير".وَإِنَّمَا يَصِحُّ إِذَا كَانَتْ الزِّيَادَةُ مِمَّنْ يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ مِثْلُ مَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:"فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى كُلِّ حُرٍّ أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثَى مِنْ الْمُسْلِمِينَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
الفاظ کی زیادتی اس وقت صحیح ہو گی جب یہ حفظ کے اعتبار سے قابل اعتماد راوی کی روایت سے ہو جیسے مالک بن انس کی بسند «نافع عن ابن عمر» روایت کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں زکاۃ فطر ہر مسلمان آزاد اور غلام مرد اور عورت سب پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض ہے۔
وروى ايوب السختياني، وعبيد الله بن عمر، وغير واحد من الائمة هذا الحديث عن نافع، عن ابن عمر. ولم يذكروا فيه:"من المسلمين".وَرَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ:"مِنْ الْمُسْلِمِينَ".
ایوب سختیانی، عبیداللہ بن عمر اور کئی ائمہ حدیث نے اس حدیث کو بسند «نافع عن ابن عمر» روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اس میں «من المسلمین» کا لفظ نہیں ذکر کیا۔
وقد روى بعضهم عن نافع مثل رواية مالك ممن لا يعتمد على حفظه.وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ عَنْ نَافِعٍ مِثْلَ رِوَايَةِ مَالِكٍ مِمَّنْ لا يُعْتَمَدُ عَلَى حِفْظِهِ.
بعض رواۃ نے نافع سے مالک کی روایت کے ہم مثل روایت کی، جو حفظ میں قابل اعتماد نہیں ہیں۔
وقد اخذ غير واحد من الائمة بحديث مالك، واحتجوا به، منهم: الشافعي، واحمد بن حنبل قالا: إذا كان للرجل عبيد غير مسلمين لم يؤد عنهم صدقة الفطر، واحتجا بحديث مالك.وَقَدْ أَخَذَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ الأَئِمَّةِ بِحَدِيثِ مَالِكٍ، وَاحْتَجُّوا بِهِ، مِنْهُمْ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ قَالا: إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَبِيدٌ غَيْرُ مُسْلِمِينَ لَمْ يُؤَدِّ عَنْهُمْ صَدَقَةَ الْفِطْرِ، وَاحْتَجَّا بِحَدِيثِ مَالِكٍ.
کئی ائمہ حدیث نے مالک کی حدیث پر اعتماد کیا ہے جن میں شافعی اور احمد بن حنبل ہیں، یہ دونوں کہتے ہیں کہ آدمی کے پاس اگر غیر مسلم غلام ہوں تو ان کی طرف سے زکاۃ فطر نہیں نکالے گا۔ اور اس پر مالک کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
حدثنا ابو كريب، وابو هشام الرفاعي، وابو السائب، والحسين بن الاسود قالوا: حدثنا ابو اسامة، عن بريد بن عبدالله بن ابي بردة، عن جده ابي بردة، عن ابي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"الكافر ياكل في سبعة امعائ، والمؤمن ياكل في معى واحد".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو هِشَامٍ الرِّفَاعِيُّ، وَأَبُو السَّائِبِ، وَالْحُسَيْنُ بْنُ الأَسْوَدِ قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِاللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"الْكَافِرُ يَأْكُلُ فِي سَبْعَةِ أَمْعَائٍ، وَالْمُؤْمِنُ يَأْكُلُ فِي مِعًى وَاحِدٍ".
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے ابوکریب، ابوہشام رفاعی، ابوالسائب، حسین بن الاسود نے روایت کی وہ کہتے ہیں کہ ہم سے ابواسامہ نے روایت کی، ابواسامہ بسند «برید بن عبداللہ بن ابی بردة عن جدہ ابی بردة» روایت کرتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے، اور کافر سات آنت میں“۱؎۔
وقد روي من غير وجه عن النبي صلى الله عليه وسلم، وإنما يستغرب من حديث ابي موسى.وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ أَبِي مُوسَى.
سالت محمود بن غيلان عن هذا الحديث؟ فقال: هذا حديث ابي كريب عن ابي اسامة.سَأَلْتُ مَحْمُودَ بْنَ غَيْلانَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثُ أَبِي كُرَيْبٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ.
ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس حدیث کے بارے میں محمود بن غیلان سے پوچھا تو انہوں کہا: یہ صرف بروایت ابوکریب، ابواسامہ سے مروی ہے۔