وسالت محمد بن إسماعيل عن هذا الحديث؟ فقال: هذا حديث ابي كريب عن ابي اسامة، لم نعرفه إلا من حديث ابي كريب، عن ابي اسامة. فقلت له: حدثنا غير واحد عن ابي اسامة بهذا؛ فجعل يتعجب، وقال: ما علمت ان احدا حدث بهذا غير ابي كريب.وَسَأَلْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ؟ فَقَالَ: هَذَا حَدِيثُ أَبِي كُرَيْبٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، لَمْ نَعْرِفْهُ إِلا مِنْ حَدِيثِ أَبِي كُرَيْبٍ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ. فَقُلْتُ لَهُ: حَدَّثَنَا غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ بِهَذَا؛ فَجَعَلَ يَتَعَجَّبُ، وَقَالَ: مَا عَلِمْتُ أَنَّ أَحَدًا حَدَّثَ بِهَذَا غَيْرَ أَبِي كُرَيْبٍ.
ترمذی کہتے ہیں: میں نے بخاری سے اس حدیث کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: یہ حدیث بروایت ابوکریب ابواسامہ مروی ہے، یہ ہمیں صرف اسی طریق سے معلوم ہے، تو میں نے کہا: اس حدیث کو مجھ سے کئی آدمیوں نے بیان کیا وہ اس کی روایت ابواسامہ سے کرتے ہیں، تو آپ تعجب کرنے لگے، اور عرض کیا کہ ابوکریب کے علاوہ میرے علم کے مطابق اس حدیث کی روایت کسی اور نے نہیں کی ہے۔
و قال محمد: كنا نرى ان ابا كريب اخذ هذا الحديث عن ابي اسامة في المذاكرة.و قَالَ مُحَمَّدٌ: كُنَّا نَرَى أَنَّ أَبَا كُرَيْبٍ أَخَذَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي أُسَامَةَ فِي الْمُذَاكَرَةِ.
بخاری کہتے ہیں: ہمارے خیال میں ابوکریب نے اس حدیث کو ابواسامہ سے مذاکرہ کے دوران لیا ہے۔
حدثنا عبد الله بن ابي زياد وغير واحد قالوا: حدثنا شبابة بن سوار، حدثنا شعبة، عن بكير بن عطائ، عن عبد الرحمن بن يعمر ان النبي صلى الله عليه وسلم نهى عن الدبائ والمزفت.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ وَغَيْرُ وَاحِدٍ قَالُوا: حَدَّثَنَا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الدُّبَّائِ وَالْمُزَفَّتِ.
ترمذی کہتے ہیں: عبداللہ بن ابی زیاد اور کئی دوسرے رواۃ نے ہم سے بیان کیا کہ ہم سے شبابہ بن سوار نے بیان کیا، شبابہ کہتے ہیں کہ ہم سے شعبہ نے اور شعبہ نے بکیر بن عطاء سے اور بکیر عبدالرحمٰن بن یعمر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء (تونبی) اور مزفت (تارکول) والے برتن کے استعمال سے منع کیا ہے۔
قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من قبل إسناده، لا نعلم احدا حدث به عن شعبة غير شبابة.قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ قِبَلِ إِسْنَادِهِ، لا نَعْلَمُ أَحَدًا حَدَّثَ بِهِ عَنْ شُعْبَةَ غَيْرَ شَبَابَةَ.
ترمذی کہتے ہیں: اس سند سے یہ حدیث غریب ہے، ہمارے علم میں شبابہ کے علاوہ کسی اور نے اس حدیث کی روایت شعبہ سے نہیں کی ہے، جب کہ بہت سارے طرق سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء (تونبی) اور مزفت (تارکول) کے برتن میں نبیذ بنانے سے منع کیا ہے، شبابہ کی حدیث میں غرابت یہ ہے کہ وہ اس حدیث کی شعبہ سے روایت میں منفرد ہیں۔
وقد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم من اوجه كثيرة انه نهى ان ينتبذ في الدبائ، والمزفت وحديث شبابة إنما يستغرب لانه تفرد به عن شعبة، وقد روى شعبة وسفيان الثوري بهذا الإسناد عن بكير بن عطائ عن عبدالرحمن بن يعمر عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:"الحج عرفة" فهذا الحديث المعروف عند اهل الحديث بهذا الإسناد.وَقَدْ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُنْتَبَذَ فِي الدُّبَّائِ، وَالْمُزَفَّتِ وَحَدِيثُ شَبَابَةَ إِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ لأَنَّهُ تَفَرَّدَ بِهِ عَنْ شُعْبَةَ، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ وَسُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ بِهَذَا الإِسْنَادِ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَائٍ عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:"الْحَجُّ عَرَفَةُ" فَهَذَا الْحَدِيثُ الْمَعْرُوفُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ بِهَذَا الإِسْنَادِ.
شعبہ اور سفیان ثوری نے اس اسناد سے بسند «بکر بن عطاء عبدالرحمٰن» یعمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حج عرفہ ہے۔“ یہ حدیث اہل حدیث کے یہاں اسی سند سے معروف ہے ۱؎۔
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا معاذ بن هشام، حدثني ابي، عن يحيى بن ابي كثير، حدثني ابو مزاحم انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من تبع جنازة فصلى عليها؛ فله قيراط، ومن تبعها حتى يقضى قضاؤها؛ فله قيراطان" قالوا: يا رسول الله! ما القيراطان؟ قال:"اصغرهما مثل احد".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو مُزَاحِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَصَلَّى عَلَيْهَا؛ فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّى يُقْضَى قَضَاؤُهَا؛ فَلَهُ قِيرَاطَانِ" قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ! مَا الْقِيرَاطَانِ؟ قَالَ:"أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ".
ترمذی کہتے: ہیں ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، محمد بن بشار سے معاذ بن ہشام نے، معاذ نے اپنے والد ہشام سے، اور ہشام نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، یحییٰ سے ابومزاحم نے، ابومزاحم کہتے ہیں کہ انہوں نے ابوہریرہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”جو جنازے کے پیچھے چلا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی تو اسے ایک قیراط ثواب ملے گا، اور جو جنازہ کے پیچھے آخر تک چلا حتیٰ کہ وہ دفنا دیا گیا تو اسے دو قیراط ثواب ملے گا، لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! دو قیراط کیا ہے: فرمایا: ”دونوں میں کا چھوٹا احد پہاڑ کے برابر ہے۔“
حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا مروان بن محمد، عن معاوية بن سلام، حدثني يحيى بن ابي كثير، حدثنا ابو مزاحم سمع ابا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من تبع جنازة فله قيراط..." فذكر نحوه بمعناه.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلامٍ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُزَاحِمٍ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَلَهُ قِيرَاطٌ..." فَذَكَرَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ.
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے دارمی نے بیان کیا، اور دارمی سے مروان بن محمد نے اور مروان سے معاویہ بن سلام نے اور معاویہ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، اور یحییٰ ابومزاحم سے روایت کرتے ہیں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو جنازہ کے پیچھے چلا تو اس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے ...“، سابقہ حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
قال عبد الله: واخبرنا مروان عن معاوية بن سلام قال: قال يحيى: وحدثني ابوسعيد مولى المهري، عن حمزة بن سفينة، عن السائب سمع عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه.قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَأَخْبَرَنَا مَرْوَانُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلامٍ قَالَ: قَالَ يَحْيَى: وَحَدَّثَنِي أَبُوسَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ سَفِينَةَ، عَنْ السَّائِبِ سَمِعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
دارمی کہتے ہیں: ہم سے مروان نے بیان کیا وہ معاویہ بن سلام سے روایت کرتے ہیں کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: اور ہم سے ابوسعید مولی المہری نے بیان کیا وہ حمزہ بن سفینہ سے روایت کرتے ہیں، اور حمزہ بن سفینہ سائب بن یزید سے روایت کرتے ہیں کہ سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اور سابقہ حدیث کی طرح حدیث بیان کی۔
قلت لابي محمد عبدالله بن عبدالرحمن: ما الذي استغربوا من حديثك بالعراق؟ فقال: حديث السائب، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم فذكر هذا الحديث.قُلْتُ لأَبِي مُحَمَّدٍ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ: مَا الَّذِي اسْتَغْرَبُوا مِنْ حَدِيثِكَ بِالْعِرَاقِ؟ فَقَالَ: حَدِيثَ السَّائِبِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ.
ترمذی کہتے ہیں: میں نے دارمی سے پوچھا: کیا کہ عراق میں آپ کی کس حدیث کو لوگوں نے غریب قرار دیا تو جواب دیا: سائب کی عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی یہ حدیث کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر حدیث ذکر کی۔
و سمعت محمد بن إسماعيل يحدث بهذا الحديث عن عبد الله بن عبدالرحمن.و سَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيلَ يُحَدِّثُ بِهَذَا الْحَدِيثِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِالرَّحْمَنِ.
ترمذی کہتے ہیں: اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے سنا وہ اس حدیث کی روایت دارمی سے کر رہے تھے۔
قال ابو عيسى: وهذا حديث قد روي من غير وجه، عن عائشة رضي الله عنها عن النبي صلى الله عليه وسلم.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث کئی طرق سے بسند «عائشہ رضی اللہ عنہا» مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
وإنما يستغرب هذا الحديث لحال إسناده لرواية السائب، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.وَإِنَّمَا يُسْتَغْرَبُ هَذَا الْحَدِيثُ لِحَالِ إِسْنَادِهِ لِرِوَايَةِ السَّائِبِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس حدیث میں غرابت صرف سند کے اعتبار سے ہے کہ اسے سائب نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔
حدثنا ابو حفص عمرو بن علي، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا المغيرة بن ابي قرة السدوسي، قال: سمعت انس بن مالك رضي الله عنه يقول: قال رجل: يا رسول الله! اعقلها، واتوكل او اطلقها واتوكل؟ قال:"اعقلها وتوكل".حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا الْمُغْيرَةُ بْنُ أَبِي قُرَّةَ السَّدُوسِيُّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَعْقِلُهَا، وَأَتَوَكَّلُ أَوْ أُطْلِقُهَا وَأَتَوَكَّلُ؟ قَالَ:"اعْقِلْهَا وَتَوَكَّلْ".
ترمذی کہتے ہیں: ہم سے ابوحفص عمرو بن علی الفلاس نے بیان کیا وہ کہتے ہیں: ہم سے یحییٰ بن سعید القطان نے بیان کیا، یحییٰ القطان کہتے ہیں کہ ہم مغیرہ بن ابی قرہ سدوسی نے بیان کیا، مغیرہ کہتے ہیں: میں نے انس مالک کو کہتے سنا کہ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اونٹنی باندھ لوں اور اللہ پر توکل کروں، یا اونٹنی چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: ”اونٹنی باندھ لو، پھر اللہ پر توکل کرو۔“
قال ابو عيسى: وهذا حديث غريب من هذا الوجه، لا نعرفه من حديث انس بن مالك إلا من هذا الوجه. وقد روي عن عمرو بن امية الضمري، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحو هذا.قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، لا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ إِلا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے غریب ہے، ہمیں انس کی حدیث سے صرف اسی طریق کا علم ہے، اس طرح کی حدیث عمرو بن امیہ الضمری سے مرفوعاً مروی ہے۔
وقد وضعنا هذا الكتاب على الاختصار لما رجونا فيه من المنفعة، نسال الله النفع بما فيه، وان يجعله لنا حجة برحمته، وان لايجعله علينا وبالا برحمته آمين.وَقَدْ وَضَعْنَا هَذَا الْكِتَابَ عَلَى الاخْتِصَارِ لِمَا رَجَوْنَا فِيهِ مِنْ الْمَنْفَعَةِ، نسأل اللهَ النفعَ بِمَا فِيهِ، وَأَنْ يَجْعَلَهُ لنَا حُجةً برحمتِهِ، وَأَنْ لايَجْعَلَهُ عَلَيْنَا وَبَالا بِرَحْمَتِهِ آمِينَ.
ترمذی کہتے ہیں: ہم نے یہ کتاب ”سنن الترمذی“ مختصراً فائدہ کی امید سے مرتب کی ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس سے نفع ہو، اس کو ہمارے لیے اپنی رحمت سے نفع بخش بنائے اور اپنی ہی رحمت سے اس کو ہمارے حق میں وبال جان نہ بنائے، آمین۔
(۱) سنن الترمذی (۱۸۷)( «وَلا سَفَرٍ» کا لفظ علل کے بعض نسخوں میں ہے، لیکن صحیحین اور ترمذی میں اس کے بغیر ہے)۔ (۲) سنن الترمذی (۱۴۴۴)۔ (۳) دونوں حدیثیں صحیح ہیں، امام ترمذی کا مقصد دونوں حدیثوں کی علت بیان کرنے سے یہ ہے کہ انہوں نے وہ دلائل ذکر کر دیے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں منسوخ ہیں۔