بریدہ رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے
(ایک دن) صبح کی تو بلال رضی الله عنہ کو بلایا اور پوچھا:
”بلال! کیا وجہ ہے کہ تم جنت میں میرے آگے آگے رہے؟ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں جنت میں داخل ہوا ہوں اور اپنے آگے تمہاری کھڑاؤں کی آواز نہ سنی ہو، آج رات میں جنت میں داخل ہوا تو
(آج بھی) میں نے اپنے آگے تمہارے کھڑاؤں کی آواز سنی، پھر سونے کے ایک چوکور بلند محل پر سے گزرا تو میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے بیان کیا کہ یہ ایک عرب آدمی کا ہے، تو میں نے کہا: میں
(بھی) عرب ہوں، بتاؤ یہ کس کا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ قریش کے ایک شخص کا ہے، میں نے کہا: میں
(بھی) قریشی ہوں، بتاؤ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: یہ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے ایک فرد کا ہے، میں نے کہا: میں محمد ہوں، یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا: عمر بن خطاب کا ہے
“، بلال رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! ایسا کبھی نہیں ہوا کہ میں نے اذان دی ہو اور دو رکعتیں نہ پڑھی ہوں اور نہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے حدث لاحق ہوا ہو اور میں نے اسی وقت وضو نہ کر لیا ہو اور یہ نہ سمجھا ہو کہ اللہ کے لیے میرے اوپر دو رکعتیں
(واجب) ہیں، اس پر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”انہیں دونوں رکعتوں
(یا خصلتوں) کی سے
(یہ مرتبہ حاصل ہوا ہے“ ۱؎)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- اس باب میں جابر، معاذ، انس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا: یہ کس کا ہے؟ کہا گیا: یہ عمر بن خطاب کا ہے
“،
۳- حدیث کے الفاظ
«أني دخلت البارحة الجنة» کا مفہوم یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا ہوں، بعض روایتوں میں ایسا ہی ہے،
۴- ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: انبیاء کے خواب وحی ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3689
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
وضو کے بعد دو رکعت نفل کی پابندی سے ادائیگی کی برکت سے بلال کو یہ مرتبہ حاصل ہوا،
یا ایک خصلت وضوء ٹوٹتے وضوء کر لینا یعنی ہمیشہ باوضو رہنا،
دوسری خصلت: ہر وضوء کے بعد دو رکعت بطورتحیۃ الوضوء کے پڑھنا،
ان دونوں خصلتوں کی برکت سے ان کو یہ مرتبہ حاصل ہوا،
اس حدیث سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ ہمیشہ باوضوء رہنا بڑے اجروثواب کا کام ہے،
وہیں اس سے بلال کی فضیلت اور دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری کا پتا چلا اور عمر رضی اللہ عنہ کے لیے سونے کے محل سے ان کی فضیلت ثابت ہوئی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3689