(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " دخلت الجنة فإذا انا بقصر من ذهب، فقلت: لمن هذا القصر؟ قالوا: لشاب من قريش فظننت اني انا هو، فقلت: ومن هو؟ فقالوا: عمر بن الخطاب ". قال: هذا حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِشَابٍّ مِنْ قُرَيْشٍ فَظَنَنْتُ أَنِّي أَنَا هُوَ، فَقُلْتُ: وَمَنْ هُوَ؟ فَقَالُوا: عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جنت کے اندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں ایک سونے کے محل میں ہوں، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ فرشتوں نے کہا: قریش کے ایک نوجوان کا ہے، تو میں نے سوچا کہ وہ میں ہی ہوں گا، چنانچہ میں نے پوچھا کہ وہ نوجوان کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: وہ عمر بن خطاب ہیں“۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر رضی الله عنہ کو دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دیدی گئی اور کسی مرتد کو جنت کی خوشخبری نہیں دی جا سکتی، (برا ہو آپ سے بغض و نفرت رکھنے والوں کا)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 590)، و مسند احمد (3/107، 179) (صحیح)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3688
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر رضی اللہ عنہ کو دنیا ہی میں جنت کی خوشخبری دیدی گئی اور کسی مرتد کو جنت کی خوشخبری نہیں دی جا سکتی، (برا ہو آپ سے بغض ونفرت رکھنے والوں کا)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3688