ابومعلی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ دیا تو فرمایا:
”ایک شخص کو اس کے رب نے اختیار دیا کہ وہ دینا میں جتنا رہنا چاہے رہے اور جتنا کھانا چاہے کھا لے یا اپنے رب سے ملنے کو
(ترجیح دے) تو اس نے اپنے رب سے ملنے کو پسند کیا، وہ کہتے ہیں: یہ سن کر ابوبکر رضی الله عنہ رو پڑے، تو صحابہ نے کہا: کیا تمہیں اس بوڑھے کے رونے پر تعجب نہیں ہوتا جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک بندے کا ذکر کیا کہ اس کے رب نے دو باتوں میں سے ایک کا اسے اختیار دیا کہ وہ دنیا میں رہے یا اپنے رب سے ملے، تو اس نے اپنے رب سے ملاقات کو پسند کیا۔ ابوبکر رضی الله عنہ ان میں سب سے زیادہ ان باتوں کو جاننے والے تھے جو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر) ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: بلکہ ہم اپنے باپ دادا، اپنے مال سب کو آپ پر قربان کر دیں گے، تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”کوئی آدمی ایسا نہیں جو ابن ابی قحافہ سے بڑھ کر میرا حق صحبت ادا کرنے والا ہو اور میرے اوپر اپنا مال خرچ کرنے والا ہو، اگر میں کسی کو خلیل
(گہرا دوست) بناتا تو ابن ابی قحافہ کو دوست بناتا، لیکن
(ہمارے اور ان کے درمیان) ایمان کی دوستی موجود ہے
“۔ یہ کلمہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا، پھر فرمایا:
”تمہارا یہ ساتھی
(یعنی خود) اللہ کا خلیل
(دوست) ہے
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے بھی روایت آئی ہے اور یہ حدیث حسن غریب ہے،
۲- یہ حدیث ابو عوانہ کے واسطہ سے عبدالملک بن عمیر سے ایک دوسری سند سے بھی آئی ہے، اور
«أمن إلينا» میں
«إلى»،
«على» کے معنی میں ہے، یعنی مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والا۔