(مرفوع) حدثنا احمد بن إبراهيم الدورقي، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، عن الجريري، عن عبد الله بن شقيق، قال: قلت لعائشة: اي اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كان احب إلى رسول الله؟ قالت: ابو بكر، قلت: ثم من؟ قالت: عمر، قلت: ثم من؟ قالت: ثم ابو عبيدة بن الجراح، قلت: ثم من؟ قال: فسكتت ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ: أَيُّ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحَبَّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ؟ قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: عُمَرُ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَتْ: ثُمَّ أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ، قُلْتُ: ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ: فَسَكَتَتْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ رضی الله عنہا سے پوچھا: صحابہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ کون محبوب تھے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ انہوں نے کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: پھر ابوعبیدہ بن جراح، میں نے پوچھا: پھر کون؟ تو وہ خاموش رہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
وضاحت: ۱؎: صحابہ کے فضائل و مناقب کے مختلف اسباب ہیں، منجملہ سبب تو سب کا صحابی رسول ہونا ہے، اور الگ سبب یہ ہے کہ کسی کی فضیلت اسلام میں تقدم کی وجہ سے ہے، کسی کی اللہ و رسول سے ازحد فدائیت کی وجہ سے ہے، اور کسی سے کسی بات میں بڑھے ہونے کی وجہ سے ہے، اور کسی کی فضیلت دوسرے کی فضیلت کے منافی نہیں ہے، اور اس حدیث میں جو عثمان و علی رضی الله عنہما کا تذکرہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمر رضی الله عنہ کے بعد ان دونوں کا مقام نہیں بلکہ ابوعبیدہ رضی الله عنہ کا ہے، مگر احادیث میں یہ ترتیب ثابت ہے، کہ ابوبکر کے بعد عمر ان کے بعد عثمان اور ان کے بعد علی، پھر ان کے بعد عشرہ مبشرہ، پھر عام صحابہ کا مقام ہے رضی الله عنہم اجمعین۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (102) (تحفة الأشراف: 16212) (صحیح) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر (3758، نیز 3667)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3657
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: صحابہ ؓ کے فضائل ومناقب کے مختلف اسباب ہیں، منجملہ سبب تو سب کا صحابی رسول ہونا ہے، اور الگ سبب یہ ہے کہ کسی کی فضیلت اسلام میں تقدم کی وجہ سے ہے، کسی کی اللہ ورسول سے ازحد فدائیت کی وجہ سے ہے، اور کسی سے کسی بات میں بڑھے ہونے کی وجہ سے ہے، اور کسی کی فضیلت دوسرے کی فضیلت کے منافی نہیں ہے، اور اس حدیث میں جو عثمان وعلی رضی اللہ عنہما کا تذکرہ نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے بعد ان دونوں کا مقام نہیں بلکہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا ہے، مگر احادیث میں یہ ترتیب ثابت ہے، کہ ابوبکرکے بعد عمر ان کے بعد عثمان اور ان کے بعد علی، پھر ان کے بعد عشرۂ مبشرہ، پھرعام صحابہ ؓ کا مقام ہے رضی اللہ عنہم اجمعین۔
نوٹ: (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے حدیث نمبر (3758، نیز 3667)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3657