(مرفوع) حدثنا الحسن بن عرفة، قال: حدثني عبد الرحمن بن محمد المحاربي، عن محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعمار امتي ما بين الستين إلى السبعين، واقلهم من يجوز ذلك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب من حديث محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم لا نعرفه إلا من هذا الوجه، وقد روي عن ابي هريرة من غير هذا الوجه.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَعْمَارُ أُمَّتِي مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى السَّبْعِينَ، وَأَقَلُّهُمْ مَنْ يَجُوزُ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہماری امت کی عمریں ساٹھ اور ستر (سال) کے درمیان ہیں اور تھوڑے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس حد کو پار کریں گے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے یعنی محمد بن عمرو کی روایت سے جسے وہ ابی سلمہ سے اور ابوسلمہ ابوہریرہ کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۲- ہم (ابوسلمہ کی) اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۳- یہ حدیث اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بھی ابوہریرہ رضی الله عنہ سے آئی ہے ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: دیکھئیے: کتاب الزہد، «باب ما جاء في فناء أعماء ہذہ الأمۃ»(رقم ۲۳۳۱) وہاں یہ حدیث بطریق: «أبی صالح، عن أبی ہریرۃ» آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الزہد 27 (4236)، وانظر حدیث رقم 2331 (تحفة الأشراف: 15037) (حسن)»
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4236
´انسان کی آرزو اور عمر کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سال سے ستر کے درمیان ہو گی، اور بہت کم لوگ اس سے آگے بڑھیں گے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4236]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) گزشتہ امتوں میں لوگوں کی عمریں بہت لمبی ہوتے تھیں ان کے مقابلے میں اس امت کے افراد کی عمریں بہت مختصر ہیں اس لیے ہمیں اس مختصر مہلت میں نیکی کا کام کرنے کی کوشش زیادہ کرنی چاہیے۔
(2) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: اللہ تعالی نے اس آدمی کے لیے کوئی عذر باقی نہیں چھوڑا جس کی موت کو اتنا مؤخر کردیا کہ وہ ساٹھ سال پہنچ گیا۔ (صحيح البخاري، الرقاق، باب: من بلغ ستين سنة فقد أعذر الله في العمر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، حديث: 6419)
(3) جب انسان ساٹھ سال کے قریب پہنچ جائے تو اسے آخرت کی طرف زیادہ توجہ کرنی چاہیے شاید ساٹھ سال سے آگے نہ بڑھ سکے۔ اور ساٹھ سال کے بعد تو یوں سمجھے کہ مجھے رعایتی مدت مل رہی ہے۔ اس کے بعد غفلت اور فسق وفجور نہایت خطرناک ہے۔ ستر سال کے بعد تو ہر دن کو ایک نئی رعایت تصور کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4236
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2331
´امت محمدیہ کی اوسط عمر ساٹھ سے ستر برس کے درمیان ہے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ سے ستر سال تک کے درمیان ہو گی۔“[سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2331]
اردو حاشہ: نوٹ: (یہ حدیث (أعمار أمتي مابین ...) کے لفظ سے صحیح ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2331