(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا يحيى بن آدم، عن ابي بكر بن عياش، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن عبد الله بن الحارث، عن زهير بن الاقمر، عن عبد الله بن عمرو، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اللهم إني اعوذ بك من قلب لا يخشع ومن دعاء لا يسمع ومن نفس لا تشبع ومن علم لا ينفع، اعوذ بك من هؤلاء الاربع ". قال: وفي الباب، عن جابر، وابي هريرة، وابن مسعود. قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه من حديث عبد الله بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زُهَيْرِ بْنِ الْأَقْمَرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ قَلْبٍ لَا يَخْشَعُ وَمِنْ دُعَاءٍ لَا يُسْمَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَا يَنْفَعُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلَاءِ الْأَرْبَعِ ". قَالَ: وفي الباب، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم إني أعوذ بك من قلب لا يخشع ومن دعا لا يسمع ومن نفس لا تشبع ومن علم لا ينفع أعوذ بك من هؤلاء الأربع»”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو (یعنی جس میں خوف الٰہی نہ ہو)، اور ایسی دعا سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہ جائے، اور اس نفس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو سیر نہ ہو، اور ایسے علم سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ نہ پہنچائے، اے اللہ! میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے (یعنی) عبداللہ بن عمرو کی روایت حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الاستعاذة 2 (5444) (تحفة الأشراف: 8629)، و مسند احمد (2/167، 198) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 75 - 76)، صحيح أبي داود (1384 - 1385)
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3482
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں ایسے دل سے جو ڈرتا نہ ہو (یعنی جس میں خوف الٰہی نہ ہو)، اور ایسی دعا سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو سنی نہ جائے، اور اس نفس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں جو سیر نہ ہو، اور ایسے علم سے بھی تیری پناہ چاہتا ہوں جو فائدہ نہ پہنچا ئے، اے اللہ! میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3482
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5445
´سینے دل کے فتنے سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے کا بیان۔` عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بزدلی، کنجوسی، سینے (دل) کے فتنے اور قبر کے عذاب سے (اللہ تعالیٰ کی) پناہ مانگتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الاستعاذة/حدیث: 5445]
اردو حاشہ: (1) باپ کا مقصد بالکل واضح ہے کہ مذکورہ تمام بیماریوں سے چھٹکارے کے لیے اللہ تعالیٰ کا سہارا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سہارے کے بغیر ان ”موذی اور مہلک“ بیماریوں سے بچنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ پھر جس سے یہ روحانی بیماریاں لگ جائیں تو اس کے لیے جہنم اور آگ کا عذاب ہے۔ أعا ذنا اللہ منه. (2) رسول اللہ ﷺ کا مذکورہ دعا پڑھنا اور امت کو اس کی تعلیم دینا صرف اس بنا پر تھا کہ امت کو عملاً یہ بتایا جائے کہ ان کی تمام بیماریوں کا صرف اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا‘ اس کا سہارا لینا اور اس سے امان طلب کرنے ہی میں ہے۔لوگ مصائب سے بچنے کےلیے تعویذوں اور خود ساختہ وظائف کا سہارہ لیتے ہیں ‘حالانکہ تمام مشکلات کا حل رسوللہﷺکے بتائے ہوئے اذکار میں ہے۔ انھی کو اختیار کرنا چاہیے تا کہ روحانی اور جسمانی بیماریوں سے چھٹکارا حاصل ہو سکے۔ (3) بزدلی سے مراد اللہ تعالیٰ کے راستے میں جان قربان کرنے سے بھاگنا ہے اور بخل سے مراد اللہ تعالیٰ کے راستے میں مال کرنے سے کنی کترانا ہے۔ (4) سینے کے فتنے سے مراد شیطانی وساوس‘ باطل عقائد اور دل کی خرابیاں‘ مثلاً: حسد‘ کینہ بغض اور عناد وغیرہ ہیں۔ پیچھے یہ ہو چکا ہے کہ نبئ اکرم ﷺ کا استعاذہ اصل امت کی تعلیم کے لیے ہے ورنہ آپ تو رذائل سے قطعاً پاک و صاف تھے۔ آپ کے بارہ میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5445