(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا يونس بن عبيد، ومنصور بن زاذان، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن الصامت، قال: سمعت ابا ذر، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا صلى الرجل وليس بين يديه كآخرة الرحل او كواسطة الرحل، قطع صلاته الكلب الاسود والمراة والحمار " فقلت لابي ذر: ما بال الاسود من الاحمر من الابيض؟ فقال: يا ابن اخي سالتني كما سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " الكلب الاسود شيطان " قال: وفي الباب عن ابي سعيد , والحكم بن عمرو الغفاري , وابي هريرة , وانس، قال ابو عيسى: حديث ابي ذر حديث حسن صحيح، وقد ذهب بعض اهل العلم إليه، قالوا: يقطع الصلاة الحمار والمراة والكلب الاسود، قال احمد: الذي لا اشك فيه ان الكلب الاسود يقطع الصلاة، وفي نفسي من الحمار والمراة شيء، قال إسحاق: لا يقطعها شيء إلا الكلب الاسود.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَمَنْصُورُ بْنُ زَاذَانَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ وَلَيْسَ بَيْنَ يَدَيْهِ كَآخِرَةِ الرَّحْلِ أَوْ كَوَاسِطَةِ الرَّحْلِ، قَطَعَ صَلَاتَهُ الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ وَالْمَرْأَةُ وَالْحِمَارُ " فَقُلْتُ لِأَبِي ذَرٍّ: مَا بَالُ الْأَسْوَدِ مِنَ الْأَحْمَرِ مِنَ الْأَبْيَضِ؟ فَقَالَ: يَا ابْنَ أَخِي سَأَلْتَنِي كَمَا سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ شَيْطَانٌ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , وَالْحَكَمِ بْنِ عَمْرٍو الْغِفَارِيِّ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَيْهِ، قَالُوا: يَقْطَعُ الصَّلَاةَ الْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ وَالْكَلْبُ الْأَسْوَدُ، قَالَ أَحْمَدُ: الَّذِي لَا أَشُكُّ فِيهِ أَنَّ الْكَلْبَ الْأَسْوَدَ يَقْطَعُ الصَّلَاةَ، وَفِي نَفْسِي مِنَ الْحِمَارِ وَالْمَرْأَةِ شَيْءٌ، قَالَ إِسْحَاق: لَا يَقْطَعُهَا شَيْءٌ إِلَّا الْكَلْبُ الْأَسْوَدُ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب آدمی نماز پڑھے اور اس کے سامنے کجاوے کی آخری (لکڑی یا کہا: کجاوے کی بیچ کی لکڑی کی طرح) کوئی چیز نہ ہو تو: کالے کتے، عورت اور گدھے کے گزرنے سے اس کی نماز باطل ہو جائے گی“۱؎ میں نے ابوذر سے کہا: لال، اور سفید کے مقابلے میں کالے کی کیا خصوصیت ہے؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! تم نے مجھ سے ایسے ہی پوچھا ہے جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تھا تو آپ نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابو سعید خدری، حکم بن عمرو بن غفاری، ابوہریرہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ گدھا، عورت اور کالا کتا نماز کو باطل کر دیتا ہے۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا کتا نماز باطل کر دیتا ہے لیکن گدھے اور عورت کے سلسلے میں مجھے کچھ تذبذب ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: کالے کتے کے سوا کوئی اور چیز نماز باطل نہیں کرتی۔
وضاحت: ۱؎: یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کے ثواب اور اس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے، سرے سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں، بعض علماء بالکل باطل ہو جانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے مصلے کو سترہ کی طرف نماز پڑھنے کی از حد خیال کرنا چاہیئے۔
إذا كان أحدكم قائما يصلي فإنه يستره إذا كان بين يديه مثل آخرة الرحل فإن لم يكن بين يديه مثل آخرة الرحل فإنه يقطع صلاته المرأة والحمار والكلب الأسود قلت ما بال الأسود من الأصفر من الأحمر فقال سألت رسول الله كما سألتني فقال الكلب الأسو
إذا صلى الرجل وليس بين يديه كآخرة الرحل أو كواسطة الرحل قطع صلاته الكلب الأسود والمرأة والحمار فقلت لأبي ذر ما بال الأسود من الأحمر من الأبيض فقال يا ابن أخي سألتني كما سألت رسول الله فقال الكلب الأسود شيطان
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 338
اردو حاشہ: 1؎: یہاں باطل ہونے سے مراد نماز کے ثواب اور اس کی برکت میں کمی واقع ہونا ہے، سرے سے نماز کا باطل ہونا مراد نہیں، بعض علماء بالکل باطل ہو جانے کے بھی قائل ہیں کیونکہ ظاہری الفاظ سے یہی ثابت ہوتا ہے، اس لیے نمازی کو سترہ کی طرف نماز پڑھنے کا از حد خیال کرنا چاہئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 338
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 751
´نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟` ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو تو جب اس کے سامنے کجاوے کی پچھلی لکڑی جیسی کوئی چیز ہو تو وہ اس کے لیے سترہ ہو جائے گی، اور اگر کجاوہ کی پچھلی لکڑی کی طرح کوئی چیز نہ ہو تو عورت، گدھا اور کالا کتا اس کی نماز باطل کر دے گا۔“ عبداللہ بن صامت کہتے ہیں کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: پیلے اور لال رنگ کے مقابلہ میں کالے (کتے) کی کیا خصوصیت ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: جس طرح آپ نے مجھ سے پوچھا ہے میں نے بھی یہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کالا کتا شیطان ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 751]
751 ۔ اردو حاشیہ: جمہور اہل علم کے نزدیک کسی چیز کے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی کیونکہ ابوداود کی روایت ہے: «لا يقطعُ الصَّلاةَ شيءٌ»[سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 719] یعنی ”کوئی چیز نماز نہیں توڑتی۔“ لہٰذا یہاں نماز ٹوٹنے سے مراد خشوع و خضوع کا ختم ہونا ہے۔ لیکن اہل علم کا دوسرا گروہ نماز ٹوٹ جانے کا قائل ہے۔ اس کی ان کے نزدیک دو دلیلیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ابوداود کی محولہ حدیث: «لا يقطعُ الصَّلاةَ شيءٌ» ضعیف ہے، اس لیے وہ قابل استدلال نہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ضعیف سنن أبي داود (مفصل): 265/9، حدیث: 116] دوسری دلیل ایک واضح حدیث ہے جو قطع الصلاۃ کے مفہوم کو واضح تر کر دیتی ہے، اس کے الفاظ ہیں: «تُعادُ الصَّلاةُ من مَمَرِّ الحِمارِ، والمرأةِ، والكَلْبِ الأَسْوَدِ، وقال: الكَلْبُ الأَسْوَدُ شَيْطانٌ»[صحیح ابن خزیمه، حدیث: 831، و صحیح ابن حبان، حدیث: 2391، بتحقیق الشیخ شعیب، وانظر اصحیحة للألباني، حدیث: 3323] ”گدھے، عورت اور سیاہ کتے کے گزرنے سے (نماز ٹوٹ جاتی ہے) نماز دہرائی جائے گی۔“ یہ حدیث قطع صلاۃ کے ظاہری مفہوم کو متعین اور اس کی تاویل (خشوع و خضوع ٹوٹ جانے) کو رد کر دیتی ہے۔ بنابریں اگلی تمام روایات میں بھی قطع صلاۃ کا ظاہری مفہوم ہی مراد ہو گا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 751