(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الملك بن ابي الشوارب، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا معمر، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: كنت رديف الفضل على اتان، فجئنا والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي باصحابه بمنى، قال:فنزلنا عنها فوصلنا الصف فمرت بين ايديهم فلم تقطع صلاتهم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن عائشة، والفضل بن عباس، وابن عمر، قال ابو عيسى: وحديث ابن عباس حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم من التابعين، قالوا: لا يقطع الصلاة شيء، وبه يقول: سفيان الثوري , والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ رَدِيفَ الْفَضْلِ عَلَى أَتَانٍ، فَجِئْنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ بِمِنًى، قَالَ:فَنَزَلْنَا عَنْهَا فَوَصَلْنَا الصَّفَّ فَمَرَّتْ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ فَلَمْ تَقْطَعْ صَلَاتَهُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: لَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ شَيْءٌ، وَبِهِ يَقُولُ: سفيان الثوري , وَالشَّافِعِيُّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک گدھی پر (اپنے بھائی) فضل رضی الله عنہ کے پیچھے سوار تھا، ہم آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے، ہم گدھی سے اترے اور صف میں مل گئے۔ اور وہ (گدھی) ان لوگوں کے سامنے پھرنے لگی، تو اس نے ان کی نماز باطل نہیں کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، فضل بن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نماز کو کوئی چیز باطل نہیں کرتی، سفیان ثوری اور شافعی بھی یہی کہتے ہیں ۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں ہے کہ کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی، جبکہ اگلی حدیث میں ہے کہ کتا، گدھا اور عورت کے مصلی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، ان دونوں حدیثوں میں اس طرح جمع کیا گیا ہے،
۱- صحیح بخاری میں ”وہ گدھی ان لوگوں کے سامنے سے گزری تو اس سے ان کی نماز باطل نہیں ہوئی“ کا جملہ نہیں ہے اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ گدھی یا وہ دونوں صرف صف کے بعض حصوں سے گزرے تھے جبکہ امام (آپ صلی اللہ علیہ وسلم) کا سترہ صف کے ان حصوں کا سترہ بھی ہو گیا تھا (آپ خصوصا میدان میں بغیر سترہ کے نماز پڑھتے ہی نہیں تھے)
۲- پہلی حدیث یا اس معنی کی دوسری حدیثوں سے اس بات پر استدلال کسی طرح واضح نہیں ہے،
۳- جبکہ اگلی حدیث قولی میں امت کے لیے خاص حکم ہے، اور زیادہ صحیح حدیث ہے، اس لیے مذکورہ تینوں چیزوں کے نمازی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے (باطل کا معنی اگلی حدیث کے حاشیہ میں ملاحظہ کریں)۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 337
اردو حاشہ: 1؎: اس حدیث میں ہے کہ کوئی بھی چیز نماز کو باطل نہیں کرتی، جبکہ اگلی حدیث میں ہے کہ کتا، گدھا اور عورت کے مصلّی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے، ان دونوں حدیثوں میں اس طرح جمع کیا گیا ہے: 1- صحیح بخاری میں ”وہ گدھی ان لوگوں کے سامنے سے گزری تو اس سے ان کی نماز باطل نہیں ہوئی“ کا جملہ نہیں ہے اصل واقعہ صرف یہ ہے کہ گدھی یا وہ دونوں صرف صف کے بعض حصوں سے گزرے تھے جبکہ امام (آپ ﷺ) کا سترہ صف کے ان حصوں کا سترہ بھی ہو گیا تھا (آپ خصوصاً میدان میں بغیر سترہ کے نماز پڑھتے ہی نہیں تھے) 2- پہلی حدیث یا اس معنی کی دوسری حدیثوں سے اس بات پر استدلال کسی طرح واضح نہیں ہے۔ 3- جبکہ اگلی حدیث قولی میں امت کے لیے خاص حکم ہے، اور زیادہ صحیح حدیث ہے، اس لیے مذکورہ تینوں چیزوں کے مصلّی کے آگے سے گزرنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے (باطل کا معنی اگلی حدیث کے حاشہ میں ملاحظہ کریں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 337