عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
” «إدبار النجوم» ۱؎ (نجوم کے پیچھے) سے مراد نماز فجر سے پہلے کی دو رکعتیں یعنی سنتیں ہیں اور
«إدبار السجود» (سجدوں کے بعد) سے مراد مغرب کے بعد کی دو رکعتیں ہیں
۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے،
۲- ہم اس حدیث کو مرفوعاً صرف محمد بن فضیل کی روایت سے جانتے ہیں جسے وہ رشدین بن کریب سے روایت کرتے ہیں،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے محمد
(محمد بن فضیل) اور رشدین بن کریب کے بارے میں پوچھا کہ ان دونوں میں کون زیادہ ثقہ ہے؟ انہوں نے کہا: دونوں ایک سے ہیں، لیکن محمد بن فضیل میرے نزدیک زیادہ راجح ہیں
(یعنی انہیں فوقیت حاصل ہے) ۴- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن
(دارمی) سے اس بارے میں پوچھا
(آپ کیا کہتے ہیں؟) کہا: کیا خوب دونوں میں یکسانیت ہے، لیکن رشدین بن کریب میرے نزدیک ان دونوں میں قابل ترجیح ہیں، کہتے ہیں: میرے نزدیک بات وہی درست ہے جو ابو محمد یعنی دارمی نے کہی ہے، رشدین محمد بن فضیل سے راجح ہیں اور پہلے کے بھی ہیں، رشدین نے ابن عباس کا زمانہ پایا ہے اور انہیں دیکھا بھی ہے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3275
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
سورہ طورمیں ﴿إِدْبَارُ السُّجُودِ﴾ (ہمزہ کے کسرہ ساتھ)ہے،
اورسورہ ق میں ﴿أَدْبَارُ السُّجُودِ﴾ لیکن اس حدیث میں یہاں بھی ہمزہ کے کسرہ کے ساتھ روایت ہے،
بہرحال یہاں انہی دونوں کی تفسیرمقصود ہے،
(ادبارالسجودبفتح الہمزہ کی صورت میں بعض لوگوں نے اس کا معنی ”سجدوں کے بعد یعنی نمازوں کے بعد کی تسبیحات“ بیان کیا ہے۔
2؎:
مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ ﴿إِدْبَارُ السُّجُودِ﴾ (الطور: 49) کی تفسیرمیں لائے ہیں۔
نوٹ:
(سند میں رشدین بن کریب ضعیف راوی ہیں)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3275