453 - حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان قال: ثنا مسعر، عن عاصم ابن بهدلة، عن زر بن حبيش قال: قلت لحذيفة هل صلي رسول الله صلي الله عليه وسلم في بيت المقدس؟ فقال حذيفة: انت تقول صلي فيه يا اصلع قلت: نعم بيني وبينك القرآن، قال حذيفة: هات من احتج بالقرآن فقد فلج فقرات عليه ﴿ سبحان الذي اسري بعبده ليلا من المسجد الحرام إلي المسجد الاقصي﴾ فقال لي حذيفة: اين تجده صلي فيه؟ لو صلي فيه لكتبت عليكم الصلاة فيه كما كتبت عليكم الصلاة في المسجد الحرام ثم قال حذيفة: «اتي رسول الله صلي الله عليه وسلم بدابة طويل الظهر ممدود يقال له البراق خطوها مد البصر فما زايلا ظهر البراق حتي رايا الجنة والنار ووعد الآخرة اجمع» قال «ويحدثون انه ربطه لم ايفر؟ لم ايفر منه؟ وإنما سخره له عالم الغيب والشهادة» 453 - حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ قَالَ: ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مِسْعَرٌ، عَنْ عَاصِمِ ابْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ قَالَ: قُلْتُ لِحُذَيْفَةَ هَلْ صَلَّي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنْتَ تَقُولُ صَلَّي فِيهِ يَا أَصْلَعُ قُلْتُ: نَعَمْ بَيْنِي وَبَيْنَكَ الْقُرْآنُ، قَالَ حُذَيْفَةُ: هَاتِ مَنِ احْتَجَّ بِالْقُرْآنِ فَقَدْ فَلَجَ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ ﴿ سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَي بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَي الْمَسْجِدِ الْأَقْصَي﴾ فَقَالَ لِي حُذَيْفَةُ: أَيْنَ تَجِدُهُ صَلَّي فِيهِ؟ لَوْ صَلَّي فِيهِ لَكُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلَاةُ فِيهِ كَمَا كُتِبَتْ عَلَيْكُمُ الصَّلَاةُ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ثُمَّ قَالَ حُذَيْفَةُ: «أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِدَابَّةٍ طَوِيلِ الظَّهْرِ مَمْدُودٍ يُقَالُ لَهُ الْبُرَاقُ خَطْوُهَا مَدُّ الْبَصَرِ فَمَا زَايَلَا ظَهْرَ الْبُرَاقِ حَتَّي رَأَيَا الْجَنَّةَ وَالنَّارَ وَوَعْدَ الْآخِرَةِ أَجْمَعَ» قَالَ «وَيُحَدِّثُونَ أَنَّهُ رَبَطَهُ لِمَ أَيَفِرُّ؟ لِمَ أَيَفِرُّ مِنْهُ؟ وَإِنَّمَا سَخَّرَهُ لَهُ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ»
453- زر بن حبیش بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز ادا کی تھی؟ تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: اے آگے سے گنجے! کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کی تھی؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ قرآن کرے گا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: لے کر آؤ، جو شخص قرآن سے دلیل حاصل کرتا ہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے، تو میں نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت کی۔ «سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى»”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی۔“ تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: تم نے اس میں کہاں یہ پایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی تھی؟ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی ہوتی، تو تم لوگوں پر وہاں نماز ادا کرنا لازم قرار دیا جاتا، جس طرح تم پر مسجد الحرام میں نماز ادا کرنا لازم کیا گیا ہے۔ پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک جانور پیش کیا گیا۔ جس کی پشت لمبی تھی، جسے براق کہا جاتا تھا۔ اس کا ایک قدم وہاں تک جاتا تھا، جہاں تک نگاہ جاتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل براق کی پشت پر سوار رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور جہنم کو ملاحظہ فرمایا، اور آخرت کا وعدہ تو زیادہ جمع کرنے والا ہے۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگ یہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باندھ دیا تھا۔ بھئی کیوں؟ کیا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جانا تھا؟ حالانکہ غیب اور شہادت کا علم رکھنے والی ذات نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسخر کیا تھا۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 45، والحاكم في «مستدركه» برقم: 3389، والنسائي في «الكبرى» برقم: 11216، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3147، وأحمد فى «مسنده» برقم: 23757، برقم: 23795، برقم: 23807 برقم: 23808، برقم: 23820، والطيالسي في «مسنده» برقم: 411، وابن أبى شيبة فى "مصنفه" برقم: 32356، برقم: 37728، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 5014»
أتي رسول الله بدابة طويلة الظهر ممدودة هكذا خطوه مد بصره فما زايلا ظهر البراق حتى رأيا الجنة والنار ووعد الآخرة أجمع ثم رجعا عودهما على بدئهما قال ويتحدثون أنه ربطه لم أيفر منه وإنما سخره له عالم الغيب والشهادة
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:453
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ علمی بحث و مباحثہ کرتے رہنا چاہیے، اس سے بہت سی گرہیں کھلتی ہیں۔ معراج برحق ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جسمانی معراج کروائی گئی تھی، اس کی تفصیل قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 453
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3147
´سورۃ بنی اسرائیل سے بعض آیات کی تفسیر۔` زر بن حبیش کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہ بن یمان رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھی تھی؟ تو انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: بیشک پڑھی تھی، انہوں نے کہا: اے گنجے سر والے، تم ایسا کہتے ہو؟ کس بنا پر تم ایسا کہتے ہو؟ میں نے کہا: میں قرآن کی دلیل سے کہتا ہوں، میرے اور آپ کے درمیان قرآن فیصل ہے۔ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا: جس نے قرآن سے دلیل قائم کی وہ کامیاب رہا، جس نے قرآن سے دلیل پکڑی وہ حجت میں غالب رہا، زر بن حبیش نے کہا: میں نے «سبحان الذي أسرى بعبده ليلا من المسجدالحرام إلى المسجد الأ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3147]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتون رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک۔
2؎: حذیفہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ان کے اپنے علم کے مطابق ہے، ورنہ احادیث میں واضح طورسے آیا ہے کہ آپﷺ نے وہاں انبیاءعليهم السلام کی امامت کی تھی، اوربراق کو وہاں باندھا بھی تھا جہاں دیگرانبیاء اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے (التحفة مع الفتح)
3؎: یعنی جس برق رفتاری سے وہ گئے تھے اسی برق رفتاری سے واپس بھی آئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3147