سنن ترمذي کل احادیث 3964 :حدیث نمبر
کتاب سنن ترمذي تفصیلات

سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
12. باب وَمِنْ سُورَةِ هُودٍ
12. باب: سورۃ ہود سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3115
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا قيس بن الربيع، عن عثمان بن عبد الله بن موهب، عن موسى بن طلحة، عن ابي اليسر، قال: اتتني امراة تبتاع تمرا، فقلت: إن في البيت تمرا اطيب منه، فدخلت معي في البيت فاهويت إليها فتقبلتها، فاتيت ابا بكر فذكرت ذلك له، قال: استر على نفسك وتب ولا تخبر احدا، فلم اصبر فاتيت عمر فذكرت ذلك له، فقال: استر على نفسك وتب ولا تخبر احدا، فلم اصبر فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال: " اخلفت غازيا في سبيل الله في اهله بمثل هذا حتى تمنى انه لم يكن اسلم إلا تلك الساعة حتى ظن انه من اهل النار، قال: واطرق رسول الله صلى الله عليه وسلم طويلا حتى اوحى الله إليه واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إلى قوله ذكرى للذاكرين سورة هود آية 114، قال ابو اليسر: فاتيته فقراها علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال اصحابه: يا رسول الله، الهذا خاصة ام للناس عامة؟ قال: " بل للناس عامة "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، وقيس بن الربيع ضعفه وكيع وغيره، وابو اليسر هو كعب بن عمرو، قال: وروى شريك، عن عثمان بن عبد الله هذا الحديث مثل رواية قيس بن الربيع، قال: وفي الباب، عن ابي امامة، وواثلة بن الاسقع، وانس بن مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، قَالَ: أَتَتْنِي امْرَأَةٌ تَبْتَاعُ تَمْرًا، فَقُلْتُ: إِنَّ فِي الْبَيْتِ تَمْرًا أَطْيَبَ مِنْهُ، فَدَخَلَتْ مَعِي فِي الْبَيْتِ فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا فَتَقَبَّلْتُهَا، فَأَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا، فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ عُمَرَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: اسْتُرْ عَلَى نَفْسِكَ وَتُبْ وَلَا تُخْبِرْ أَحَدًا، فَلَمْ أَصْبِرْ فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " أَخَلَفْتَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فِي أَهْلِهِ بِمِثْلِ هَذَا حَتَّى تَمَنَّى أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ إِلَّا تِلْكَ السَّاعَةَ حَتَّى ظَنَّ أَنَّهُ مِنْ أَهْلِ النَّارِ، قَالَ: وَأَطْرَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَوِيلًا حَتَّى أَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِلَى قَوْلِهِ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114، قَالَ أَبُو الْيَسَرِ: فَأَتَيْتُهُ فَقَرَأَهَا عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَصْحَابُهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِهَذَا خَاصَّةً أَمْ لِلنَّاسِ عَامَّةً؟ قَالَ: " بَلْ لِلنَّاسِ عَامَّةً "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَقَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ضَعَّفَهُ وَكِيعٌ وَغَيْرُهُ، وَأَبُو الْيَسَرِ هُوَ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: وَرَوَى شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ هَذَا الْحَدِيثَ مِثْلَ رِوَايَةِ قَيْسِ بْنِ الرَّبِيعِ، قَالَ: وَفِي الْبَابِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، وَوَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ.
ابوالیسر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت میرے پاس کھجور خریدنے آئی، میں نے اس سے کہا: (یہ کھجور جو یہاں موجود ہے جسے تم دیکھ رہی ہو) اس سے اچھی اور عمدہ کھجور گھر میں رکھی ہے۔ چنانچہ وہ بھی میرے ساتھ ساتھ گھر میں آ گئی، میں اس کی طرف مائل ہو گیا اور اس کو چوم لیا، تب ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آ کر ان سے اس واقعہ کا ذکر کیا، انہوں نے کہا: اپنے نفس (کی اس غلطی) پر پردہ ڈال دو، توبہ کرو دوسرے کسی اور سے اس واقعہ کا ذکر نہ کرو، لیکن مجھ سے صبر نہ ہو سکا چنانچہ میں عمر رضی الله عنہ کے پاس آیا اور ان سے بھی اس (واقعہ) کا ذکر کیا، انہوں نے بھی کہا: اپنے نفس کی پردہ پوشی کرو، توبہ کرو اور کسی دوسرے کو یہ واقعہ نہ بتاؤ۔ (مگر میرا جی نہ مانا) میں اس بات پر قائم نہ رہا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ کو بھی یہ بات بتا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے ایک غازی کی بیوی کے ساتھ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے نکلا ہے اس کی غیر موجودگی میں ایسی حرکت کی ہے؟ آپ کی اتنی بات کہنے سے مجھے اتنی غیرت آئی کہ میں نے تمنا کی کہ کاش میں اس سے پہلے ایمان نہ لایا ہوتا بلکہ اب لاتا اسے خیال ہوا کہ وہ تو جہنم والوں میں سے ہو گیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سوچ میں) کافی دیر تک سر جھکائے رہے یہاں تک کہ آپ پر بذریعہ وحی آیت «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل» سے «ذكرى للذاكرين» تک نازل ہوئی۔ ابوالیسر رضی الله عنہ کہتے ہیں: (جب) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ نے مجھے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ صحابہ نے کہا: اللہ کے رسول! کیا یہ (بشارت) ان کے لیے خاص ہے یا سبھی لوگوں کے لیے عام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، بلکہ سبھی لوگوں کے لیے عام ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- قیس بن ربیع کو وکیع وغیرہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابوالیسر کعب بن عمرو رضی الله عنہ ہیں،
۳- شریک نے عثمان بن عبداللہ سے یہ حدیث قیس بن ربیع کی روایت کی طرح روایت کی ہے،
۴- اس باب میں ابوامامہ اور واثلہ بن اسقع اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

وضاحت:
۱؎: پچھلی روایات میں مبہم آدمی یہی ابوالیسر رضی الله عنہ ہوں گے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 11125) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن

   جامع الترمذي3115كعب بن عمروأخلفت غازيا في سبيل الله في أهله بمثل هذا حتى تمنى أنه لم يكن أسلم إلا تلك الساعة حتى ظن أنه من أهل النار قال وأطرق رسول الله طويلا حتى أوحى الله إليه وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إلى قوله ذكرى للذاكرين

سنن ترمذی کی حدیث نمبر 3115 کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3115  
اردو حاشہ:
وضاحت: 1؎:
پچھلی روایات میں مبہم آدمی یہی ابوالیسر رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3115   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.