صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت:
«للذين أحسنوا الحسنى وزيادة» ”جن لوگوں نے نیکی کی ہے ان کے واسطے اچھائی
(جنت) ہے اور مزید برآں بھی
(یعنی دیدار الٰہی)“ (یونس: ۲۶)، کی تفسیر اس طرح فرمائی:
”جب جنتی جنت میں پہنچ جائیں گے تو ایک پکارنے والا پکار کر کہے گا: اللہ کے پاس تمہارے لیے اس کی طرف سے کیا ہوا ایک وعدہ ہے اور وہ چاہتا ہے کہ تم سے کیا ہوا اپنا وعدہ پورا کر دے۔ تو وہ جنتی کہیں گے: کیا اللہ نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیئے ہیں اور ہمیں آگ سے نجات نہیں دی ہے اور ہمیں جنت میں داخل نہیں فرمایا ہے؟
(اب کون سی نعمت باقی رہ گئی ہے؟)“، آپ نے فرمایا:
”پھر پردہ اٹھا دیا جائے گا
“، آپ نے فرمایا:
”قسم اللہ کی! اللہ نے انہیں کوئی ایسی چیز دی ہی نہیں جو انہیں اس کے دیدار سے زیادہ لذیذ اور محبوب ہو۔
“
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حماد بن سلمہ کی حدیث ایسی ہی ہے،
۲- کئی ایک نے اسے حماد بن سلمہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سلیمان بن مغیرہ نے یہ حدیث ثابت سے اور ثابت نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے ان کے قول کی حیثیت سے روایت کی ہے اور انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ یہ روایت صہیب سے ہے اور صہیب رضی الله عنہ نے نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث187
´جہمیہ کا انکار صفات باری تعالیٰ۔`
صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «للذين أحسنوا الحسنى وزيادة» ”جن لوگوں نے نیکی کی ان کے لیے نیکی ہے اور اس سے زیادہ بھی ہے“ (سورة يونس: 26) کی تلاوت فرمائی، اور اس کی تفسیر میں فرمایا: ”جب جنت والے جنت میں اور جہنم والے جہنم میں داخل ہو جائیں گے تو منادی پکارے گا: جنت والو! اللہ کے پاس تمہارا ایک وعدہ ہے وہ اسے پورا کرنا چاہتا ہے، جنتی کہیں گے: وہ کیا وعدہ ہے؟ کیا اللہ نے ہمارے نیک اعمال کو وزنی نہیں کیا؟ ہمارے چہروں کو روشن اور تابناک نہیں کیا؟ ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا؟ اور ہمیں جہنم سے نجات نہیں دی؟۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 187]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالیٰ کا دیدار سب سے عظیم اور سب سے خوش کن نعمت ہے جو اہل جنت کو حاصل ہو گی اور یہ ان کے لیے سب سے محبوب نعمت ہو گی۔
(2)
جنت میں داخل ہونا بھی ایک نعمت ہے جو دیدار الہی کے حصول کا ذریعہ ہے اس لیے بعض صوفیاء کا یہ کہنا درست نہیں کہ نیکی کرتے ہوئے جنت کی طمع یا جہنم کا خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
بلکہ صرف اللہ کی ذات مطلوب ہونی چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے نیک مومنوں کی یہ صفت بیان کی ہے کہ وہ یوں دعا کرتے ہیں:
﴿رَبَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الأخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ﴾ (البقرۃ: 201)
”اے ہمارے مالک! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی نصیب فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا لے۔“
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 187