7295. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک آدمی نے پوچھا: اللہ کے نبی! میرا باپ کون ہے؟ فرمایا: ”تیرا باپ فلاں ہے۔“ پھر یہ آیت نازل ہوئی: ”اے ایمان والو! ایسی اشیاء کے متعلق مت سوال کرو (اگر انہیں ظاہر کر دیا جائے تو تمہیں برا لگے)۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7295]
حدیث حاشیہ: 1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث ذکر کی ہیں، ان کے پیش نظر تین مقاصد ہیں:
۔
کثرت سوالات کی ممانعت بیان کرنا۔
۔
لا یعنی اور بے فائدہ تکلفات سے بچنا۔
۔
سورۃ المائدۃ کی آیت: 101 کا پس منظر بیان کرنا۔
ان دونوں احادیث میں آیت کریمہ کا پس منظر بیان کیا گیا ہے۔
جس شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ٹھکانے کے متعلق سوال کیا تھا وہ منافقین میں سے تھا۔
چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے ہولناک واقعات کے رونما ہونے کا ذکر کیا تھا، اس لیے انصار پر خوف طاری ہوا اور وہ بہت روئے۔
2۔
حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کو بھی اچھا خیال نہیں کیا گیا کیونکہ خدانخواستہ اگر کسی کا باپ صحیح نہ ہو اور سوال کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت کو ظاہر کر دیں تو سوال کرنے والے کی کس قدر رسوائی ہوتی، اس لیے بے جا قسم کے سوالات پوچھنے سے منع کر دیا گیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب دان نہیں تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کےذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا جاتا تھا۔
دعوائے غیب دانی کی نفی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔