عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے بغیر علم کے (بغیر سمجھے بوجھے) قرآن کی تفسیر کی، تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف: 5543) (ضعیف) (سند میں عبدالاعلی بن عامر ثعلبی روایت میں وہم کا شکار ہو جایا کرتے تھے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (234)، نقد التاج، // ضعيف الجامع الصغير (5737) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2950) إسناده ضعيف عبد الاعلي الثعلبي: ضعيف وقال الهثيمي ”الأكثر على تضعيفه“ (مجمع الزوائد 147/1) وانظر ضعيف سنن أبى داود:3208
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 234
´ اپنی رائے سے تفسیر کرنے پر وعید` «. . . وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِرَأْيِهِ فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . وَفِي رِوَايَةٍ: «مَنْ قَالَ فِي الْقُرْآنِ بِغَيْرِ عِلْمٍ فَليَتَبَوَّأ مَقْعَده من النَّار» رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ . . .» ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے قرآن مجید کے بارے میں اپنی رائے سے کہا۔ (یعنی قرآن شریف کی تفسیر اپنی عقل سے کی جس کی سند قرآن وسنت سے نہیں ہے) اس چاہیے کہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔“ اور ایک روایت میں ہے۔ جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جس نے بغیر علم کے قرآن مجید کے بارے میں کچھ کہا اس کو چاہیے اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 234]
تحقیق الحدیث: اس کی سند ضعیف ہے۔ ◄ اس کا راوی عبدالاعلیٰ بن عامر الثعلبی جمہور محدثین کے نزدیک ضعیف تھا۔ ديكهئے: [سنن ترمذي 2951، اضواء المصابيح حديث: 232] لہٰذا اس راوی کی وجہ سے یہ سند بھی ضعیف ہے، نیز اس کے شواہد بھی ضعیف ہیں۔ مثلاً دیکھئے: [سنن ترمذي 2952، اضواء المصابيح روايت: 235]