فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 944
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتنی بری بات ہے کہ کوئی کہے: میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ۱؎، بلکہ اسے کہنا چاہیئے کہ وہ بھلا دیا گیا، تم لوگ قرآن یاد کرتے رہو کیونکہ وہ لوگوں کے سینوں سے رسی سے کھل جانے والے اونٹ سے بھی زیادہ جلدی نکل جاتا ہے۔“ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 944]
944 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ”بری بات ہے“ کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں:
➊ اگر کوئی آدمی کوئی آیت بھول جائے تو یہ نہ کہے: نیست (میں بھول گیا) بلکہ کہ: نیست (میں بھلا دیا گیا) کیونکہ پہلے لفظ میں بے پروائی پائی جاتی ہے۔ گویا اس نے قرآن جان بوجھ کر بھلا دیا، غفلت کی، اسے کوئی اہمیت نہیں دی، عام سی بات سمجھا۔ جب کہ دوسرے لفظ میں ندامت اور معذرت کا انداز ہے کہ میں نے یاد رکھنے کی پوری کوشش کی مگر مجھے بھلا دیا گیا، لہٰذا پہلے لفظ کی بجائے دوسرا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔
➋ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ بہت بری بات ہے کہ کسی آدمی کو کہنا پڑے: ”میں فلاں آیت بھول گیا۔“ کیونکہ یہ اس کی سستی پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے اسے بھلا دیا۔ گویا ایسا موقع ہی نہ آنے دیا جائے کہ کسی کو کہنا پڑے: ”میں فلاں آیت بھول گیا۔“
➋ «نَسِيتُ» ”میں بھول گیا“ نسیان کی نسبت اپنی طرف کرنے سے ممانعت اس لیے ہے کہ انسان ان لوگوں کے زمرے میں شامل نہ ہو جائے جن کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے۔ فرمان الٰہی ہے: « ﴿كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى﴾ » [طه: 126: 20]
”جس طرح(دنیا میں) تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تو تو نے وہ بھلا دیں اور اسی طرح آج (قیامت کے دن) تجھے بھی بھلا دیا جائے گا۔“ چنانچہ ایسی بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ بات انسان کی سستی اور قرآن سے غفلت پر دلالت کرتی ہے۔
➌ اس حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کا دور کرنے اور اس کی تلاوت میں سستی کرتا ہے، اس کے لیے قرآن مشکل ہے۔ اور یہ بات اللہ کے فرمان: « ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ﴾ » کے منافی نہیں ہے کیونکہ جو شخص قرآن مجید یاد کرنا چاہے اور اسے سمجھنا چاہے، اس کے لیے قرآن آسان ہے اور جو اس کی پروا نہ کرے، اس کے لیے یہ مشکل ہے۔ واللہ أعلم۔
➍ اونٹوں کو بھاگنے سے روکنا مقصود ہو تو ان کا اگلا ایک گھٹنا باندھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح اونٹ مشکل سے چلتا ہے مگر وہ زور لگا لگا کر کوشش کرتا رہتا ہے کہ گھٹنا کھل جائے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ آہستہ آہستہ گھٹنا رسی سے نکال لیتا ہے اور دور بھاگ جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید باقاعدگی سے پڑھا جاتا رہے تو وہ سینے میں محفوظ رہتا ہے۔ سستی کی جائے تو یہ سینے سے نکل جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 944