ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہت برا ہے کسی شخص کا یہ کہنا کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا بلکہ یوں (کہنا چاہیے) کہ مجھے بھلا دیا گیا اور قرآن مجید کا پڑھنا جاری رکھو کیونکہ انسانوں کے دلوں سے دور ہو جانے میں وہ اونٹ کے بھاگنے سے بھی بڑھ کر ہے۔ ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے، اور ان سے منصور بن معتمر نے پچھلی حدیث کی طرح۔ محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو بشر بن عبداللہ نے بھی عبداللہ بن مبارک سے، انہوں نے شعبہ سے روایت کیا ہے اور محمد بن عرعرہ کے ساتھ اس کو ابن جریج نے بھی عبدہ سے، انہوں نے شقیق سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود سے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5032
حدیث حاشیہ: کیونکہ اللہ ہی بندے کے تمام افعال کا خالق ہے گو بندے کی طرف بھی افعال کی نسبت کی جاتی ہے۔ مقصود یہ ہے کہ اپنی طرف نسبت دینے میں گویا اپنا اختیار رہتا ہے کہ میں بھول گیا اگرچہ بہت سی حدیثوں میں نسیان کی نسبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف ہی کی ہے اور قرآن مجید میں ہے۔ ﴿رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا﴾(البقرة: 286)(یہ تشریح لفظ نسیت آیة کیت و کیت سے متعلق ہے۔ )
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5032
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 944
´قرآن سے متعلق جامع باب۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کتنی بری بات ہے کہ کوئی کہے: میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ۱؎، بلکہ اسے کہنا چاہیئے کہ وہ بھلا دیا گیا، تم لوگ قرآن یاد کرتے رہو کیونکہ وہ لوگوں کے سینوں سے رسی سے کھل جانے والے اونٹ سے بھی زیادہ جلدی نکل جاتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 944]
944 ۔ اردو حاشیہ: ➊ ”بری بات ہے“ کے دو مفہوم بیان کیے گئے ہیں: ➊ اگر کوئی آدمی کوئی آیت بھول جائے تو یہ نہ کہے: نیست (میں بھول گیا) بلکہ کہ: نیست (میں بھلا دیا گیا) کیونکہ پہلے لفظ میں بے پروائی پائی جاتی ہے۔ گویا اس نے قرآن جان بوجھ کر بھلا دیا، غفلت کی، اسے کوئی اہمیت نہیں دی، عام سی بات سمجھا۔ جب کہ دوسرے لفظ میں ندامت اور معذرت کا انداز ہے کہ میں نے یاد رکھنے کی پوری کوشش کی مگر مجھے بھلا دیا گیا، لہٰذا پہلے لفظ کی بجائے دوسرا لفظ استعمال کرنا چاہیے۔ ➋ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ بہت بری بات ہے کہ کسی آدمی کو کہنا پڑے: ”میں فلاں آیت بھول گیا۔“ کیونکہ یہ اس کی سستی پر دلالت کرتی ہے کہ اس نے اسے بھلا دیا۔ گویا ایسا موقع ہی نہ آنے دیا جائے کہ کسی کو کہنا پڑے: ”میں فلاں آیت بھول گیا۔“ ➋ «نَسِيتُ»”میں بھول گیا“ نسیان کی نسبت اپنی طرف کرنے سے ممانعت اس لیے ہے کہ انسان ان لوگوں کے زمرے میں شامل نہ ہو جائے جن کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے۔ فرمان الٰہی ہے: « ﴿كَذَلِكَ أَتَتْكَ آيَاتُنَا فَنَسِيتَهَا وَكَذَلِكَ الْيَوْمَ تُنْسَى﴾ »[طه: 126: 20] ”جس طرح(دنیا میں) تیرے پاس ہماری آیتیں آئیں تو تو نے وہ بھلا دیں اور اسی طرح آج (قیامت کے دن) تجھے بھی بھلا دیا جائے گا۔“ چنانچہ ایسی بات کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ویسے بھی یہ بات انسان کی سستی اور قرآن سے غفلت پر دلالت کرتی ہے۔ ➌ اس حدیث مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص قرآن کریم کا دور کرنے اور اس کی تلاوت میں سستی کرتا ہے، اس کے لیے قرآن مشکل ہے۔ اور یہ بات اللہ کے فرمان: « ﴿وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ﴾ » کے منافی نہیں ہے کیونکہ جو شخص قرآن مجید یاد کرنا چاہے اور اسے سمجھنا چاہے، اس کے لیے قرآن آسان ہے اور جو اس کی پروا نہ کرے، اس کے لیے یہ مشکل ہے۔ واللہ أعلم۔ ➍ اونٹوں کو بھاگنے سے روکنا مقصود ہو تو ان کا اگلا ایک گھٹنا باندھ دیا جاتا ہے۔ اس طرح اونٹ مشکل سے چلتا ہے مگر وہ زور لگا لگا کر کوشش کرتا رہتا ہے کہ گھٹنا کھل جائے۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا جائے تو وہ آہستہ آہستہ گھٹنا رسی سے نکال لیتا ہے اور دور بھاگ جاتا ہے۔ اسی طرح قرآن مجید باقاعدگی سے پڑھا جاتا رہے تو وہ سینے میں محفوظ رہتا ہے۔ سستی کی جائے تو یہ سینے سے نکل جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 944
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2942
´باب:۔۔۔` عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے یا تم میں سے کسی کے لیے یہ کہنا برا ہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یہ کہو کہ وہ بھلا دیا گیا ۱؎ تم قرآن یاد کرتے دھراتے رہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قرآن لوگوں کے سینوں سے نکل بھاگنے میں چوپایوں کے اپنی رسی سے نکل بھاگنے کی بہ نسبت زیادہ تیز ہے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب القراءات/حدیث: 2942]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ ممانعت ”نہی تحریمی“ نہیں ہے، بلکہ ”نہی تنزیہی“ ہے یعنی: ایسا نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس سے اپنی سستی اورقرآن سے غفلت کا خود ہی اظہار ہے، یا یہ مطلب ہے کہ ''ایسا موقع ہی نہ آنے دے کہ یہ بات کہنے کی نوبت آئے بعض روایات میں ”میں بھول گیا“ کہنا بھی ملتا ہے، اس لیے مذکورہ ممانعت ”نہی تنزیہی“ پر محمول کی گئی ہے۔ یعنی ایسا نہ کرنا زیادہ بہترہے۔
2؎: معلوم ہوا کہ قرآن کو بار بار پڑھتے اور دہراتے رہنا چاہئے، کیونکہ قرآن جس طرح جلد یاد ہوتا ہے اسی طرح جلد ذہن سے نکل جاتا ہے، اس لیے قرآن کو بار بار پڑھنا اورکا دہرانا ضروری ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2942
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:91
91- ابووائل کہتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: تم اس قرآن کو باقاعدگی سے پڑھتے رہو، کیونکہ یہ انسان کے سینے سے اس زیادہ تیزی سے نکلتا ہے، جتنی تیزی سے چرنے والا جانور اپنی رسی سے نکلتا ہے، پھر انہوں نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”کسی بھی شخص کا یہ کہنا انتہائی برا ہے کہ میں فلاں اور فلاں آیات بھول گیا، بلکہ وہ اسے بھلادی گئی۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:91]
فائدہ: اس حدیث میں قرآن کریم کو حفظ کرنے کے بعد یاد رکھنے کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ جس طرح قرآن کریم یاد کرنا اہم ہے، اسی طرح اس کو یاد رکھنا بھی بہت اہم ہے، لہذا حافظ قرآن کو قرآن کریم کی خاطر خصوصی طور پر قبل از فجر یا بعد از فجر بلا ناغہ وقت نکالنا چاہیے تاکہ قرآن کریم بھولنے نہ پائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی آیت کا بھول جانا قابل ملامت نہیں۔ کوئی بھی انسان نہیں چاہتا کہ قرآن کریم مجھے بھلا دیا جائے بلکہ انسان بہت کمزور ہے، یاد کی ہوئی چیز بھول ہی جاتی ہے، اور انسان جب کوئی آیت بھول جائے تو اسے اس طرح کہنا چاہیے کہ میں فلاں آیت بھلا دیا گیا ہوں، اور بھلا نا شیطان کی طرف سے ہوتا ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ کسی کو قرآن کریم یادر ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 92
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1841
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انتہائی نازیبا بات ہے کہ کوئی انسان یہ کہے، میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں، بلکہ وہ بھلا دیا گیا ہے، قرآن مجید کی تلاوت پر مداومت و ہمیشگی کرو، کیونکہ وہ لو گوں کے سینے سے، بندھے ہوئے جانوروں سے (اونٹوں سے) زیادہ بھاگنے والا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1841]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: (نَسِيْتُ اّية كذا وكذا) کہنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کے بھولنے میں اس کا اپنا دخل ہے۔ اس نے قرآن مجید کی تلاوت اور اس کےتکرار کرنے سے غفلت اور کوتاہی برتی اور اس کی بے دھیانی اور بے خیالی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ قرآن مجید کا کچھ حصہ بھول گیا تو اس کا یہ غفلت برتنا اور قرآن مجید کی تلاوت سے کوتاہی برتنا اس کی نگہداشت اور محافظت نہ کرنا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے اس لیے اصل مقصود اس لفظ کے استعمال کی کراہت وناپسندیدگی نہیں ہے بلکہ اصل مقصود ان اسباب ووجوہ کی مذمت ہے جن کی بنا پر یہ لفظ کہنے کی ضرورت پڑی۔ اور (بَلْ هُوَ نَسِيَ) کا معنی یہ ہے کہ یہ اس کے جرم وقصور یا تلاوتِ قرآن کی محافظت ونگہداشت نہ کرنے کی سزا ہے۔ اگر وہ اس میں کوتاہی اور غفلت کا مرتکب نہ ہوتا تو یہ سزا نہ ملتی۔ جس طرح اونٹ اپنی رسی اور عقال کو تڑوانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے بھاگ دوڑ کا موقع ملے۔ اس طرح قرآن مجید اپنی تلاوت کی نگہداشت اور مواظبت چاہتا ہے وگرنہ حافظ کے سینہ سے نکل بھاگتا ہے۔ جس طرح اونٹ کا مالک پوری کوشش کرتا ہے کہ اونٹ کی رسی ٹوٹ نہ جائے اسی طرح حافظ کی پوری کوشش ہونی چاہیے کہ تلاوت قرآن کی محافظت ومداومت میں رخنہ پیدا نہ ہو اور یہ تسلسل ورابطہ ٹوٹ نہ جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1841
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1842
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےکہا! ان مصاحف کے ساتھ تجدید عہد کرتے رہا کرو یعنی ان کی تلاوت کی پابندی کرو اور بعض دفعہ انہوں نے مصاحف کی بجائے قرآن کہا، کیونکہ وہ انسانوں کے سینوں سے،اونٹوں کے اپنی رسیوں سے بڑھ کر بھاگنے والا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا ہے: ”تم میں سے کسی کو یہ نہیں کہنا چا ہیے کہ میں فلا ں فلا ں آیت بھول گیا ہوں، بلکہ وہ بھلا دیا گیا ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1842]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) اَشَدُّ تَفَصِّياً: وہ زیادہ بھاگتا ہے یا زیادہ نکل کھڑا ہوتا ہے۔ (2) عُقُلْ: عقال کی جمع ہے، زانو بند، جس رسی سے اونٹ کے پاؤں کو باندھا جاتا ہے۔ (3) تَعَاهَدُوْا: تجدید عہد کرو، اس سے تعلق ہر وقت قائم رکھو یعنی اس کی تلاوت کی پابندی کرو، درمیان میں زیادہ وقفہ نہ ہو۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1842
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5039
5039. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یوں کہے: فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں بلکہ اسے یوں کہنا چاہیے کہ میں فلاں فلاں آیات بھلا دیا گیا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5039]
حدیث حاشیہ: احادیث منقولہ اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔ قرآن کا یاد ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اسے بھول جانا بھی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے۔ کوشش انسان کا کام ہے، پس ہر مسلمان کو قرآن مجید کے یاد رکھنے کی کوشش کرتے رہناچاہئے جو لوگ قرآن مجید یاد کر کے اسے پڑھنا چھوڑ دیں وہ قرآن مجید ان کے ذہن سے نکل جائے ایسے غافل انسان کے لئے سخت ترین وعید آئی ہے اور اس شخص پر واجب ہے کہ روزانہ قرآن پاک کچھ حصہ بلا ناغہ دہرا لیا کرے۔ اس تسلسل سے قرآ ن پاک ذہن میں محفوظ رہے گا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت فرمایا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ میں بھول جاؤں لیکن اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ میرے ذمہ اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جمع کرنا اور زبان سے اس کی تلاوت کرانا ہے تو امت محمدیہ پر بھی واجب ہے کہ تلاوت قرآن پاک روزانہ کیا کرے تا کہ اس کو بھولنے نہ پائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5039
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5039
5039. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کسی کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ یوں کہے: فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں بلکہ اسے یوں کہنا چاہیے کہ میں فلاں فلاں آیات بھلا دیا گیا ہوں۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5039]
حدیث حاشیہ: 1۔ جوحضرات قرآن یاد کرکے اسے پڑھنا چھوڑ دیں، اس غفلت کی وجہ سے قرآن سینے سے نکل جائے تو ایسے غافل انسان کے لیے سخت ترین وعید آئی ہے، اس بنا پر حفاظ کرام کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلا ناغہ قرآن مجید کا کچھ حصہ ضرور تلاوت کرتے رہا کریں۔ اس تسلسل سے قرآن مجید ذہن سے محو نہیں ہوگا۔ 2۔ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا ہوں تو وہ گویا اقرارکرتا ہے کہ میں نے قرآن پڑھنے کا التزام نہیں کیا جس سے نسیان پیدا ہوگیا ہے۔ اس سے بڑھ کر ذلت اور رسوائی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ خود اپنے جرم کا اعتراف کر رہا ہے۔ اگر التزام و اہتمام کے باوجود قرآن مجید بھول گیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور اپنی عبودیت کا اظہار ہے کہ نسیان کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرے کیونکہ کوشش کے باوجود قرآن کو یاد نہیں رکھ سکا، بہرحال انسان کو چاہیے کہ وہ اسبابِ نسیان اختیار کرنے سے بچنے کی کوشش کرے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5039