(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، اخبرنا يحيى بن سعيد الاموي، عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقطع قراءته، يقول: الحمد لله رب العالمين سورة الفاتحة آية 2 ثم يقف الرحمن الرحيم سورة الفاتحة آية 3 ثم يقف، وكان يقرؤها مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4 "، قال ابو عيسى: هذا حديث غريب، وبه يقرا ابو عبيد ويختاره، وهكذا روى يحيى بن سعيد الاموي، وغيره عن ابن جريج، عن ابن ابي مليكة، عن ام سلمة، وليس إسناده بمتصل، لان الليث بن سعد روى هذا الحديث عن ابن ابي مليكة، عن يعلى بن مملك، عن ام سلمة، انها وصفت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم حرفا حرفا، وحديث الليث اصح، وليس في حديث الليث وكان يقرا مالك يوم الدين سورة الفاتحة آية 4.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَطِّعُ قِرَاءَتَهُ، يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سورة الفاتحة آية 3 ثُمَّ يَقِفُ، وَكَانَ يَقْرَؤُهَا مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَبِهِ يَقْرَأُ أَبُو عُبَيْدٍ وَيَخْتَارُهُ، وَهَكَذَا رَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، وَغَيْرُهُ عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، لِأَنَّ اللَّيْثَ بْنَ سَعْدٍ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكٍ، عَنْ أُمِّ سَلمَةَ، أَنَّهَا وَصَفَتْ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرْفًا حَرْفًا، وَحَدِيثُ اللَّيْثِ أَصَحُّ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَكَانَ يَقْرَأُ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ سورة الفاتحة آية 4.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے، آپ: «الحمد لله رب العالمين» پڑھتے، پھر رک جاتے، پھر «الرحمن الرحيم» پڑھتے پھر رک جاتے، اور «ملك يوم الدين» پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابو عبید بھی یہی پڑھتے تھے اور اسی کو پسند کرتے تھے ۲؎، ۳- یحییٰ بن سعید اموی اور ان کے سوا دوسرے لوگوں نے ابن جریج سے اور ابن جریج نے ابن ابی ملیکہ کے واسطہ سے ام سلمہ سے اسی طرح روایت کی ہے، اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، کیونکہ لیث بن سعد نے یہ حدیث ابن ابی ملیکہ سے ابن ابی ملیکہ نے یعلیٰ بن مملک سے انہوں نے ام سلمہ رضی الله عنہا سے روایت کی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت کی کیفیت ایک ایک حرف الگ کر کے بیان کی۔ لیث کی حدیث زیادہ صحیح ہے اور لیث کی حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم «ملك يوم الدين»“ پڑھتے تھے۔
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یعنی «مالک یوم الدین» کی جگہ «ملک یوم الدین» پڑھتے تھے۔
۲؎: یعنی: ابوعبید قاسم بن سلام «مالک یوم الدین» کے بجائے «ملک یوم الدین» کو پڑھنا پسند کرتے تھے۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1023
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔` یعلیٰ بن مملک سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت اور نماز کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: تم کہاں اور آپ کی نماز کہاں! پھر انہوں نے آپ کی قرأت بیان کی جس کا ایک ایک حرف بالکل واضح تھا۔ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1023]
1023۔ اردو حاشیہ: قرأت صاف ستھری ہونی چاہیے۔ ہر ایک لفظ الگ الگ سمجھ میں آنا چاہیے۔ ہر آیت اور جملے پر ٹھہرنا چاہیے تاکہ پڑھتے اور سنتے وقت معانی و مفہوم کی طرف توجہ ہو۔ معانی دل میں نقش ہوں اور دل پر اثر ہو اور نصیحت حاصل ہو جو قرآن کا اصل مقصد ہے، ورنہ خالی تجوید سے تو کوئی فائدہ نہ ہو گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1023