(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن سليمان التيمي، عن انس بن مالك، ان رجلين عطسا عند النبي صلى الله عليه وسلم " فشمت احدهما، ولم يشمت الآخر "، فقال الذي لم يشمته: يا رسول الله، شمت هذا ولم تشمتني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنه حمد الله وإنك لم تحمد الله "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ عَطَسَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَشَمَّتَ أَحَدَهُمَا، وَلَمْ يُشَمِّتِ الْآخَرَ "، فَقَالَ الَّذِي لَمْ يُشَمِّتْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، شَمَّتَّ هَذَا وَلَمْ تُشَمِّتْنِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَإِنَّكَ لَمْ تَحْمَدِ اللَّهَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی، آپ نے ایک کی چھینک پر «يرحمك الله» کہہ کر دعا دی اور دوسرے کی چھینک کا آپ نے جواب نہیں دیا، تو جس کی چھینک کا آپ نے جواب نہ دیا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی چھینک پر «یرحمک اللہ» کہہ کر دعا دی اور میری چھینک پر آپ نے مجھے یہ دعا نہیں دی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(چھینک آئی تو) اس نے اللہ کی حمد بیان کی اور (تجھے چھینک آئی تو) تم نے اس کی حمد نہ کی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر جو سنت کے مطابق «الحمدللہ» کہے وہی دعائے خیر کا مستحق ہے «الحمداللہ» نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں، یہ اور بات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھا دینا چاہیئے۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2742
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: اس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنے پر جو سنت کے مطابق (اَلْحَمْدُلِلہ) کہے وہی دعائے خیرکا مستحق ہے (اَلْحَمْدُلِلہ) نہ کہنے کی صورت میں جواب دینے کی ضرورت نہیں، یہ اور بات ہے کہ مسئلہ نہ معلوم ہونے کی صورت میں چھینکنے والے کو سمجھا دینا چاہئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2742
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6221
6221. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے پاس دو آدمیوں کو چھینک آئی۔ آپ ﷺ نے ایک کی چھینک کا جواب دیا اور دوسرے کی چھینک کا جواب نہ دیا۔ آپ سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس نے ”الحمد للہ کہا تھا اور دوسرے نے الحمد للہ نہیں کہا تھا۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6221]
حدیث حاشیہ: (1) چھینک مارنے والا الحمدللہ کہنے کے بعد ہی جواب کا مستحق ہوتا ہے۔ ایک آدمی نے الحمدللہ کہا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جواب دیا اور دوسرے نے اس سے پہلوتہی کی تو اس کا آپ نے جواب نہ دیا۔ (2) چھینک صحت، مزاج اور دماغ کی صفائی کا موجب ہے، اس پر اللہ کا شکر، یعنی الحمدللہ کہنا مسنون ہے اور سننے والے کو اس کا جواب دینا، اس لیے دعا کرنا اور اسے آگاہ کرنا ہوتا ہے کہ واجبات و حقوق کی ادائیگی کے باعث تو اس عطیے کا حق دار ہوا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6221