صفوان بن عسال رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا: چلو اس نبی کے پاس لے چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا
”نبی
“ نہ کہو۔ ورنہ اگر انہوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہو جائیں گی، پھر وہ دونوں رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے
(موسیٰ علیہ السلام کو دی گئیں) نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے ان سے کہا
(۱) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ
(۲) چوری نہ کرو
(۳) زنا نہ کرو
(۴) ناحق کسی کو قتل نہ کرو
(۵) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے
(۶) جادو نہ کرو
(۷) سود مت کھاؤ
(۸) پارسا عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ
(۹) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ
«سبت» (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو،
(آپ کا جواب سن کر) انہوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا:
”پھر تمہیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟
“ انہوں نے کہا: داود علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے۔ اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع
(پیروی) کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔