(مرفوع) حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله، اخبرنا يحيى بن ايوب، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم ابي عبد الرحمن، عن ابي امامة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" تمام عيادة المريض ان يضع احدكم يده على جبهته او قال: على يده , فيساله كيف هو، وتمام تحياتكم بينكم المصافحة" , قال ابو عيسى: هذا إسناد ليس بالقوي، قال محمد: عبيد الله بن زحر ثقة، وعلي بن يزيد ضعيف، والقاسم بن عبد الرحمن يكنى: ابا عبد الرحمن وهو مولى عبد الرحمن بن خالد بن يزيد بن معاوية وهو ثقة، والقاسم شامي.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" تَمَامُ عِيَادَةِ الْمَرِيضِ أَنْ يَضَعَ أَحَدُكُمْ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ أَوْ قَالَ: عَلَى يَدِهِ , فَيَسْأَلُهُ كَيْفَ هُوَ، وَتَمَامُ تَحِيَّاتِكُمْ بَيْنَكُمُ الْمُصَافَحَةُ" , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا إِسْنَادٌ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، قَالَ مُحَمَّدٌ: عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زَحْرٍ ثِقَةٌ، وَعَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ ضَعِيفٌ، وَالْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُكْنَى: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ وَهُوَ ثِقَةٌ، وَالْقَاسِمُ شَامِيٌّ.
ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مریض کی مکمل عیادت یہ ہے کہ تم میں سے عیادت کرنے والا اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر رکھے“، یا آپ نے یہ فرمایا: ”(راوی کو شبہ ہو گیا ہے) اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے، پھر اس سے پوچھے کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہارے سلام کی تکمیل یہ ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے سے مصافحہ کرو۔“
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے، ۲- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: عبیداللہ بن زحر ثقہ ہیں اور علی بن یزید ضعیف ہیں، ۳ - قاسم بن عبدالرحمٰن کی کنیت ابوعبدالرحمٰن ہے اور یہ عبدالرحمٰن بن خالد بن یزید بن معاویہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور ثقہ ہیں اور قاسم شامی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4910) (ضعیف) وانظر مسند احمد (5/260) (یہ سند مشہور ضعیف سندوں میں سے ہے، عبید اللہ بن زحر“ اور ”علی بن یزید‘‘ دونوں سخت ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (1288) // ضعيف الجامع الصغير (5297) //
قال الشيخ زبير على زئي: (2731) إسناده ضعيف عبيد الله بن زحرو على بن يزيد: ضعيفان(تقدما: 1282)