(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن إسحاق بن عبد الله، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " القاتل لا يرث "، قال ابو عيسى: هذا حديث لا يصح ولا يعرف إلا من هذا الوجه، وإسحاق بن عبد الله بن ابي فروة قد تركه بعض اهل الحديث، منهم احمد بن حنبل، والعمل على هذا عند اهل العلم ان القاتل لا يرث كان القتل عمدا او خطا وقال بعضهم: إذا كان القتل خطا فإنه يرث وهو قول مالك.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْقَاتِلُ لَا يَرِثُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ وَلَا يُعْرَفُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْحَاق بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ قَدْ تَرَكَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ، مِنْهُمْ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْقَاتِلَ لَا يَرِثُ كَانَ الْقَتْلُ عَمْدًا أَوْ خَطَأً وَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا كَانَ الْقَتْلُ خَطَأً فَإِنَّهُ يَرِثُ وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاتل (مقتول کا) وارث نہیں ہو گا“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح نہیں ہے، یہ صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، ۲- اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ (کی روایت) کو بعض محدثین نے ترک کر دیا ہے، احمد بن حنبل انہیں لوگوں میں سے ہیں، ۳- اہل علم کا اس حدیث پر عمل ہے کہ قاتل وارث نہیں ہو گا، خواہ قتل قتل عمد ہو یا قتل خطا، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: جب قتل قتل خطا ہو تو وہ وارث ہو گا۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الدیات 14 (2645)، والفرائض 8 (2735) (تحفة الأشراف: 12286) (صحیح) (سند میں اسحاق بن ابی فروہ ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث عمر، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اور ابن عباس کے شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، الإرواء: 1670، 1671، 1672)»
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2109
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں اسحاق بن ابی فروہ ضعیف راوی ہے، لیکن حدیث عمر، عبداللہ بن عمرو بن العاص، اور ابن عباس کے شواہد کی بنا پر صحیح لغیرہ ہے، الإرواء: 1670، 1671، 1672)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2109
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2735
´قاتل کی میراث کے حکم کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاتل وارث نہ ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2735]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) قتل وراثت سے محرومی کا باعث ہے، یعنی اگر قاتل مقتول سے ایسا رشتہ رکھتا ہو جس کی بنا پروہ وراثت میں حصے کا مستحق ہے تو قتل کی وجہ سے وہ اپنے اس حق سے محروم ہو جائے گا۔
(2) یہ حکم ہر قاتل کے لیے ہے، خواہ اصحاب الفروض میں سے ہو یا عصبہ میں سے ہو، مثلاً: اگر ایک شخص کے دوبیٹے ہوں، ان میں سے ایک اپنے باپ کا قتل کردے تو مقتول کے ترکے میں سے اصحاب الفروض کا حصہ نکال کرباقی مال مقتول کےاس بیٹے کو ملے گا جو قتل کے جرم میں شریک نہیں۔ دوسرا بیٹا جو قاتل ہے اسے کچھ نہیں ملے گا۔
(3) قتل کا محرک بعض دفعہ یہ جذبہ بھی ہوتا ہے کہ قاتل مقتول کی وراثت جلد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ قانون کی وجہ سے یہ محرک ختم ہوجاتا ہے۔ اس طرح یہ قانون انسانوں کی جانوں کا محافظ ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2735