عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان نہ سن لو
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ، انیسہ، انس، ابوذر اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۳- رات ہی میں اذان کہہ دینے میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر رات باقی ہو تبھی مؤذن اذان کہہ دے تو کافی ہے، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں، مالک، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ رات میں اذان دیدے تو اسے دہرائے
۱؎، یہی سفیان ثوری کہتے ہیں،
۴- حماد بن سلمہ نے بطریق
«ایوب عن نافع عن ابن عمر» روایت کی ہے کہ بلال رضی الله عنہ نے رات ہی میں اذان دے دی، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ پکار کر کہہ دیں کہ بندہ سو گیا تھا۔ یہ حدیث غیر محفوظ ہے، صحیح وہ روایت ہے جسے عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے بطریق نافع عن ابن عمر روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں، لہٰذا تم کھاتے پیتے رہو، جب تک کہ ابن ام مکتوم اذان نہ دے دیں، اور عبدالعزیز بن ابی رواد نے نافع سے روایت کی ہے کہ عمر رضی الله عنہ کے مؤذن نے رات ہی میں اذان دے دی تو عمر نے اسے حکم دیا کہ وہ اذان دہرائے، یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ نافع اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور شاید حماد بن سلمہ، کی مراد یہی حدیث
۲؎ ہو، صحیح عبیداللہ بن عمر دوسرے رواۃ کی روایت ہے جسے ان لوگوں نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور زہری نے سالم سے اور سالم نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں،
۵- اگر حماد کی حدیث صحیح ہوتی تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہوتا، جس میں ہے کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں، آپ نے لوگوں کو آنے والے زمانے کے بارے میں حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں
“ اور اگر آپ طلوع فجر سے پہلے اذان دے دینے پر انہیں اذان لوٹانے کا حکم دیتے تو آپ یہ نہ فرماتے کہ
”بلال رات ہی میں اذان دے دیتے ہیں
“، علی بن مدینی کہتے ہیں: حماد بن سلمہ والی حدیث جسے انہوں نے ایوب سے، اور ایوب نے نافع سے، اور نافع نے ابن عمر سے اور عمر نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے روایت کی ہے غیر محفوظ ہے، حماد بن سلمہ سے اس میں چوک ہوئی ہے۔
● صحيح البخاري | 2656 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى يؤذن أو قال حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم |
● صحيح البخاري | 7248 | عبد الله بن عمر | بلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم |
● صحيح البخاري | 617 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم ثم قال وكان رجلا أعمى لا ينادي حتى يقال له أصبحت أصبحت |
● صحيح البخاري | 620 | عبد الله بن عمر | بلالا ينادي بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم |
● صحيح مسلم | 2537 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم |
● صحيح مسلم | 2536 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم |
● جامع الترمذي | 203 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم |
● سنن النسائى الصغرى | 638 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم |
● سنن النسائى الصغرى | 639 | عبد الله بن عمر | بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا تأذين ابن أم مكتوم |
● بلوغ المرام | 151 | عبد الله بن عمر | إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 74 | عبد الله بن عمر | إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم |
● مسندالحميدي | 623 | عبد الله بن عمر | أن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 151
´طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے`
«. . . وعن ابن عمر وعائشة رضي الله عنهم قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن ام مكتوم . . .»
”. . . سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا ”بلال (رضی اللہ عنہ) رات کو اذان کہتا ہے تم لوگ ابن ام مکتوم (رضی اللہ عنہ) کی اذان تک کھا پی لیا کرو . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 151]
� لغوی تشریح:
«يُؤَذَّنُ بِلَيْلِ» رات کو اذان کہنے کا مطلب ہے کہ طلوع فجر سے قبل اذان کہتا ہے۔
«فَكُلُوا وَاشْرَبُوا» کھاؤ پیو سے مراد ہے کہ اگر تم روزہ رکھنے کا ارادہ رکھتے ہو تو سحری کا وقت باقی ہے، کھا پی سکتے ہو۔
«إِدْرَاجٌ» کا مطلب ہے: حدیث میں راوی کا اپنی طرف سے تشریح و توضیح کی صورت میں اضافہ کرنا۔ ادراج سے مراد یہاں «وَكَانَ رَجُلًا أَعْمٰي» کا فقرہ ہے جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما یا زہری رحمہ اللہ کی طرف سے اضافہ شدہ ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ دوسری اذان وقت سے مؤخر کر کے دی جاتی تھی کیونکہ اطلاع دینے والا سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو یا تو فجر کے طلوع ہونے کے قریب اطلاع دیتا یا جب فجر کا کچھ حصہ نمودار ہو جاتا اس وقت انہیں مطلع کرتا۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ طلوع فجر سے پہلے بھی اذان کہنا مشروع ہے لیکن یہ اذان اس غرض کے لیے نہیں ہوتی جس غرض کے لیے معمول کی اذان دی جاتی ہے بلکہ اس سے مقصود سوئے ہوئے لوگوں کو بیدار کرنا ہوتا ہے کہ وہ انہیں اور نماز کی تیاری کریں۔ یا تہجد گزاروں کو آگاہ کرنا تاکہ نماز ختم کر لیں اور فجر کے لئے تیار ہوئیں۔
➋ ان دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ زیادہ نہیں ہوتا تھا، زیادہ سے زیادہ 10، 15 منٹ کا وقفہ ہو گا۔
➌ مذکورہ بالا حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مسجد میں نماز کی اذان دینے کے لیے دو مؤذن رکھنا درست ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 151
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 74
´تہجد کی اذان`
«. . . 281- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن بلالا ينادي بليل، فكلوا واشربوا حتى ينادي ابن أم مكتوم .“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک بلال رات کو اذان دیتے ہیں پس کھاؤ اور پیو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 74]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 620، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صبح کی اذان سے پہلے رات کی اذان مسنون ہے جسے آج کل سحری یا تہجد کی اذان کہا جاتا ہے۔
➋ جس حدیث میں آیا ہے کہ صبح کی پہلی اذان میں «الصلوٰة خير من النوم» کہو، اس سے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ والی رات کی اذان مراد لینا غلط ہے بلکہ صبح کی دو اذانیں ہوتی ہیں: ① صبح کی اذان ② اقامت
اس میں اقامت کے بجائے صبح کی پہلی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا چاہئے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ «من السنة إذا قال المؤذن فى أذان الفجر، حي على الفلاح قال: الصلوٰة خير من النوم۔» جب مؤذن اذانِ فجر میں حی علیٰ الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا سنت ہے۔ [صحيح ابن خزيمه ج1 ص202 ح386 وسنده صحيح وصححه البيهقي 1/423]
اس حدیث سے ابوجعفر الطحاوی نے استدلال کیا ہے کہ یہ الفاظ صبح کی اذان میں کہنے چاہئیں۔ دیکھئے: [شرح معاني الآثار 1/137] تفصیلی دلائل کے لئے دیکھئے: [السنن الكبريٰ للبيهقي 1/423] اور شیخ امین اللہ پشاور ی کی کتاب [فتاويٰ الدين الخالص ج3 ص223 225]
◄ شیخ امین اللہ حفظہ اللہ فرماتے ہیں: «وإن قول الشيخ الألباني حفظه الله ضعيف فى هذه المسئلة» بے شک شیخ البانی رحمہ اللہ کا قول اس مسئلے میں ضعیف ہے۔ [فتاويٰ الدين الخالص ج3 ص225]
➌ نابینا مؤذن کو اگر لوگ صحیح وقت بتا دیں تو اس کا اذان دینا صحیح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 281
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 638
´ایک مسجد میں دو مؤذن ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات ہی میں اذان دیتے ہیں تو تم لوگ کھاؤ پیو ۱؎ یہاں تک کہ (عبداللہ) ابن ام مکتوم اذان دیں۔“ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 638]
638 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اگر ایک نماز کے لیے دو اذانیں ہوں (جیسے فجر اور جمعۃ المبارک) تو مؤذن بھی دو چاہئیں تاکہ آواز کا امتیاز رہے اور لوگ پہلی اور دوسری اذان میں امتیاز کرسکیں۔
➋ آپ کے دور مبارک میں صلاۃ فجر کے لیے دو اذانیں ہوا کرتی تھیں۔ ایک فجرکے طلوع سے پہلے تاکہ لوگ جاگ جائیں اور حوائج ضروریہ سے فارغ ہولیں کیونکہ قدرتی طور پر اس وقت باقی نمازوں کے اوقات کے مقابل میں زیادہ مصروفیت ہوتی ہے۔ اگر ایک اذان پر اکتفا کرتے تو لوگ جماعت سے رہ جاتے اور دوسری اذان طلوع فجر کے بعد نماز فجر کا قرب ظاہر کرنے کے لیے تاکہ لوگ گھروں سے چل پڑیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور اقامت میں زیادہ فاصلہ نہیں فرماتے تھے بلکہ اندھیرے میں نماز شروع فرماتے تھے۔ پہلی اذان بلال رضی اللہ عنہ کہتے اور دوسری ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ۔
➌ پہلی اذان نہ تو تہجد کے لیے تھی نہ سحری کے لیے، بلکہ یہ اصل اذان سے تھوڑی دیر قبل ہوتی تھی۔ مقصد اوپر بیان ہو چکا ہے۔ تہجد نفل ہیں اور نفل نماز کے لیے اذان نہیں، جیسے صلاۃ عید، صلاۃ کسوف، صلاۃ استسقا اور تراویح وغیرہ، لہٰذا تہجد کے لیے بھی اذان نہیں ہو گی۔ سحری ویسے ہی اذان سے غیر متعلق ہے۔ اذان نماز کے لیے ہے نہ کہ کھانے کے لیے۔ ہاں! ان دو اذانوں سے کوئی سحری کا فائدہ اٹھانا چاہے تو اٹھا لے، منع نہیں جیسا کہ حدیث کے اندر اشارہ موجود ہے۔ مزید اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 638
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:623
623-سالم اپنے والد سیدنا (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے)نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”بلال رات کے وقت ہی اذان دے دیتا ہے، تو تم اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک تم ابن ام مکتوم کی اذان نہیں سنتے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:623]
فائدہ:
اس حدیث میں سحری کی اذان کا ثبوت ہے، اور یہ اذان پورا سال کہنی چاہیے، بعض لوگ صرف رمضان میں کہتے ہیں جو کہ درست نہیں ہے، کیونکہ روزے پورا سال کوئی نہ کوئی رکھتا رہتا ہے، کوئی نفلی روزے رکھتا ہے اور کوئی قضا کے روزے وغیرہ رکھتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ نابینا شخص بھی اذان کہہ سکتا ہے، جب اس کو کوئی وقت بتانے والا ہو، اس حدیث میں یہ بھی اضافہ ہے کہ سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نا بینا تھے، وہ اتنی دیر تک اذان نہیں کہتے تھے جب تک انھیں کہا نہ جاتا کہ تم نے صبح کر دی، یعنی اذان کا وقت ہو گیا ہے۔ [صحيح البخاري: 617 صحيح مسلم: 1092]
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 623
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 617
617. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے تم (روزے کے لیے) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔“ راوی حدیث نے کہا: ابن ام مکتوم ؓ ایک نابینا آدمی تھے، وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ ان سے کہا جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:617]
حدیث حاشیہ:
عہد رسالت ہی سے یہ دستور تھا کہ سحری کی اذان حضرت بلال دیا کرتے تھے اورنماز فجر کی اذان حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم نابینا۔
عہد خلافت میں بھی یہی طریقہ رہا اور مدینہ منورہ میں آج تک یہی دستور چلا آ رہا ہے۔
جو لوگ اذان سحری کی مخالفت کرتے ہیں، ان کا خیال صحیح نہیں ہے۔
اس اذان سے نہ صرف سحری کے لیے بلکہ نماز تہجد کے لیے بھی جگانا مقصود ہے۔
حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 617
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 620
620. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال ؓ رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے کھاؤ اور پیو، تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:620]
حدیث حاشیہ:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد نبوی میں فجر میں دواذانیں دی جاتی تھیں۔
ایک فجر ہونے سے پہلے اس بات کی اطلاع کے لیے کہ ابھی سحری کا اورنماز تہجد کا وقت باقی ہے۔
جولوگ کھانا پینا چاہیں کھا پی سکتے ہیں، تہجد والے تہجد پڑھ سکتے ہیں۔
پھر فجر کے لیے اذان اس وقت دی جاتی جب صبح صادق ہوچکتی۔
پہلی اذان کے لیے حصرت بلال مقرر تھے اوردوسری کے لیے حضرت ابن ام مکتوم اورکبھی اس کے برعکس بھی ہوتا جیسا کہ آگے بیان ہو رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 620
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2656
2656. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔“ یافرمایا: ”حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب ؓ کی اذان سنو۔“ ابن مکتوم ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2656]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی مطابقت باب سے ظاہر ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے، کھانا پینا چھوڑدیتے، حالانکہ وہ نابینا تھے۔
اس سے بھی نابینا کی گواہی کا اثبات مقصود ہے اور ان لوگوں کی تردید جو نابینا کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2656
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7248
7248. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک ابن ام مکتوم ازان دیں (تب کھانا پینا بند کر دو)“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7248]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ:
باب اس سے نکلا کہ آپ نے ایک شخص بلال یا عبد اللہ ابن مکتوم کی اذان کو عمل کے لیے کافی سمجھا اس سے بھی خبر واحد کا اثبات ہوا۔
واحد شخص جب معتبر ہوئے اس کا روایت کرنا بھی اسی طرح حجت ہے جیسے شخص واحد کی اذان جملہ مسلمانوں کے لیے حجت ہے۔
خبر واحد کو حجت نہ ماننے والے کو چاہئے کہ شخص واحد کی اذان کو بھی تسلیم نہ کرے۔
إذا لیس فلیس۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7248
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:617
617. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے تم (روزے کے لیے) کھاتے پیتے رہو تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔“ راوی حدیث نے کہا: ابن ام مکتوم ؓ ایک نابینا آدمی تھے، وہ اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ ان سے کہا جاتا کہ صبح ہو گئی، صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:617]
حدیث حاشیہ:
(1)
علامہ نوی ؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے متعلق لکھا ہے کہ ان کے نزدیک نابینے کی اذان صحیح نہیں۔
اس کے متعلق حافظ ابن حجر العسقلانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ ؒ کی طرف اس کراہت کا انتساب صحیح نہیں، البتہ احناف کی فقہی کتاب"محیط" میں نابینے کی اذان کے متعلق کراہت کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 131/2)
علامہ عینی ؒ نے بھی اس کا ذکر کیا ہے، لیکن کراہت کا اصل سبب عدم مشاہدہ کو قرار دیا ہے، لہٰذا اگر کوئی دیکھنے والا نابینے کو صحیح وقت کی خبر دے تو کراہت نہیں ہوگی۔
(عمدة القاري: 180/4)
مصنف ابن ابی شیبہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ وہ نابینے کی اذان کو مکروہ خیال کرتے تھے۔
یہ کراہت بھی اسی بنیاد پر ہے جب اسے نہ خود تجربہ ہو اور نہ اسے صحیح وقت بتانے والا ہی ہو۔
امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان میں اسی شرط کا ذکر فرمایا ہے۔
واضح رہے کہ حضرت ابن ام مکتوم ؓ صبح کی اذان کے لیے طلوع فجر کا صحیح صحیح اندازہ لگا لیتے تھے، اس سلسلے میں ان سے کبھی خطا سرزد نہیں ہوئی، چنانچہ بعض روایات میں اس کی صراحت بھی ہے۔
(فتح الباري: 133/2) (2)
حضرت عائشہ ؓ سےروایت ہے، انھوں نے فرمایا:
رسول اللہ ﷺ کے تین مؤذن تھے:
حضرت بلال ؓ، حضرت ابو محذورہ ؓ اور حضرت عمرو بن ام مکتوم۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ابن ام مکتوم چونکہ نابینے آدمی ہیں، اس لیے ان کی اذان سے کسی دھوکے میں مت پڑنا، البتہ بلال کی اذان کے بعد کھانا پینا بند کردیں۔
اسی طرح حضرت انیسہ بنت خبیب ؓ کہتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”جب ابن ام مکتوم اذان دے تو کھاؤ پیو اور جب بلال اذان دے تو کھانا پینا موقوف کردو۔
“ (صحیح ابن خزیمة: 210/1، حدیث: 404)
یہ روایات صحیح بخاری کی روایت کے برعکس ہیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سحری اور فجر کی اذان کے لیے ان حضرات کی باری مقرر کر رکھی تھی۔
کبھی سحری کی اذان حضرت بلال کہتے تھے اور فجر کی اذان حضرت ابن ام مکتوم ؓ کے ذمے تھی جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں ہے اور کبھی سحری کی اذان حضرت ابن مکتوم کہتے تھے اور فجر کی اذان حضرت بلال کے ذمے تھی، اس بنا پر ان روایات میں کوئی تضاد نہیں۔
(عمدة القاري: 182/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 617
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:620
620. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلال ؓ رات کو اذان دیتا ہے، اس لیے کھاؤ اور پیو، تاآنکہ ابن ام مکتوم اذان دے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:620]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت میں حضرت ابن ام مکتوم ؓ کی اذان کو حضرت بلال ؓ کی اذان کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے، نیز اس میں یہ بھی صراحت ہے کہ حضرت بلال رات کو اذان کہتے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن مکتوم کی اذان رات کے وقت نہیں تھی، بلکہ رات کے اختتام پر طلوع فجر کے بعد ہوتی تھی۔
وهو المقصود (2)
واضح رہے کہ بعض روایات اس کے برعکس ہیں۔
ان میں ہے کہ ابن ام مکتوم رات کے وقت اذان دیتے ہیں، اس لیے کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ حضرت بلال اذان دیں، بلکہ صحیح ابن خزیمہ کی روایت میں صراحت ہے کہ جب عمرو بن ام مکتوم اذان دیں تو کسی کو دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے وہ نابینا ہیں، اس لیے اس اذان کے بعد سحری کھانے پینے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب حضرت بلال اذان دیں تو کھانا پینا بند کردیا جائے۔
حضرت عائشہ ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کے بیان کو غلط کہتی تھیں، فرماتی تھیں کہ بلال کی ذمے داری تھی کہ وہ طلوع فجر کو دیکھتے رہیں۔
ان متعارض روایات کی تطبیق بایں طور ہے کہ جب اذان کا آغاز ہوا تو صبح کی اذان بھی حضرت بلال کہتے تھے۔
جیسا کہ ایک صحابیہ فرماتی ہیں کہ میرا مکان مدینے میں سب سے اونچا تھا۔
حضرت بلال میرے مکان کی چھت پر چڑھ جاتے اور طلوع فجر کو دیکھتے رہتے، جب فجر طلوع ہوجاتی تو انگڑائی لیتے اور اذان کہنا شروع کردیتے، اس کے بعد حضرت ابن ام مکتوم کو سحری کی اذان پر متعین کیا گیا۔
ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا، آخر کار حضرت ابن مکتوم کو اذان فجر پر مقرر کردیا گیا اور حضرت بلال کو سحری کی اذان سونپ دی گئی۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض اوقات حضرت بلال غلبۂ نیند کی وجہ سے اذان فجر قبل از وقت کہہ دیتے جس کی بعد میں تلافی کرنی پڑتی، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اذان فجر کے لیے حضرت ابن ام مکتوم کی ڈیوٹی لگا دی، چونکہ وہ نابینا تھے، اس لیے وہ اس وقت اذان دیتے جب انھیں طلوع فجر کے متعلق اطلاع دی جاتی۔
(فتح الباري: 135/2-
136)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 620
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2656
2656. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان کہتے ہیں، اس لیے تم سحری کھاتے پیتے رہو حتیٰ کہ دوسری اذان دی جائے۔“ یافرمایا: ”حتیٰ کہ تم ابن ام مکتوب ؓ کی اذان سنو۔“ ابن مکتوم ؓ نابینے شخص تھے، وہ اذان نہ دیتے حتیٰ کہ لوگ ان سے کہتے: صبح ہوگئی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2656]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں یہ طریقہ تھا کہ حضرت بلال ؓ فجر کی پہلی اذان دیتے جبکہ سحری کھانے پینے کے لیے کافی وقت ہوتا تھا، پھر طلوع فجر کے عام وقت پر حضرت ابن ام مکتوم ؓ اذان دیتے اور ان کی آواز سے کھانا پینا بند کر دیا جاتا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ لوگ ابن ام مکتوم ؓ کی اذان پر اعتماد کرتے اور کھانا پینا چھوڑ دیتے، حالانکہ وہ نابینا شخص تھے۔
اس سے بھی نابینے کی گواہی ثابت کرنا مقصود ہے۔
اس سے ان لوگوں کی تردید ہوتی ہے جو نابینے کی گواہی قبول نہ کرنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
بہرحال نابینے شخص کو جس طریقے سے بھی کسی چیز کا علم ہو جائے اس کے متعلق وہ گواہی دے سکتا ہے، اس کے لیے مشاہدے کی ضرورت نہیں جیسا کہ ابن ام مکتوم ؓ کے نابینا ہونے کے باوجود ان کا اذان دینا قبول کیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2656
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7248
7248. سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نےفرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتے ہیں اس لیے تم کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک ابن ام مکتوم ازان دیں (تب کھانا پینا بند کر دو)“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7248]
حدیث حاشیہ:
ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نابینا شخص تھے۔
یہ نماز فجر کے لیے صبح کی اذان کہتے تھے یہ اس وقت تک اذان نہیں کہتے تھے جب تک لوگ انھیں صبح ہونے کی خبر نہ دیتے کیونکہ وہ خود تو دیکھ نہ سکتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مہم پر جاتے تو نمازوں کے لیے انھیں اپنا قائم مقام بناتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بلال کی اذان سحری کھانے پینے سے رکاوٹ کا باعث نہیں بلکہ جب ابن ام مکتوم اذان دے تو کھانا پینا ترک کر دو۔
“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کی اذان کو عمل کے لیے کافی سمجھا اس سے بھی خبر واحد کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے جب ایک شخص کی اذان تمام مسلمانوں کے لیےقابل حجت ہے تو خبر واحد کے حجت ہونے میں کیا امرمانع ہے خبر واحد کو حجت نہ ماننے والوں کو چاہیے کہ وہ ایک شخص کی اذان کو بھی تسلیم نہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7248
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 617
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال تو رات رہے اذان دیتے ہیں۔ اس لیے تم لوگ کھاتے پیتے رہو۔ یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ وہ نابینا تھے اور اس وقت تک اذان نہیں دیتے تھے جب تک ان سے کہا نہ جاتا کہ صبح ہو گئی۔ صبح ہو گئی۔ [صحيح بخاري ح: 617]
فوائد:
➊ بعض لوگ نابینا آدمی کی اذان کو نا جائز، بعض مکروہ اور بعض خلافِ اولیٰ قرار دیتے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ اگر نابینے آدمی کو کوئی وقت بتانے والا ہو تو اس کی اذان بلا کراہت جائز ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مؤذن نابینا تھا اور اب تو گھڑیوں اور موبائل نے نابینا حضرات کے لیے مسئلہ ہی حل کر دیا ہے۔
➋ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کا نام عبد اللہ ہے، انھیں عمرو بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے والد کا نام قیس بن زائده القرشی العامری ہے، یہ ام المؤمنین خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے ماموں کے بیٹے ہیں۔ شروع اسلام ہی میں مسلمان ہو گئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کا اکرام کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ انھیں مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ سورۃ عبس انھی کے بارے میں اتری۔ مدینہ میں ایک وقت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما دو مؤزن تھے۔ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جنگ قادسیہ میں شریک ہوئے اور اسی میں شہید ہوئے۔ [فتح الباري]
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 617
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 620
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، دیکھو بلال رضی اللہ عنہ رات رہے میں اذان دیتے ہیں، اس لیے تم لوگ (سحری) کھا پی سکتے ہو۔ جب تک ابن ام مکتوم اذان نہ دیں۔ [صحيح بخاري ح: 620]
فوائد:
➊ اس حدیث میں ہے کہ بلال رضی اللہ عنہ کی اذان رات کو ہوتی تھی، اس سے ظاہر ہے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی اذان رات ختم ہونے کے بعد ہوتی تھی، اسی کا نام فجر ہے اور باب کا مقصد بھی یہی ہے۔
➋ واضح رہے کہ بعض روایات اس کے برعکس ہیں، ان میں ہے کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رات کے وقت اذان کہتے ہیں، اس لیے کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ بلال رضی اللہ عنہ اذان کہیں، بلکہ صحیح ابن خزیمہ (212/1، ح: 408) کی روایت میں صراحت ہے کہ جب عمرو بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کسی کو دھوکے میں نہیں رہنا چاہیے، وہ نابینا ہیں، اس لیے اذان کے بعد سحری کھانے میں کوئی حرج نہیں، لیکن جب بلال رضی اللہ عنہ اذان کہیں تو کھانا پینا بند کر دیا جائے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیان کے برعکس کہتی تھیں۔ فرماتی تھیں کہ بلال رضی اللہ عنہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ طلوع فجر کو دیکھتے رہیں۔ [صحيح ابن خزيمه: 211/1، ح: 407] ان متعارض روایات کی تطبیق اس طرح ہے کہ جب اذان کا آغاز ہوا تو (رات کی اذان اور) صبح کی اذان بھی بلال رضی اللہ عنہ کہتے تھے، جیسا کہ ایک صحابیہ فرماتی ہیں کہ میرا مکان مدینے میں سب سے اونچا تھا، بلال رضی اللہ عنہ میرے مکان کی چھت پر چڑھ جاتے اور طلوع فجر کو دیکھتے رہتے، جب فجر طلوع ہو جاتی تو انگڑائی لیتے اور اذان شروع کر دیتے۔ اس کے بعد سحری کی اذان (پہلی اذان) پر ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مقرر کر دیا گیا۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر میں ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو فجر کی اذان پر مقرر کر دیا گیا اور بلال رضی اللہ عنہ کو سحری کی اذان سونپ دی گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ بعض اوقات بلال رضی اللہ عنہ نیند کے غلبے کی وجہ سے فجر کی اذان وقت سے پہلے کہہ دیتے جس کی بعد میں تلافی کرنا پڑتی۔ [ديكهيے ابوداؤد: 532، صحيح] اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان فجر کے لیے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی لگا دی، چونکہ وہ نابینا تھے، اس لیے وہ اس وقت اذان کہتے جب انھیں طلوعِ فجر کے متعلق اطلاع دی جاتی۔ [فتح الباري: 135/2، 136] [هداية القاري بتغيير يسير]
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 620