علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1294
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا مت کرو اور نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے ایسا وعدہ بھی نہ کرو جس کی بعد میں خلاف ورزی کرو۔“ اسے ترمذی نے کمزور سند سے روایت کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1294»
تخریج: «أخرجه الترمذي، البر والصلة، باب ما جاء في المراء، حديث:1995.* فيه ليث بن أبي سليم ضعيف.»
تشریح:
مذکورہ روایت گو سنداً ضعیف ہے لیکن کتاب و سنت کے دیگر دلائل کی روشنی میں جھگڑا کرنا اور ایسا مذاق کرنا منع ہے جو کسی کی ایذا رسانی کا باعث بنتا ہو۔
امام نووی رحمہ اللہ مزاح کی بابت لکھتے ہیں:
”وہ مزاح ممنوع ہے جس میں افراط ہو اور جو ہمیشہ کیا جاتا رہے کیونکہ مزاح سے ہنسی اور سنگ دلی پیدا ہوتی ہے‘ اللہ کے ذکر سے غفلت پیدا ہوتی ہے اور دین کے حقیقی مسائل سے فکر ہٹ جاتی ہے بلکہ اکثر اوقات یہ مذاق ایذا رسانی کا باعث بنتا ہے اور اس سے بہت زیادہ بغض و کینہ پیدا ہوجاتا ہے اور انسان کا وقار اور ہیبت و رعب جاتا رہتا ہے‘ البتہ جو مزاح ان خطرات سے محفوظ ہو وہ مباح ہے اور ایسا مزاح کبھی کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا ہے جس سے مخاطب کا دل خوش ہو جاتا اور اس کی محبت میں اضافہ ہو جاتا‘ اس لیے ایسا مزاح مستحب ہے۔
“ نیز کتاب و سنت کے دیگر دلائل سے وعدہ خلافی کی ممانعت بھی ثابت ہوتی ہے‘ لہٰذا مذکورہ اعمال قبیحہ سے اجتناب ضروری ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1294