الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1296
گالی میں پہل کرنے والے کے لئے وعید
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: المستبان ما قالا فعلى الباديء ما لم يعتد المظلوم . اخرجه مسلم.»
”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کو گالی دینے والے دو شخص جو کچھ کہیں (اس کا گناہ) پہل کرنے والے پر ہے جب تک مظلوم زیادتی نہ کرے۔“ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1269]
تخریج:
[مسلم، البر والصلته/68]
[تحفته الاشراف 232/10]
فوائد:
گالی کا بدلہ لینے کا جواز:
اس حدیث میں اس شخص سے بدلہ لینے کو جائز رکھا گیا ہے جو گالی دینے میں پہل کرے بشرطیکہ بدلہ لینے والا صرف اتنی گالی پر صبر کرے جتنی اسے دی گئی ہے زیادتی نہ کرے۔ اس صورت میں دونوں کا گناہ پہل کرنے والے کی گردن پر ہو گا۔ کیونکہ گالی گلوچ کے اس سلسلے کا اصل باعث وہ بنا ہے۔
«فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ» [2-البقرة:194]
”تو جو شخص تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر کی ہے۔“
جواب میں گالی دینے سے پرہیز کی فضیلت:
لیکن اگر یہ صبر کرے اور برداشت کرے تو یہ افضل ہے اور باعث ثواب ہے کیوں کہ جب جواب شروع ہو جائے تو اکثر اوقات زیادتی ہو جاتی ہے اور شیطان کو دخل دینے کا موقع مل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّـهِ» [42-الشورى:40]
”اور برائی کی جزا اس کی مثل برائی ہے پھر جو شخص معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔“
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو گالی دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ تعجب کرتے رہے اور مسکراتے رہے جب اس نے زیادہ ہی برا بھلا کہا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی کسی بات کا جواب دے دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے اور (وہاں سے) اٹھ کھڑے ہوئے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے جا کر آپ سے ملے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا اور آپ بیٹھے ہوئے تھے جب میں نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو آپ غصے سے اٹھ گئے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ تھا جو تمہاری طرف سے جواب دے رہا تھا جب تم نے اس کی کسی بات کا جواب دیا تو شیطان آ گھسا سو میں شیطان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ [مسند احمد 2/436]
اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں [هيثمي]
البانی نے اسے حسن کہا۔ دیکھیے: صحیح ابی داود [4897 ]
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 200