عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے
(مدینہ منورہ میں ایک رات) صبح کی تو ہم رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اپنا خواب بتایا
۱؎ تو آپ نے فرمایا:
”یہ ایک سچا خواب ہے، تم اٹھو بلال کے ساتھ جاؤ وہ تم سے اونچی اور لمبی آواز والے ہیں۔ اور جو تمہیں بتایا گیا ہے، وہ ان پر پیش کرو، وہ اسے زور سے پکار کر کہیں
“، جب عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے بلال رضی الله عنہ کی اذان سنی تو اپنا تہ بند کھینچتے ہوئے رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ نبی بنا کر بھیجا ہے، میں نے
(بھی) اسی طرح دیکھا ہے جو انہوں نے کہا، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ کا شکر ہے، یہ بات اور پکی ہو گئی
“۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن زید رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۳- اور ابراہیم بن سعد نے یہ حدیث محمد بن اسحاق سے اس سے بھی زیادہ کامل اور زیادہ لمبی روایت کی ہے۔ اور اس میں انہوں نے اذان کے کلمات کو دو دو بار اور اقامت کے کلمات کو ایک ایک بار کہنے کا واقعہ ذکر کیا ہے،
۴- عبداللہ بن زید ہی ابن عبدربہ ہیں اور انہیں ابن عبدرب بھی کہا جاتا ہے، سوائے اذان کے سلسلے کی اس ایک حدیث کے ہمیں نہیں معلوم کہ ان کی نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی اور بھی حدیث صحیح ہے، البتہ عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی کی کئی حدیثیں ہیں جنہیں وہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، اور یہ عباد بن تمیم کے چچا ہیں۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 156
´اذان ٹھہر ٹھہر کر کہنا`
«. . . وعن جابر رضي الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال لبلال: إذا اذنت فترسل وإذا اقمت فاحدر واجعل بين اذانك وإقامتك مقدار ما يفرغ الاكل من اكله . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”جب اذان کہو تو ٹھہر ٹھہر کر کہو اور تکبیر ذرا جلدی جلدی کہو۔ اذان اور اقامت کے درمیان اتنا وقفہ کرو کہ کھانا کھانے والا اپنے کھانے سے فارغ ہو کر جماعت میں شریک ہو سکے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 156]
� لغوی تشریح:
«فَتَرَسُّلْ» «تَرَسُّل» سے امر کا صیغہ ہے، یعنی ٹھہر ٹھہر کر، آرام سے کلمات اذان ادا کر۔ جلدی اور تیزی نہ کر۔
«فَاحْدُرُ» باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» سے امر کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں: جلدی جلدی ادا کرنا۔ اس حدیث کی سند میں عبدالمنعم راوی ہے جسے محدثین نے متروک کہا ہے۔ لیکن اس مفہوم کی متعدد روایات ہیں جو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے آہستہ آہستہ اذان دینے پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں اونچی آواز سے اذان دینے کی ترغیب ہے۔
«وَضَعَّفَهُ أَيْضًا» اس کو بھی امام ترمذی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ معاویہ بن یحییٰ یہ حدیث زہری سے روایت کرتا ہے اور زہری سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں۔ معاویہ نہایت ضعیف ہے اور زہری کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ہی ثابت نہیں۔ اس اعتبار سے یہ روایت منقطع ہے۔
«وَمَنْ أَذَّنَ» کا ماقبل پر عطف ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: «ان اخا صداء اذن» یعنی صداء قبیلے کے ایک شخص نے اذان کہی۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: «و من اذن فهو يقيم» کہ جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔ اس حدیث سے مصنف رحمہ اللہ نے یہ ٹکڑا حذف کر دیا۔ مکمل حدیث اس طرح ہے کہ زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے قبیلہ صداء کے آدمی! اذان کہو۔“ میں نے اذان کہی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب فجر روشن ہو چکی تھی۔ جب آپ وضو کرنے کے بعد نماز پڑھانے لگے تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہنا چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدائی بھائی اقامت کہے گا کیونکہ جو اذان کہے وہی اقامت کہے۔“ اسے نسائی کے علاوہ پانچوں نے بیان کیا ہے۔ [سنن ابي داود، كتاب الصلاة، حديث: 514]
«صداء» کے ”صاد“ پر ضمہ اور ”دال“ مخفف ہے۔ ایک قبیلے کا نام ہے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ اس کا ضعف اس وجہ سے ہے کہ اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن زیاد بن انعم افریقی ہے، امام ابن قطان وغیرہ نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن ثوری رحمہ اللہ اس کی تعظیم کرتے تھے اور امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وہ مقارب الحدیث ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔
طبرانی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں اس کی تائید بھی موجود ہے جس کے الفاظ ہیں: ”ٹھہرو، اے بلال! اقامت وہی کہے جس نے اذان کہی ہے۔“ امام ترمذی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اہل علم کی اکثریت کے نزدیک اسی پر عمل ہے کہ جو اذان کہے وہی اقامت کا حقدار ہے۔ ہاں، یہ حدیث سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث کے معارض ہے جو اسی روایت کے آخر میں ابوداود کے حوالے سے مروی ہے۔ اور ان دونوں احادیث میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اس معاملہ میں وسعت ہے، دوسرا بھی تکبیر کہہ سکتا ہے۔
«وَفِيهِ ضُعْفٌ أَيْضًا» اور اس میں بھی ضعف ہے۔ امام بیہقی نے بیان کیا ہے کہ اس حدیث کی سند اور متن میں اختلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ اور ”سیدنا الصدائی“ رضی اللہ عنہ کی یہ دونوں احادیث اگر صحیح ہوں تو صدائی کی حدیث راجح ہے کیونکہ وہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بعد کی ہے۔
راویٔ حدیث:
(سیدنا زیاد بن حارث رضی اللہ عنہ) صداء (”صاد“ پر ضمہ اور ”دال“ مخفف) قبیلہ کے فرد ہیں۔ یہ یمن کا ایک قبیلہ تھا۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی ہوئی تھی۔ آپ کے روبرو اذان دی۔ بصریوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 156
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث706
´اذان کی ابتداء کیسے ہوئی؟`
عبداللہ بن زید (عبداللہ بن زید بن عبدربہ) رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بگل بجوانے کا ارادہ کیا تھا (تاکہ لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں، لیکن یہود سے مشابہت کی وجہ سے اسے چھوڑ دیا)، پھر ناقوس تیار کئے جانے کا حکم دیا، وہ تراشا گیا، (لیکن اسے بھی نصاری سے مشابہت کی وجہ سے چھوڑ دیا)، اسی اثناء میں عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب دکھایا گیا، انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دو سبز کپڑے پہنے ایک آدمی کو دیکھا جو اپنے ساتھ ناقوس لیے ہوئے تھا، میں نے اس سے کہا: اللہ کے بندے! کیا تو یہ ناقوس بیچے گا؟ اس شخص نے کہا: تم اس کا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 706]
اردو حاشہ:
(1)
اللہ تعالی نیک مومن کی رہنمائی بعض اوقات خواب کے ذریعے سے بھی کردیتا ہے اس لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے:
مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
ایک روایت میں یہ لفظ ہیں:
نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ (صحيح مسلم، الرؤيا، باب في كون الرؤيا من الله۔
۔
۔
۔
۔
۔
الخ، حدیث: 2265)
(2)
محض خواب سے کوئی شرعی مسئلہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔
حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کا خواب نبی اکرمﷺ کی منظوری سے شرعی حکم قرار پایا اس لیے اگر کوئی خواب بظاہر شریعت کے حکم کے خلاف ہو تو یا تو وہ اللہ کی طرف سے نہیں شیطان کی طرف سے ہوتا ہے یا اس کا وہ مطلب نہیں ہوتا جو بظاہر معلوم ہوتا ہے۔
(3)
نرسنگا ایک قسم کا بگل ہوتا ہے جس میں پھونک ماری جاتی ہے تو زور کی آواز پیدا ہوتی ہے۔
یہودی اس کے ذریعے سے اپنی عبادت کے وقت اعلان کرتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس کی تجویز پیش ہوئی اور آپ ﷺ نے بھی سوچا کہ اگر یہ تجویز قبول کرلی جائے تو کوئی حرج نہیں لیکن اسے عملی جامہ نہیں پہنایا گیا۔
(4)
دوسری تجویز ناقوس کی پیش کی گئی۔
ناقوس دو لکڑیاں ہوتی ہیں جنھیں ایک دوسرے پر مارا جاتا ہے تو آواز پیدا ہوتی ہے۔
عیسائی بعض خاص موقعوں پر ناقوس بجاتے ہیں۔
یہ تجویز پہلی تجویز کی نسبت بہتر تھی کیونکہ یہ عیسائیوں کا طریقہ ہے اور وہ یہود کی نسبت مسلمانوں سے ذہنی طور پر قریب ہوتے ہیں اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اس تجویز کو زیادہ پسند فرمایا تاہم محسوس یہی کیا گیا کہ ہمارا طریقہ دوسری قوموں سے ممتاز ہونا چاہیے۔
(5)
ایک تجویز یہ بھی پیش کی گئی کہ نماز کے وقت آگ جلائی جائے۔
دن میں دھوئیں کی وجہ سے اور رات کو روشنی سے لوگ متوجہ ہوجائیں اور نماز کے لیے آ جائیں لیکن یہ تجویز مجوس سے مشابہت کی وجہ سے رد کردی گئی۔
اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تجویز پیش کی کہ ایک آدمی اذان کے وقت اعلان کردیا کرے۔
یہ تجویز پسند کی گئی اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بلال! اٹھو نماز کے لیے آواز دو۔
اس اعلان کے لیے اذان کے کلمات حضرت عبد اللہ بن زید اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خواب کے بعد موجودہ صورت میں متعین ہوگئے۔ (صحیح البخاری، الاذان، باب بدء الاذان، حديث: 604)
(6)
دینی امور میں بھی انتظامی معاملات مسلمانوں کے آپس کے مشورے سے طے کرنے چاہییں البتہ جس معاملے میں شریعت کی واضح ہدایت آ جائے وہاں مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں اس پر عمل کرنا چاہیے۔
(7)
اس واقعہ میں حضرت عبد اللہ بن زید بن عبدربہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا اثبات ہے۔
(8)
مؤذن ایسا شخص مقرر کرنا چاہیے جس کی آواز زیادہ بلند ہو۔
(9)
اللہ تعالی کسی کو کوئی خاص شرف عطا فرمائے تو فخر کی نیت سے نہیں بلکہ شکر کی نیت سے اللہ کی نعمت اور احسان کا ذکر کرنا درست ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 706