(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يعقوب بن الوليد المدني، عن عبد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الوقت الاول من الصلاة رضوان الله، والوقت الآخر عفو الله ". قال ابو عيسى: هذا غريب، وقد روى ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، قال: وفي الباب عن علي , وابن عمر , وعائشة , وابن مسعود. قال ابو عيسى: حديث ام فروة لا يروى إلا من حديث عبد الله بن عمر العمري، وليس هو بالقوي عند اهل الحديث، واضطربوا عنه في هذا الحديث وهو صدوق، وقد تكلم فيه يحيى بن سعيد من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَقْتُ الْأَوَّلُ مِنَ الصَّلَاةِ رِضْوَانُ اللَّهِ، وَالْوَقْتُ الْآخِرُ عَفْوُ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ , وَابْنِ عُمَرَ , وَعَائِشَةَ , وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ فَرْوَةَ لَا يُرْوَى إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، وَلَيْسَ هُوَ بِالْقَوِيِّ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَاضْطَرَبُوا عَنْهُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَهُوَ صَدُوقٌ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابن عباس رضی الله عنہ نے بھی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- اور اس باب میں علی، ابن عمر، عائشہ اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- ام فروہ کی (اوپر والی) حدیث (نمبر: ۱۷۰) عبداللہ بن عمر عمری ہی سے روایت کی جاتی ہے اور یہ محدثین کے نزدیک قوی نہیں ہیں، اس حدیث میں لوگ ان سے روایت کرنے میں اضطراب کا شکار ہیں اور وہ صدوق ہیں، یحییٰ بن سعید نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان پر کلام کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 7731) (موضوع) (سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں اور یعقوب بن ولید مدنی کو ائمہ نے کذاب کہا ہے)»
قال الشيخ الألباني: موضوع، الإرواء (259)، المشكاة (606)، // ضعيف الجامع (6164) //
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف جداً (موضوع) يعقوب بن الوليد: كذبه أحمد وغيره (تق:7835)
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 141
´آخر وقت (میں ادا کرنا) اللہ تعالیٰ سے معافی کا موجب ہے` «. . . وعن ابي محذورة ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: اول الوقت رضوان الله واوسطه رحمة الله وآخره عفو الله . . .» ”. . . سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اول وقت (میں نماز پڑھنا) رضائے الٰہی کا موجب ہے اور درمیانی وقت (میں ادائیگی نماز) رحمت الٰہی کا سبب ہے اور آخر وقت (میں ادا کرنا) اللہ تعالیٰ سے معافی کا موجب ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 141]
� لغوی تشریح: «دون الاوسط» سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں درمیانے وقت کا ذکر نہیں۔ اس میں صرف اول اور آخر کا ذکر ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ دونوں احادیث انتہائی ضعیف ہیں۔ ان پر اعتماد مناسب نہیں۔ جہاں تک (بلوغ المرام حدیث 141 میں) سنن دارقطنی کی روایت کا تعلق ہے تو وہ روایت یعقوب بن ولید کے واسطے سے مروی ہے۔ امام أحمد رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں قول ہے کہ یہ بڑے بڑے دروغ گو لوگوں میں سے ہے۔ اور ابن معین نے بھی اسے جھوٹا اور کذاب قرار دیا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے نظر انداز ہی کر دیا ہے۔ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث وضع کیا کرتا (خود گھڑتا اور اپنی طرف سے بناتا) تھا۔ اور اس کی سند میں ابراہیم بن زکریا بجلی بھی موجود ہے جسے مہتم قرار دیا گیا ہے۔ رہی ترمذی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت تو اس میں بھی یعقوب بن ولید موجود ہے۔ ➋ محدیثین ناقدین کے نقد و جرح کے بعد یہ حدیث قابل اعتنا ہی نہیں رہتی۔
راویٔ حدیث: (سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ) ان کا نام سمرہ یا اوس بن مِعْیر (میم کے نیچے کسرہ، عین ساکن اور یا پر فتحہ ہے) جہمی ہے۔ مؤذن رسول تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ مکہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ نماز پنجگانہ کی اذان دیتے تھے۔ 59 ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 141