وعن ابي محذورة ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «اول الوقت رضوان الله واوسطه رحمة الله وآخره عفو الله» . اخرجه الدارقطني بسند ضعيف جدا. وللترمذي من حديث ابن عمر نحوه دون الاوسط وهو ضعيف ايضا.وعن أبي محذورة أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «أول الوقت رضوان الله وأوسطه رحمة الله وآخره عفو الله» . أخرجه الدارقطني بسند ضعيف جدا. وللترمذي من حديث ابن عمر نحوه دون الأوسط وهو ضعيف أيضا.
سیدنا ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اول وقت (میں نماز پڑھنا) رضائے الٰہی کا موجب ہے اور درمیانی وقت (میں ادائیگی نماز) رحمت الٰہی کا سبب ہے اور آخر وقت (میں ادا کرنا) اللہ تعالیٰ سے معافی کا موجب ہے۔“ دارقطنی نے اسے نہایت ہی ضعیف سند سے روایت کیا ہے اور ترمذی میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی اسی طرح ہے لیکن اس میں لفظ «وسط» مذکور نہیں اور وہ ضعیف بھی ہے۔
हज़रत अबु महज़ूरा रज़ि अल्लाहु अन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! “पहले समय (में नमाज़ पढ़ना) अल्लाह की ख़ुशी का कारण है और बीच का समय (में नमाज़ पढ़ना) अल्लाह की रहमत का कारण है और आख़री समय (में नमाज़ पढ़ना) अल्लाह तआला से माफ़ी का कारण है।” दारक़ुतनी ने इसे बेहद ही ज़ईफ़ सनद से रिवायत किया है और त्रिमीज़ी में इब्न उमर रज़ि अल्लाहु अन्हुमा की हदीस भी इसी तरह है लेकिन इस में शब्द « وسط » नहीं कहा गया और वह ज़ईफ़ भी है।
تخریج الحدیث: «أخرجه الدار قطني: 1 /250* إبراهيم بن زكريا ضعيف وحديثه منكر، وقال ابن عدي: "حدث بالبواطيل"، وحديث ابن عمر أخرجه الترمذي، حديث:172 وفيه يعقوب بن الوليد، كذبه أحمدوغيره.»
Narrated Abu Mahdhurah (RA):
The Prophet (ﷺ) said: "The earliest time of prayer is what pleases Allah, the midtime is for the mercy of Allah and the latest time is what Allah pardons." [Reported by ad-Daraqutni with a very weak Sanad (chain)].
at-Tirmidhi has reported something similar, narrated by Ibn 'Umar, without mentioning the midtime. [It is Da'if (weak) too].
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 141
� لغوی تشریح: «دون الاوسط» سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں درمیانے وقت کا ذکر نہیں۔ اس میں صرف اول اور آخر کا ذکر ہے۔
فوائد و مسائل: ➊ یہ دونوں احادیث انتہائی ضعیف ہیں۔ ان پر اعتماد مناسب نہیں۔ جہاں تک (بلوغ المرام حدیث 141 میں) سنن دارقطنی کی روایت کا تعلق ہے تو وہ روایت یعقوب بن ولید کے واسطے سے مروی ہے۔ امام أحمد رحمہ اللہ کا اس کے بارے میں قول ہے کہ یہ بڑے بڑے دروغ گو لوگوں میں سے ہے۔ اور ابن معین نے بھی اسے جھوٹا اور کذاب قرار دیا ہے۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے نظر انداز ہی کر دیا ہے۔ اور امام ابن حبان رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث وضع کیا کرتا (خود گھڑتا اور اپنی طرف سے بناتا) تھا۔ اور اس کی سند میں ابراہیم بن زکریا بجلی بھی موجود ہے جسے مہتم قرار دیا گیا ہے۔ رہی ترمذی میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت تو اس میں بھی یعقوب بن ولید موجود ہے۔ ➋ محدیثین ناقدین کے نقد و جرح کے بعد یہ حدیث قابل اعتنا ہی نہیں رہتی۔
راویٔ حدیث: (سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ) ان کا نام سمرہ یا اوس بن مِعْیر (میم کے نیچے کسرہ، عین ساکن اور یا پر فتحہ ہے) جہمی ہے۔ مؤذن رسول تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ مکہ میں قیام پذیر ہو گئے۔ نماز پنجگانہ کی اذان دیتے تھے۔ 59 ہجری میں وفات پائی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 141
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 172
´اول وقت میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز اول وقت میں اللہ کی رضا مندی کا موجب ہے اور آخری وقت میں اللہ کی معافی کا موجب ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 172]
اردو حاشہ: نوٹ: (سند میں عبداللہ بن عمر العمری ضعیف ہیں اور یعقوب بن ولید مدنی کو آئمہ نے کذاب کہا ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 172