(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عمر بن الخطاب، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسمر مع ابي بكر في الامر من امر المسلمين وانا معهما ". وفي الباب عن عبد الله بن عمرو , واوس بن حذيفة , وعمران بن حصين. قال ابو عيسى: حديث عمر حسن، وقد روى هذا الحديث الحسن بن عبيد الله، عن إبراهيم، عن علقمة، عن رجل من جعفي يقال له: قيس او ابن قيس، عن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث في قصة طويلة، وقد اختلف اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين ومن بعدهم في السمر بعد صلاة العشاء الآخرة، فكره قوم منهم السمر بعد صلاة العشاء، ورخص بعضهم إذا كان في معنى العلم، وما لا بد منه من الحوائج، واكثر الحديث على الرخصة قد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا سمر إلا لمصل او مسافر ".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْمُرُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فِي الْأَمْرِ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ وَأَنَا مَعَهُمَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو , وَأَوْسِ بْنِ حُذَيْفَةَ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَسَنٌ، وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ جُعْفِيٍّ يُقَالُ لَهُ: قَيْسٌ أَوْ ابْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ فِي قِصَّةٍ طَوِيلَةٍ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ فِي السَّمَرِ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، فَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْهُمُ السَّمَرَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ إِذَا كَانَ فِي مَعْنَى الْعِلْمِ، وَمَا لَا بُدَّ مِنْهُ مِنَ الْحَوَائِجِ، وَأَكْثَرُ الْحَدِيثِ عَلَى الرُّخْصَةِ قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا سَمَرَ إِلَّا لِمُصَلٍّ أَوْ مُسَافِرٍ ".
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم مسلمانوں کے بعض معاملات میں سے ابوبکر رضی الله عنہ کے ساتھ رات میں گفتگو کرتے اور میں ان دونوں کے ساتھ ہوتا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، اوس بن حذیفہ اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام اور تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم نے عشاء کے بعد بات کرنے کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے عشاء کے بعد بات کرنے کو مکروہ جانا ہے اور کچھ لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، بشرطیکہ یہ کوئی علمی گفتگو ہو یا کوئی ایسی ضرورت ہو جس کے بغیر چارہ نہ ہو ۱؎ اور اکثر احادیث رخصت کے بیان میں ہیں، نیز نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ”بات صرف وہ کر سکتا ہے جو نماز عشاء کا منتظر ہو یا مسافر ہو“۔
وضاحت: ۱؎: رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اور علمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً کھیل کود، تاش بازی، شطرنج کھیلنا، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ دیکھنا، سننا تو یہ ویسے بھی حرام، لغو اور مکروہ کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف الأعمش وإبراهيم النخعي مدلسان (الأعمش: د 14، إبراهيم النخعي د 2235) وعنعنا . وحديث " لاسمر إلا لمصل أو مسافر " أخرجه أحمد (1/412،463) وسنده ضعيف لإنقطاعه .
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 169
اردو حاشہ: 1؎: رہے ایسے کام جن میں کوئی دینی اورعلمی فائدہ یا کوئی شرعی غرض نہ ہو مثلاً کھیل کود، تاش بازی، شطرنج کھیلنا، ٹیلی ویژن اور ریڈیو وغیرہ دیکھنا، سننا تو یہ ویسے بھی حرام، لغو اور مکروہ کام ہیں، عشاء کے بعد ان میں مصروف رہنے سے ان کی حرمت یا کراہت اور بڑھ جاتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 169